پٹواری، جیالے، جماعتیے اوریوتھیے
پی ٹی آئی نے مسلم لیگ کے چاہنے والوں کے لئے ایک اختراع نکالی جو پاکستان میں بڑی مشہور ہوئی حتی کہ مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھنے والے احباب نے بھی اس کو دل سے تسلیم کر لیا اور خود کو پٹواری سمجھنے لگے حالانکہ یہ لفظ پٹوار خانے کے انچارج کے لئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن شاید مسلم لیگ کے احباب کے لئے پٹواری کی اختراع استعمال کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ افراد جو بہت مشکل سے کسی کی بات کو سمجھتے ہیں پھر اسی طرح پیپلز پارٹی کے کارکنان کے لئے جیالے کی اختراع استعمال کی گئی جس کا مطلب بھی آنکھیں بند کر کے پارٹی کے پیچھے چلنے والے لوگوں کا ہجوم بتایا جاتا ہے پھر جماعت اسلامی کے کارکنان بھی اس اختراع بازی سے نہ بچ سکے مخالفین ان کو بھی جماعتیے کہہ کر پکارنے لگے، جس کی وجہ بھی ضدی کے معنی سے تعبیر کی گئی ملک کی سب سے نئی جماعت پی ٹی آئی ہے جس کی تاریخ باقی تین جماعتوں سے قدرے نئی ہے جو کم و بیش چھبیس سال پر محیط ہے یہ بھی ان القابات سے محفوظ نہ رہ سکے تینوں جماعتوں کی طرف سے پی ٹی آئی کے کارکنان و سپورٹرز کو یوتھیا کہہ کر پکارا جانے لگا، جس کا مقصد بھی ملک کی چرب زبان یوتھ کا جمگٹھا بتایا جاتا ہے، جو باقی القابات کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے بہت مقبول ہو گیا۔
میرے خیال میں پٹواری ایک اختراع نہیں،بلکہ ایک کیفیت کا نام ہے کہ جیسے یوتھیے، جماعتیے اور جیالے بھی ایک کیفیت کا نام ہیں،کیونکہ جب کسی کی بھی کوئی دلیل کسی بھی طرح سے ان پر کارگر نہیں ہوتی تو یہ بحث و تکرار میں آتش فشاں یا جوالا مْکھی بن جاتے ہیں پھر ان کا غصب و غصہ آسمان سے باتیں کرنے لگتا ہے، کیونکہ ایک دوسرے کی دلیل کو نہ ماننا نہ سمجھنا اور نہ عقل و فہم، فہم و تدبر، وسعت دلی اور فہم و فراست سے کام لینا، بلکہ عقل کے تمام دریچوں پر جاہلیت کا قفل لگا کر چابی کو کنوئیں میں پھینک دینے والا رویہ پیش کرنے میں پیش پیش ہیں مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ انہی سب جماعتوں میں اچھے اور برئے دونوں طرح کے لوگ موجود،ہیں مگر میرا مطلب یہاں ہر جماعت کے اندر اس خاص گروپ سے ہے کہ جو اپنی پارٹی کے لوگوں سے بھی نہیں سمجھتے، ان میں سے کسی بھی جماعت میں تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ تو سرے سے ہی موجود نہیں جو بھی ان پر تنقید کرئے اس کو یہ ایسے ایسے عظیم ناموں سے نوازتے ہیں کہ بدتمیزی کی تمام حدیں عبور کر لی جاتی ہیں یہاں تک کہ یہ جب اپنی خاص اختراع والی کیفیت میں ہوتے ہیں تو ان کے لئے دست و گریباں ہونا بہت معمولی سی بات ہے کاش کہ ان کو جمہوریت کی اصل اساس کا علم ہو جائے کاش کہ ان میں بھی سیاسی اخلاقیات پیدا ہو جائیں تاکہ کوئی ناقد ان پر تنقید برائے اصلاح کر سکے کوئی تو ان پر اپنی رائے کا اظہار کھلم کھلا کر سکے۔ کیونکہ اگر دیکھا جائے تو تنقید برائے اصلاح کا فائدہ بہرکیف انہی جماعتوں کو ہوتا ہے، کیونکہ ناقدین تو درحقیقت اس بریک کی مانند ہوتے ہیں کہ جو گاڑی کو حادثے سے محفوظ رکھتی ہے۔
