کیا (ن)لیگ نے ڈسکہ، نوشہرہ کا الیکشن سلیکٹرز کے کندھوں پر جیتا؟سعید غنی، ہمارے بجائے الیکشن کمیشن کو جواب دیں: رانا ثنا ء اللہ
کراچی(سٹاف رپورٹر)وزیر تعلیم و محنت سندھ و صدر پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن سعید غنی نے کہا کہ اس وقت سیاسی پختگی کے حوالے سے بلاول بھٹو زرداری کا سیاسی قد تمام سیاستدانوں سے بڑا ہے، ہم پر سلیکٹرز کے ذریعے حلقہ این اے 249 کا الیکشن جیتنے کا الزام لگانے والے بتائیں کہ کیا ڈسکہ، وزیر آباد اور نوشہرو کے انتخابات انہوں نے سلیکٹرز کے کاندھوں پر جیتا ہے۔ انتخابات سے 10 روز پہلے ہی سابق گورنر اور مسلم لیگی رہنماء محمد زبیر کو بتا چکا تھا کہ آپ کا امیدوار ایک نااہل امیدوار ہے اور ہم آپ سے تو یہ الیکشن جیت گئے ہیں اب ہمارا اصل مقابلہ ٹی ایل پی سے ہے۔ آصف علی زرداری، ادی فریال اور دیگر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو عدالتیں ضمانت دیں تو ہم پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ کوئی ڈیل کی ہے اور اگر شاہد خاقان عباسی کا نام ای سی ایل سے نکال کر انہیں نواز شریف سے جاکر ملاقات کے لیئے راستہ ملے تو اسے کیا کہا جائے۔ اپوزیشن جماعتوں میں شامل نون لیگ اور دوسری جماعتیں خود عمران نیازی کو ہٹانا نہیں چاہیتی اور بوزدار کو گرانا نہیں چاہتے اور الزام ڈیل کا ہم پر لگایا جارہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کے روز بلاول ہاؤس میڈیا سیل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکرٹری وقار مہدی، حلقہ این اے 249 کے کامیاب امیدوار قادر مندوخیل، ڈسٹرکٹ ویسٹ کے صدر لیاقت آسکانی اور دیگر بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔ سعید غنی نے کہا کہ گذشتہ دو سے تین روز سے مسلم لیگ (ن) کی پوری قیادت پیپلز پارٹی پر بھونڈے اور بے بنیاد الزامات لگانے میں مصروف ہے اس لئے ہم نے بہتر سمجھا کہ ان کو ان کا اصلی چہرہ پریس کانفرنس میں دکھایا جائے۔ سعید غنی نے کہا کہ میں خود شاہد خاقان عباسی کا ذاتی طور پر بہت احترام اپنے دل میں رکھتا تھا لیکن جس طرح انہوں نے گذشتہ دنوں میں باتیں کی ہیں، ان سے ان کا امیج خراب ہوا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ حلقہ این اے 249 کے انتخابات کے آغاز سے پولنگ کے اختتام اور اس کے بعد ووٹوں کی گنتی کے عمل تک کسی ایک پارٹی کی جانب سے کوئی دھاندلی کی شکایات نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ خود شاہد خاقان عباسی، محمد زبیر اور مفتاح اسماعیل رات 10 بجے آر او آفس پہنچ گئے تھے اور تمام نتائج الیکشن کمیشن کے مطابق رات 11 بجے تک پریذائڈنگ آفیسرز نے پہنچا دئیے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی پر کوئی اعتراض ہوتا ہے تو اس کے شواہد بھی دئیے جاتے ہیں۔ اگر مسلم لیگ (ن) کو کسی بات پر اعتراض ہے تو وہ شواہد بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن میں ہار کے بعد جس طرح ہم پر سلیکٹرز کی پشت پناہی کا الزام عائد کرنے والوں سے ہم پوچھتے ہیں کہ کیا ڈسکہ، وزیر آباد اور نوشہرو میں جو انتخابات ان لوگوں کے جیتے اس کی پشت پر سلیکٹرز تھے۔ سعید غنی نے کہا کہ میں نے ایک ماہ قبل ہی مسلم لیگ کے رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر کو جن سے میری اکثر فون پر بات ہوتی ہے بتا دیا تھا کہ مفتاح اسماعیل اچھے امیدوار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خود محمد زبیر نے کوووڈ کے دوران الیکشن نہ کروانے کا کہا اور جب سندھ حکومت کے محکمہ صحت نے الیکشن کمیشن کو اس حوالے سے خط لکھا تو مفتاح اسماعیل نے الزام عائد کیا کہ پیپلز پارٹی ہار کے خوف سے بھاگ رہی ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ ہم نے یہ الیکشن ایک مکمل اسٹریجی سے لڑا تھا اور اس لئے ہمیں امید تھی کہ ہم یہ الیکشن جیت جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے 276 پولنگ اسٹیشنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر پولنگ اسٹیشن کے حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ ہم نے یو سی اور وارڈ کی سطح پر کمیٹیاں بنائیں۔ گذشتہ 6 سے 8 ماہ سے ہم نے یہاں پر مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں سے رابطے کئے اور پی ٹی آئی، نون لیگ، جے یو آئی سمیت کئی سیاسی جماعتوں کے سینکڑوں کارکن پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ٹرن آؤٹ زیادہ ہوتا تو ہمیں امید تھی کہ ہمیں 25 ہزار سے بھی زائد ووٹ مل جاتے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی کا قد ضرور سات فٹ ہے لیکن اس ملک میں اگر کسی کا سیاسی پختگی سے قد کاٹ دیکھا جائے تو اس وقت پورے ملک کے سیاستدانوں میں بلاول بھٹو زرداری کا سیاسی قد سب سے بڑا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حلقہ این اے 249 میں مسلم لیگ نون کی شکست کی سب سے بڑی وجہ ان کی نااہلی، مس مینجمنٹ اور حد سے زیادہ خود اعتمادی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے اس حلقہ کے الیکشن کو سنجیدہ لیا اور اس کی بھرپور تیاری کی اور یہی اس کی فتح کا نتیجہ رہی۔پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کے سیکریٹری جنرل سینیٹر فرحت اللہ بابر اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سیکریٹری جنرل سید نیر حسین بخاری نے کہا ہے الیکشن کمیشن نے NA249 پر ضمنی انتخابات میں ن لیگ کی درخواست پر دوبارہ گنتی کا فیصلہ کیا ہے ہم اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں لیکن 2018ء کے الیکشن میں بھی یہی عذر تھا کہ جیتنے کا مارجن 34حلقوں میں 5فیصد سے کم تھا لیکن دو حلقوں میں دوبارہ گنتی شروع ہوئی جس کو بھی روک دیا گیا۔ عین ممکن ہے کہ دوبارہ گنتی میں پیپلزپارٹی اور زیادہ ووٹ لے سکتی ہیں۔ پی ڈی ایم ہم نے بنائی دوسری جماعتیں ہمارے پاس آئیں، شوکاز نوٹس واپس لیں اور معافی مانگیں۔ پاکستان میں آئے روزسکیورٹی کے نام پر انٹرنیٹ کے ساتھ چھیڑخانی ہوتی رہتی ہے۔ یہاں الیکٹرانک ووٹنگ زیادہ خطرناک ہوگی جن ممالک نے اس کوشروع کیا تھا انہوں نے بھی چھوڑ دیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کیا۔ پیپلزپارٹی کے چیف میڈیا کوآرڈینیٹر نذیر ڈھوکی ارو راجہ نور الٰہی بھی موجود تھے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ہم NA-249 کے ضمنی انتخاب کے بارے میں چند اہم باتیں سامنے رکھنا چاہتے ہیں الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ(ن) کی درخواست پر دوبارہ گنتی کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ الیکشن کا اختیار ہے ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔ 2018ء کے انتخابات میں بھی یہی عذر تھا کہ جہاں جیتنے کا مارجن 5فیصد سے کم وہاں دوبارہ گنتی ہونا چاہیے تھی 34حلقوں میں دوبارہ گنتی ہونا تھی جو کہ نہیں کی گئی صرف دو حلقوں کی دوبارہ گنتی شروع ہوئی وہ بھی روک دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے خلاف کچھ بدگمانیاں پھیلائی گئی ہیں 1988کے انتخابات میں بھی اس حلقے سے پاکستان پیپلزپارٹی کا امیدوار کامیاب ہوا تھا۔ پیپلزپارٹی کا اس حلقے میں بڑا تکڑا ووٹ نہیں ہے، پیپلزپارٹی نے گراؤنڈ ورک، فعالیت دکھائی اور جیت حاصل کی کوئی اوپر سے چھلانگ لگا کر نہیں آئے۔ انہوں نے کہا کہ گنتی کے عمل میں دیر کی وجہ تو الیکشن کمیشن ہی بتا سکتا ہے لیکن رمضان المبارک میں افطاری نماز کے ٹائم اور 30امیدوار اور آٹھ انتخابی آبزرور تھے جن کو پریذائیڈنگ فارم45 دینا تھا۔ اس مشق کے لئے الیکشن کمیشن کو 10-12فارمز بھرنا پڑتے ہیں۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اگر ہم اس الیکشن میں ہار جاتے تو ہم یہ معاملہ کبھی نہ اٹھاتے۔ ہم کھلے دل کے ساتھ انتخا بی قوانین پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ دوبارہ گنتی میں پیپلزپارٹی کے ووٹ پہلے زیادہ بڑھ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ الیکشن کمیشن میں ضرور جائیں لیکن یہ مت کہیں کہ پیپلزپارٹی اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے آئی ہے اور مک مکا کر لیا ہے پھر ہم کہیں گے مک مکا اس وقت ہوتا ہے جب ضمانتیں ملتی ہیں اور بیرون ملک جانے کی اجازت ملتی ہے۔ ہماری جنگ عمران خان کے ٹولے کے خلاف ہے۔ایک سوال کے جواب میں فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پاکستان میں آئے روز سکیورٹی کے نام پر انٹرنیٹ سے چھیڑخانی ہوتی رہتی ہے یہاں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔ جن ممالک نے یہ تجربہ شروع کیا ان میں سے کئی ممالک نے یہ چھوڑ دیا اور عمران خان کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ نادراکی ای وی ایم کے بارے رپورٹ موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پی ڈی ایم بنانے والے ہیں، ہم سے آنے کی بات کرنے والے یہ کون ہوتے ہیں، وہ ہمارے پاس آئیں شوکاز نوٹس واپس لیں اور معافی مانگیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کے لئے سنجیدہ نہیں ہے یہ نااہل ہیں انہوں نے پارلیمان کا جیسے استعمال کیا یہ سب کے سامنے ہیں ان کی ذہنی اٹھان ایسی نہیں کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کر سکیں۔ سید نیر حسین بخاری نے کہا کہ زمینی حقائق بڑے واضع ہیں اس حلقے میں پیپلزپارٹی کا امیدوار موجود رہا ہے، قادر مندوخیل سیاسی کارکن ہے، مسلم لیگ ن پی ٹی آئی کی طرح تجربہ کیا ہے مفتاح اسماعیل کو ٹکٹ دیا جو اس وقت منظر عام پر آیا جب اسے وزیر خزانہ بنایا گیا تھا۔ پی ٹی آئی بھی حفیظ شیخ کو منظر عام پر لائی جو سینیٹ الیکشن ہار گیا۔ انہوں نے کہا کہ 2018میں ہم کہتے تھے کہ پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ لائی ہم تو اس وقت بھی اس حلقے میں باقاعدہ موجود ہیں پی ٹی آئی کے اس سے پہلے اس حلقے کے امیدوار کا کردار بھی سب کے سامنے تھا جو جوتا لا کر ٹیبل پر رکھتے تھے اور کبھی پستول لگا کر نکلتے تھے۔ نیر بخاری نے کہا کہ ملک میں بیروزگاری اور لا قانونیت بڑھ گئی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ آئین اور قانون کے مطابق الیکشن کمیشن فیصلے کرے گا ہم تو دو بارہ گنتی کے لئے نہیں بلکہ دوبارہ الیکشن کے لئے تیار ہیں۔ مسلم لیگ نے پی ڈی ایم کو نقصان پہنچایا پیپلزپارٹی تو ہر طرح سے عدم اعتماد، لانگ مارچ کے لئے تیار تھی اور ایک ترتیب کے مطابق چلنے کو بھی تیار تھی۔
پیپلز پارٹی
سعید غنی
لاہور(نمائندہ خصوصی)پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ خاں نے وزیر تعلیم سندھ سعید غنی کے بیان پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’توادھر ادھر کی نہ بات کر، یہ بتا کہ قافلہ کیوں لْٹا‘کا جواب پیپلزپارٹی، نہ بلاول اور نہ ہی سعید غنی کے پاس ہے سعید غنی اپنے چیئرمین کے”ٹھنڈا پانی پئیں اور آرام کریں“ کے مشورے پر عمل کریں جو انہوں نے جمہوریت کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے بعددیا تھا کھوکھلے بیانات، بے بنیاد الزامات کا شورمچانے سے مائی باپ کی بی ٹیم بننے کی آپ کی حقیقت نہیں بدلے گی عوام جان چکے ہیں رانا ثناء اللہ نے کہا کہ سعید غنی کا بیان پی پی پی کی گھبراہٹ کی علامت اور خفت مٹانے کی ناکام کوشش ہے باپ سے سینٹ میں ووٹ لے کر اپوزیشن لیڈر بنانے کے بعدپی پی پی عوام کے سامنے اپنی عزت کھوچکی ہے پی پی پی کے اس طرز عمل پر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی جمہوری جدوجداور قربانی آج شرمسار ہے پیپلزپارٹی کی ملاوٹی جمہوریت کی سیاست عوام مسترد کرچکی ہے جو اپنی عزت خود کھو بیٹھتے ہیں، ان کا شاہد خاقان عباسی کی عزت کرنا نہ کرناکوئی اہمیت نہیں رکھتا سعید غنی شیخ رشید بننے کی کوشش نہ کریں ہمیں جواب دینے کے بجائے الیکشن کمیشن کو جواب دیں پی پی پی ہمیں اپنا حریف سمجھتی ہے، لیکن ہم انہیں اپنا حریف اور مدمقابل نہیں سمجھتے ان کا کہنا تھا کہ سعید غنی کا ردعمل اسی طرح کا ہے جس طرح ڈسکہ الیکشن چوری کے بعد پی ٹی آئی کا تھاہمارا ہدف پی پی پی اور سعید غنی نہیں، ووٹ اور الیکشن چوری روکنا ہے ہمارا ہدف مہنگائی کا عذاب عوام پر مسلط کرنے والے کرپٹ حکمرانوں سے پاکستان کو نجات دلانا ہے۔ا این اے 249کا الیکشن چوری کرنے، فارم 45 میں ردوبدل اور ووٹوں کی تعداد مصنوعی طورپر بڑھانے کا سعید غنی اوران کی جماعت کے پاس کوئی جواب نہیں این اے 249 الیکشن چوری کے بعد سعید غنی کا بیان باپ پارٹی سے ووٹ لے کر سینٹ میں اپوزیشن لیڈر بنانے کے بعد بلاول بھٹو کی پریس کانفرنس جیسا ہے۔
رانا ثناء اللہ