ہم مل کر خوشی منانے کی صلاحیت سے عاری ہیں؟؟ 

 ہم مل کر خوشی منانے کی صلاحیت سے عاری ہیں؟؟ 
 ہم مل کر خوشی منانے کی صلاحیت سے عاری ہیں؟؟ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 کبھی کبھار یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی سلگتے موضوع پر قلم اٹھانے کا ارادہ کر لیا جاتا ہے مگر اچانک کوئی اور صورتحال سامنے آ جاتی ہے اور ارادہ تبدیل کرنا پڑ جاتا ہے۔ اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ مدینہ منورہ میں واقعہ اہم ضرور تھا کہ اس پر خامہ فرسائی کی جاتی اسی طرح کراچی یونیورسٹی میں خود کش دھماکہ بھی المناک ضرور تھا کہ اس پر قلم بھی آنسو بہاتا۔ ان دونوں واقعات پر لکھنے کو دل بھی بے چین تھا اور اس سے بے ساختہ آواز نکل رہی تھی کہ یہ واقعات نہ ہوتے تو اچھا ہوتا۔ اسی آواز میں چھپی یہ دعا بھی تھی کہ اے خالق کائنات یہ ملک بنایا ہے تو اس کو اس طرح کے سانحات سے محفوظ بھی رکھ۔ اس کے باسیوں کی قسمت میں چین سے جینا لکھ دے۔ مسجد نبوی میں بدتمیزی کے واقعہ پر ہر مسلمان کو افسوس ہے سوائے ان کے کہ جن کی ترجیحات میں سیاست اول ہے اور سیاست ہی آخر۔ اس واقعہ پر ہر طبقہ فکر نے اپنے اپنے انداز میں ردعمل دیا اور ممتاز عالم دین مولانا مفتی شفیع اوکاڑوی کا ردعمل دعائیہ ہے۔ انہوں نے جمعتہ الوداع کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے دعا کرائی کہ اے اللہ جن لوگوں نے مسجد نبوی کی حرمت کو پامال کرنے کی کوشش کی اور جن لوگوں نے اس کوشش کا اہتمام کرایا اور جن لوگوں نے اس پر مسرت کا اظہار کیا ان سب کو اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ذلیل و رسوا کر دے۔ اس دعا پر آمین کہنے والوں کی تعداد ان گنت ہے۔ اس دعا اور آمین میں جو دبا دکھ آشکار ہے اس کو محسوس تو کیا جا سکتا ہے اس کا اظہار خاصا مشکل ہے۔ دوسرا سانحہ کراچی یونیورسٹی کا ہے اس سے قبل گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی کے بے شمار واقعات ہو چکے ہیں جن میں خودکش وارداتوں کے نتیجے میں سینکڑوں لوگوں کی جانیں گئیں مگر اس سانحہ کے کئی پہلو گزشتہ واقعات سے الگ اور زیادہ تشویشناک ہیں۔ قبل ازیں جو واقعات ہوئے وہ ایسے وقت میں ہوئے جب افغان مسئلہ حل طلب تھا جہاد یا جنگ جاری تھی۔ افغانستان پر پاکستان مخالف حکومت تھی جو دہشت گردوں کی سہولت کار بن جاتی تھی۔ دونوں ملکوں کے مابین طویل سرحد غیر محفوظ اور سب کے لئے کھلی تھی۔ سرحد کے دونوں جانب دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ایک دوسرے سے رابطے میں آزاد تھے۔ خود کش حملوں میں استعمال ہونے والے عموماً نو عمر، غیر تعلیم یافتہ اور غریب نوجوان ہوتے تھے۔ اب افغانستان میں پاکستان کے دوست سمجھے جانے والے طالبان کی حکومت ہے سرحد پر باڑ لگ چکی ہے۔ دونوں طرف آمد و رفت اور رابطے آسان نہیں رہے۔ پھر تازہ دہشت گردی میں استعمال ہونے والی خاتون ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ، خوشحال اور گھر بار والی تھی اس نے کسی مالی مجبوری کے تحت ایسا نہیں کیا اور نہ ہی کسی اچانک اور جذباتی کیفیت میں ایسا کیا۔ وہ ایک سے زائد بار اس مشن پر نکلی۔ ریکی کی تیاری کی ایک بار یہ پتہ چلنے پر واپس چلی گئی کہ گاڑی میں اس روز چینی ڈائریکٹر سوار نہیں تھا۔