شومی قسمت آج کے پاکستان میں اختلاف رائے کا مقصد کھلی دشمنی مول لینا ہے آزادی صحافت تو چھوڑئیے آزادی رائے کو عملی جامعہ پہنانا ایسے ہی ہے کہ جیسے امریکہ کے سامنے ملک کی خود مختار خارجہ پالیسی کی بات کرنا فورا کوئی نہ کوئی نفرت بھرا نعرہ آپ کی پہچان بن جائے گا ہمیں قومی ہمیت اور سیاسی اخلاقیات کو پروان چڑھانا ہو گا قوت برداشت پیدا کرنی ہو گی ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنا ہو گا ایک دوسرے کی عزتِ نفس کا خیال رکھنا ہو گا ایک دوسرے کی عزت و حرمت کا خیال رکھنا ہو گا وگرنہ ہم ایک بھیڑ کی طرح تو رہ ہی رہے ہیں جو خدانخواستہ ایک قوم کبھی نہیں بن سکیں گے۔
افسوس صد افسوس کہ مال و دولت کی بنیاد پر لوگ بڑے یا چھوٹے تصور کیے جاتے ہیں چاہے دولت مند گدھے جیسا دماغ رکھتا ہو اور غریب علم و دانش کا محور ہو ہماری آنکھ اشخاص کے زرق برق،کپڑوں کے برینڈ،گاڑی اور ظاہری شوشا کی محتاج ہے اسی لیے اسمبلیوں میں دانشور کم یاب ہیں،اب بھی وقت ہے ہمیں اپنی آنکھیں کھولنے کی اشد ضرور ت ہے حق کوحق اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے و لکھنے کی داغ بیل ڈالنی ہو گی اب ملکی مفاد کے لئے مفاہمت کی سیاست کو دفن کر کے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہو گا۔اب ہمیں من حیث القوم یہ تہیہ کرنا ہو گا کہ ہم تنقید کا رخ دلائل سے موڑیں نہ کہ دھونس اور زبردستی کریں ہم سب ایک قوم ہیں جیسا کہ ایک ہی خاندان میں چار افراد ہوں اور چاروں مختلف طرح کی پسند رکھتے ہوں تو کیا ہم ایک دوسرے کے خلاف طبل ِ جنگ بجا دیں گے کیا ہم ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہو گے کیا ہم چاک دامنی سے اپنی عزت محفوظ رکھ سکیں گے یقینا نہیں اس لئے ہمیں ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے کی عادت ڈالنا ہو گی ہر جماعت کو اپنے کارکنان کو سیاسی اخلاقیات کی تربیت دینی ہو گی تاکہ ایک صحت مند جمہوریت پروان چڑھ سکے۔
حضرت علی کرم اللہ کا فرمان ہے کہ ”اگر تم سچے ہو تو غصہ کیوں اور اگر تم جھوٹے ہو تو غصہ کیوں“رائے کے اظہار کے لئے احسن طریقہ اختیار کیا جائے تو بہتر ہے صوبائی و قومی اسمبلیوں میں بھی یہی شعار اپنایا جا رہا ہے، جس سے زرد اخلاقیات عوامی سطح تک منتقل ہو رہی ہیں اور پھر شکایت کی جاتی ہے کہ ملک میں عدم برداشت کیوں پروان چڑھ رہی ہے۔بس یہی وجہ ہے کہ ہم کسی بھی جمہوری حکومت کو اس کی آئینی مدت پوری کرنے ہی نہیں دیتے، جس کے باعث جمہوریت پروان تو کیا چڑھے گی اپنی موت خود مرنے کے دھانے پر کھڑی اپنے کفن کا بدو بست کر رہی ہے۔