پاکستان کا وہ معصوم ترین وزیر اعظم جس نے حلف اٹھاتے ہی ایسا سوال اٹھا دیا کہ فوجی آمر کا رنگ ہی اڑ گیا ،اسکے بعد وزیر اعظم کے ساتھ وہ کام ہوگیا جس کی مثالیں ابھی تک دی جاتی ہیں 

پاکستان کا وہ معصوم ترین وزیر اعظم جس نے حلف اٹھاتے ہی ایسا سوال اٹھا دیا کہ ...
پاکستان کا وہ معصوم ترین وزیر اعظم جس نے حلف اٹھاتے ہی ایسا سوال اٹھا دیا کہ فوجی آمر کا رنگ ہی اڑ گیا ،اسکے بعد وزیر اعظم کے ساتھ وہ کام ہوگیا جس کی مثالیں ابھی تک دی جاتی ہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور(ایس چودھری ) میاں نواز شریف کے بارے کہا جاتا ہے کہ فوج سے ٹکراو انکی سرشت میں شامل ہے ،وہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کی ڈکٹیشن کو قبول نہ کرنے کی پاداش میں تخت سے محروم کئے جاتے رہے ہیں حتٰی کہ اسی جرات پر وہ تختہ دار پر بھی جاتے جاتے بچ گئے لیکن انہوں نے سالہا سال کے تجربوں سے کچھ نہیں سیکھا ۔،میاں نواز شریف پاکستان کے تین بار وزیر اعظم منتخب ہوئے اور ہر بار نکالے گئے ،عجیب اتفاق ہے کہ وزیر اعظم بننے سے پہلے وہ فوج کے انتہائی چہیتے تھے اور جنرل ضیا الحق نے پہلے انہیں پنجاب کا وزیر خزانہ پھر 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں وزیر اعلٰی پنجاب بنایاتھا ۔جرنیلوں کو ان پر بہت زیادہ اعتماد تھا کہ وہ ان کے سیاسی کھیل کے بہترین کھلاڑی ہوں گے لیکن یہ خوش فہمی بہت جلد ختم ہوگئی ۔انہیں جرنیلی سیاست راس نہ آئی کیونکہ انہوں نے جرنیلوں کا ساتھ دیتے ہوئے پاکستان کے ایک سادہ اور معصوم وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے ساتھ دغا کیا تھا ۔جنرل ضیا الحق نے جب جونیجوصاحب کی حکومت کوختم کیا تو بعد ازاں میاں نواز شریف نے اپنے سیاسی قائد جونیجوصاحب کی جماعت پر قبضہ کرلیااور آج بھی انہیں اسکے طعنے دئیے جاتے ہیں۔پاکستان مسلم لیگ میں جونیجوصاحب کی روح اور خون شامل تھا ۔انہوں نے جنرل ضیا الحق اور جرنیلوں کے خواب چکنا چور کردئے تھے ۔پاکستان میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی ان کا خواب تھا جس کے لئے وہ ایسے قدم اٹھانے پر مجبور ہوگئے جو رائج الوقت سیاست میں انتہائی خوفناک نتائج کے حامل تھے لیکن جونیجوصاحب یہ کام کرگزرے جس کی انہیں بھاری قیمت بھی ادا کرنی پڑی۔ 
پاکستان کے دسویں اور مرنجان مرنج سندھڑی وزیراعظم محمد خان جونیجو پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ بھی تھے جنہیں جنرل ضیا ء الحق نے ایک بے ضرر اور موم کا آدم سمجھ کر وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بٹھایا تھا ۔سندھ کی روحانی شخصیت پیر پگاڑا نے جنرل ضیا الحق کو یہ ضمانت دی تھی کہ محمد خان جونیجو ان کی حکومت کے لئے مسائل پیدا نہیں کریں گے۔حالانکہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد جنرل ضیاء الحق ترجیحاً الٰہی بخش سومرو کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے ۔ لیکن جنرل ضیا الحق کو اس وقت سب سے بڑا جھٹکا لگ گیا جب جونیجوصاحب نے وزارت عظمیٰ کا حلف اْٹھاتے ہی جنرل ضیاء الحق سے ملاقات میں پوچھ لیا کہ’’جنرل صاحب آپ مارشل لاء کب اْٹھا رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے وزیراعظم کی حیثیت میں قومی اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں دبنگ لہجے میں کہا ’’جمہوریت اور مارشل لاء دونوں اکٹھے نہیں چل سکتے‘‘۔یہ ایسا تلخ جملہ تھاکہ اسی وقت پیش گوئی کردی گئی کہ جونیجو اور ضیا ء اکٹھے نہیں چل سکتے ۔ایک سادہ مزاج وزیر اعظم کا یہ لہجہ دیکھ کر جنرل ضیا الحق نے مارشل لا اٹھانے کا فیصلہ کرلیا کیونکہ منتخب پارلیمان سے پہلے ہی وہ ٹیکوکریٹس کی مجلس شوریٰ سے آٹھویں ترمیم سمیت کئی قوانین پاس کراچکے تھے تاکہ ان کے بھٹو کی حکومت کے خلاف کئے اقدامات کو چیلنج نہ کیا جاسکے ۔
جنرل ضیا نے جونیجوصاحب کے تیور دیکھنے کے بعد آٹھویں ترمیم استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔جونیجوصاحب سیاسی طور پر مضبوط نہ ہونے کے باوجود جرنیولوں سے ٹکراگئے تھے ۔وہ پہلے وزیر اعظم تھے جنہوں نے جرنیلوں سے درآمد شدہ بڑی کاریں لے کر ان کو سوزوکی کاریں دینے کا حکم جاری کردیا تھا ۔انکی یہ جرات رندانہ جرنیلوں کو بہت ناگوار گزری۔جونیجوصاحب نے اپنی سرکاری بڑی گاڑیاں بھی واپس کردی تھیں ،صرف اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جنرل1986ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطنی ختم کرکے پاکستان واپس آئیں تو جونیجوصاحب نے انہیں ملک بھر میں ریلیاں کرنے کی اجازت دے دی۔ مزید براں جنرل ضیاء الحق کے دباؤ کے باوجود جنرل پیرداد خان اور جنرل شمیم عالم خان کو کورکمانڈر بنانے اور جنرل عارف، جنرل رحیم کو توسیع دینے سے انکار کردیاتھا ۔جونیجوصاحب نے مزید آگے بڑھتے ہوئے جرنیلوں کے احتساب کا بھی ارادہ ظاہر کردیا اور یہ فیصلہ جنرل ضیاء الحق کو ناگوار لگا اور انہوں نے جونیجو کی حکومت برطرف کرتے ہوئے کہا ’’فوج کو سرپرستوں کی ضرورت ہے مقدمہ چلانے والوں کی نہیں.‘‘ 

مزید :

ڈیلی بائیٹس -