اس واردات کے بعد سوشل میڈیا پر چند مسلح نوجوانوں کی کسی پہاڑی علاقے میں ریکارڈ کی گئی ویڈیو بھی چل رہی ہے کہ جس میں اس واقعہ کو جنگ آزادی کا حصہ قرار دیتے ہوئے چینی اور پاکستانی حکام کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر سی پیک اور گوادر کے ترقیاتی منصوبے بند نہ کئے گئے اور بلوچستان سے نہ نکل گئے تو ایسی مزید کارروائیاں کی جائیں گی۔ یہ بہت ہی تشویشناک صورتحال ہے جو اس سوال پر غور کا تقاضا کرتی ہے کہ کیا بلوچستان کے مسائل کا حل صرف عسکری ہے یا سول، سیاسی عناصر کو بھی اس میں شامل کر کے پر امن مذاکرات کے راستے سے بھی ہے۔
 اظہار تشویش کے بعد ہلال عید پر آ جاتے ہیں۔ یہ عجیب صورتحال ہے جو ساٹھ کے عشرے سے چلی آ رہی ہے جب ایوب خان کی حکومت نے پہلی بار سرکاری رویت ہلال کمیٹی تشکیل دے کر کوشش کی کہ ملک بھر میں ایک ہی دن عید منائی جائے۔ قمری کیلنڈر متفقہ ہو۔ مگر واقعات نے ثابت کر دیا کہ پہلے سال سے ہی یہ کوشش ناکام ہو گئی۔ ایوبی دور میں ہی ایک اعلان سرکاری کمیٹی کرتی اور ایک اعلان غیر سرکاری علماء کی طرف سے آ جاتا۔ اب کچھ عرصہ سے یہ ہو رہا ہے کہ رویت ہلال کی سرکاری کمیٹی ملک کے مختلف علاقوں سے شہادتیں وصول کر کے ان کی پرکھ کر کے فیصلہ کرتی ہے۔ اس پر سارا ملک لبیک کہتا ہے مگر پشاور کے مفتی پوپلزئی صاحب کی مسجد قاسم سے دوسرا اعلان آ جاتا ہے۔ اس بار احتیاط یہ کی گئی کہ اسلام آباد میں تو مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس ہوا مگر چاروں صوبائی دارالحکومتوں کے علاوہ زونل کمیٹیوں سے بھی رابطے کر کے متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ عید منگل 3 مئی کو ہو گی مگر ایک گھنٹے بعد ہی مفتی پوپلزئی صاحب نے سوموار 2 مئی کو ہی عید منانے کا اعلان کر دیا۔ وزیراعلیٰ  کے پی کے نے بھی اس کی حمایت کر دی۔صوبائی حکومت تحریک انصاف کی ہے، وفاق اور پنجاب میں تبدیلی آ چکی ہے۔ اس طرح اس بار مذہبی تہوار کے ہونے نہ ہونے کے فیصلے میں سیاسی تقسیم کے اثرات بھی محسوس کئے جا رہے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ملک کے تین صوبوں میں منگل کو اور ایک صوبے کے اربن علاقوں میں پیر کو عید …… اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنے وسیع انتظامات اور اخراجات کے بعد بھی اگر حکومت وقت ایک عید نہیں کر ا سکتی تو پھر عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ جیسے پہلے ہوتا تھا۔ جہاں شہادت وہاں عید۔ ویسے ہی کرنے دیا جائے قومی خزانہ ہی بچا لیا جائے۔ ویسے سوچنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ قمری سال کے گیارہ مہینے تو کوئی اختلاف نہیں ہوتا عید کے چاند پر ہی کیوں ہوتا ہے؟ کیا ہم مل کر خوشی منانے کی صلاحیت سے عاری ہیں؟؟

مزید :

رائے -کالم -