گردوں کی غیر قانونی پیوند کاری کیوں نہیں روکی جاسکی
ایف آئی اے نے غیر قانونی طور پر گردوں کی پیوند کاری کرنے والے ایک گروہ کا سراغ لگایا ہے او ر پہلے مرحلے میں دو ڈاکٹروں سمیت دس افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ گرفتار افراد سے ملنے والی معلومات کی مدد سے مزید گرفتاریاں بھی متوقع ہیں۔ محکمہ صحت نے اس گروہ میں شامل ڈاکٹروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹر اس غیر قانونی دھندے میں ملوث پائے گئے تو ان کے خلاف باقاعدہ کارروائی کی جائے گی۔ یہ منظم گروہ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک گھر کو گردوں کی خفیہ پیوندکاری کے لئے استعمال کرتا رہا۔ جو ضرورت مند لوگ اپنا گروہ فروخت کرتے تھے، انہیں بہت کم رقم ادا کی جاتی تھی۔ بعض معاملات میں ایسا بھی ہوا کہ گروہ فروخت کرنے والوں کو طے شدہ رقم ادا نہیں کی گئی، جب یہ لوگ احتجاج کرتے یا اس غیر قانونی دھندے کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شکایت کی دھمکی دیتے تو انہیں الٹا ڈرا دھمکا کرخاموش کردیا جاتا تھا۔چند سال قبل جب بعض علاقوں میں گردوں کی پیوندکاری کی بہت زیادہ شکایات ملنے لگیں تو اس وقت بڑے پیمانے پر اس غیر قانونی دھندے کے بارے میں انکشافات ہوئے تھے اور یہ افسوسناک صورت حال سامنے آئی کہ بعض صحت مند نوجوانوں کو اچھی ملازمت دینے کے بہانے اغوا کرلیا جاتا اور پھر انہیں بے ہوش کرکے ان کا گردہ نکال کر منظم گروہ لاکھوں روپے کماتے تھے۔ المیہ ہے کہ بہت سے لوگ قرض ادا کرنے یا بہنوں کی شادی کے اخراجات کی غرض سے اپنا گردہ بیچنے کے لئے بھی تیار ہو جاتے ہیں ۔ ان سے زیادتی یہ ہوتی ہے کہ انہیں طے شدہ معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ جن لوگوں کے گردے دھوکے سے نکالے جاتے ہیں، وہ جب ایف آئی اے یا پولیس سے شکایت کرتے تو انہیں ٹال دیا جاتا اور مقدمہ درج کرکے ملزموں کو گرفتار نہیں کیا جاتا۔ اسی لئے یہ تاثر عام ہے کہ ایف آئی اے اور پولیس والے بھی غیر قانونی دھندے کی سرپرستی میں ملوث ہوتے ہیں۔ ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ جو لوگ ماضی میں گرفتار کئے گئے ان میں سے بہت کم لوگوں کو سزا ہوئی۔ اس حوالے سے ناقص تفتیش اور منظم گروہوں سے ملی بھگت کی شکایات درست معلوم ہوتی ہیں۔ اس بارے میں بھی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کی ضرورت ہے جبکہ ڈاکٹروں کے خلاف بھی سخت کارروائی ہونی چاہئے۔