گفتگو مسائل کی طرف مڑ گئی۔۔۔۔ہندوستان، پا کستان اور ایران میں مقبول بہت سے فلسفے اور رسمیں زیر ِ بحث آئیں
مصنف : عمران الحق چوہان
قسط :63
”چوہان صاب! ان چھو ٹی چھو ٹی ابا بیلوں نے کعبے پر حملہ کر نے والے ہاتھیوں پر پتھر کیسے برسائے ہوں گے؟“ اس نے اچا نک سوال کیا۔
”حا جی صاب! یہ کا رنامہ ہم نے ابا بیلوں سے کروایا ہے۔“ میں نے ہنس کر کہا۔
”کیا مطلب؟ ابا بیلوں نے پتھر نہیں بر سائے تھے؟“ احمد علی نے آ نکھیں پھا ڑ کر پوچھا۔
”جناب عربی میں ابابیل کسی پرندے کا نام نہیں بلکہ پرندوں کے غول یا جُھنڈ کو کہتے ہیں۔ طیراً ابابیل، یعنی پرندوں کے جھنڈ۔“
اس پر گفتگو مسائل کی طرف مڑ گئی اور ہندوستان، پا کستان اور ایران میں مشہور اور مقبول بہت سے فلسفے اور رسمیں زیر ِ بحث آئیں۔ اعظم کے دوستوں کےلئے بہت سی باتیں نئی او ر حیران کن اور اسی بناءپر پریشان کن بھی تھیں۔ در اصل عرب سے دور ہو نے اور ہندوستان اور ایران کی 2 قدیم تہذیبوں اور مضبوط ثقافتوں کے درمیان سینڈ وِچ ہو نے سے ہم میں ناصرف بہت سی فلسفیانہ تبدیلیاں آ ئیں۔ اس لیے اب اگر علا قائی اور popular version سے ہٹ کر بات کی جا ئے تو لوگ نا صرف ماننے اور سمجھنے سے انکار کر دیتے ہیں بلکہ غصے میں بھی آ جاتے ہیں۔
”اور آپ کو فوراً جہنم رسید کر کے خود جنت کما لےتے ہیں۔“ بلال نے ہنس کر کہا۔
”نہیں بھئی ”فوراً“ نہیں، اس کا ایک پورا طریقہ اور پروسیجر ہے،“
”اس طرح مسلمان کا مسلمان کو مارنا اسلام کی رُو سے جائز تو نہیں ہے۔“ چیمہ نے کہا۔
”کسی کو بھی مارنا جائز نہیں ہے لیکن شاید لو گوں کو روز ِ جزا پر پورا بھروسا نہیں ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ سے پہلے سارا حساب ہم خود ہی کر لیں۔“ بلال نے جواب دیا۔
”جب عقیدے کی بنیاد فلاح اور دلیل کے بجائے جہالت، نفرت اور انتقام پر ہو تو جائز ناجائز کا مسئلہ ختم ہو جاتا ہے۔ جو آپ کرتے ہیں وہ جائز ہوتا ہے اور جو دوسرے کرتے ہیں وہ نا جائز ہوتاہے۔“ میںنے لقمہ دیا۔
”بہت سے ایسے فلسفے پا کستان اور اس کے گرد و نواح میں 70 19 کی دہا ئی کے آخر اور80 کی دہائی کے آغاز میں متعارف کروائے گئے تھے۔ میں نے بات بڑھائی۔
” کیا پرا بلم تھا؟“ ندیم نے پو چھا۔
” امریکا کو تھا۔“
”وہ کیسے؟“عثمان نے سوال کیا۔
”1979 میں روس نے افغا نستان پر حملہ کیا تو امریکا کو سرمایہ دارانہ نظام خطرے میں پڑتا نظر آیا۔ روس کی آ مد کا مطلب کمیونزم تھا۔ چین کے علاوہ ہندوستان اور ایران میں اشتراکی پہلے ہی مضبوط تھے۔ ادھر پاکستان میں بھی طویل عرصے سے ایشیا سرخ ہے یا ایشیا سبز ہے کی بحث چلی آرہی تھی۔ ایسے میں اگر روس کے قدم یہاں جم جاتے تو ایک مضبوط اینٹی امریکن بلاک بن جاتا اورامریکا کے ہاتھ سے اہم منڈیا ں نکل جاتیں۔ چوں کہ سر مایہ دارانہ نظام خود اشتراکیت کا مقابلہ نہیں کر سکتا اس لیے امریکا نے اس جنگ کو مذہبی بنا دیا۔ کہا گیا کہ روسی تو خدا ہی کو نہیں مانتے جب کہ امریکی اہلِ کتاب ہیں، یہ خدا کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوںکی جنگ ہے۔امریکی سرمایہ کاری نے اسے عوام کے ذہنوں میں راسخ کیا اور روس کا راستہ روکنے کے لیے افغا نستان کے گرد مذہبی انتہا پسندی کی باڑ لگائی جس کے اندر روس کو گھیر کر مسلما نوں نے امریکی اسلحے اور ڈالروں کی مددسے جنگ لڑی جس میں سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا اور وصول کیا (22 مارچ 2018کو سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکا میں واشنگٹن پوسٹ کو دئیے گئے انٹر ویو میں اس حقیقت کے چہرے سے پردہ اٹھا یا تھا)۔ اس جنگ میں روس کو شکست ہوئی اور امریکا کو فتح۔ مسلمان ہاتھیوں کی لڑائی میں صر ف کچلے گئے۔ اب انتہا پسندی کی یہی زہریلی باڑ ہمیں کھا رہی ہے۔ روس کی شکست سے طاقت کا توازن ختم ہوگیااور دنیا امریکا کے رحم وکرم پر رہ گئی، اور آج عالم ِ اسلام دا خلی اور خارجی طور پر اس خدمت کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔“
”تو یہ طالبان امریکا کی دین ہیں؟؟“ چیمہ نے حیرت سے کہا۔
” جی، ان کے علاوہ دوسرے بھی۔ “ ایک ساتھی نے گرہ لگائی۔ ”جہاں مذہبی انتہا پسند اپنی حکومت قائم کر نے میں کامیاب ہو گئے وہاں یہ تبدیلی انقلاب کہلائی اور جہاں نا کام رہے وہاں انہیں دہشت گرد اور انتہا پسند کہا گیا۔“
”اب امریکا اس انتہا پسندی سے مزید فوائد سمیٹ رہا ہے مگر ہمیں نہ پہلے حقیقت کا ادراک تھا، نہ اب ہے۔ اصل جنگ وسائل پر قبضے کی ہے جس میں عالم ِ اسلام کمزور ہی نہیںپامال ہورہا ہے بلکہ ہو چکا ہے۔“ (جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )۔