جہانگیر۔۔۔۔۔1605ءسے 1627ءتک
مصنف : ای مارسڈن
سلیم جہانگیر کے لقب سے تخت کا مالک ہوا۔ اس کی ماں راجپوتنی تھی۔ اس وجہ سے یہ بھی نصف راجپوت تھا۔ اس کے دو بھائی مراد اور دانیال اکبر کے مرنے سے پہلے ہی مر چکے تھے، لیکن اس کے اپنے بیٹے خسرو نے جو جودھا بائی کے پیٹ سے تھا۔ اپنے ماموں راجہ مان سنگھ اور اپنے خسر خاں زماں کی مدد سے جو اکبر کا سب سے منہ چڑھا سپہ سالار تھا۔ تاج شاہی حاصل کرنے میں بڑا زور مارا تھا۔ مرنے کے وقت اکبر نے اپنے اہل دربار اور افسروں کو بلا کر اعلان کیا کہ میرے بعد سلیم میرے تخت و تاج کا وارث ہو گا۔
جہانگیر خسرو سے ناراض تھا۔ اس لیے وہ خسرو کے ساتھ اچھی طرح پیش بھی نہیں آتا تھا۔ تاجپوشی کے چار ماہ بعد آدھی رات کے وقت سوتے سے جگا کر خبردار نے جہانگیر کو خبر دی کہ خسرو دہلی بھاگ گیا ہے۔ اس نے کچھ فوج جمع کی اور لاہور پہنچا۔ جہانگیر اس کے تعاقب میں چلا، دیکھا کہ لاہور کے قلعے کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ خسرو کی سپاہ کو ہزیمت ہوئی اور وہ خود بھاگا۔ دریائے چناب عبور کرنے کی کوشش میں تھا کہ پکڑا گیا اور پا بجولاں ہو کر باپ کے سامنے آیا۔ اس کے سات سو ہمراہی بے تحاشا قتل کیے گئے اور وہ خود سولہ برس قید میں رہا۔ بعد اس کے اپنے بھائی خرم یعنی شاہجہاں کے حوالے کیا گیا اور خرم نے اسے مروا دیا۔
اکبر کی طرح جہانگیر نے بھی کئی راجپوتنیوں سے شادی کر لی تھی۔ خرم کی ماں بھی جو بعد میں تخت شاہی پر جلوہ گر ہوا، راجپوتنی تھی۔ لیکن جلوس کے چھٹے سن میں جہانگیر نے ایک ایرانی خاتون نور جہاں سے شادی کی جو ہند کی ایک نہایت مشہور ملکہ ہے۔
نور جہاں کا باپ ایران کا باشندہ تھا۔ وطن میں افلاس سے تنگ آ کر ہند میں قسمت آزمائی کرنے نکل آیا تھا۔ لاہور میں اس کو ایک پرانے دوست سے ملنے کااتفاق ہوا اور اس کی وساطت سے دربار اکبری میں ایک عہدے پر مامور ہوا۔ آدمی عاقل تھا، جلد ہی امتیاز اور عروج پا گیا اور آخر کار میر خزائن بن گیا۔ اس کی سب سے چھوٹی بیٹی مہرالنسا حسن میں آفتاب نیمروز تھی اور عقل و فراست سے بھی بہرہ کامل پایا تھا۔ اس کے والد نے اس کی نسبت ایک نوعمر ایرانی سردار شیر افگن کے ساتھ جو بنگال کا حاکم تھا کر دی تھی۔
ابھی شادی ہونے نہ پائی تھی کہ سلیم کی نظر اس پر پڑی۔ عاشق ہو گیا اور شادی کا خواستگار ہوا۔ نور جہاں کا والد شیر افگن کے ساتھ رشتہ کر چکا تھا۔ اس نے قول سے پھرنا نہ چاہا۔ سلیم نے اکبر سے فریاد کی اس نے بھی اس کی مدد کرنے سے سختی کے ساتھ انکار کیا۔ چنانچہ مہر النسا کی شادی شیر افگن کے ساتھ ہو گئی اور وہ اس کے ساتھ بنگال کو چلی گئی۔
تخت پر بیٹھتے ہی سلیم کے بند کھل گئے۔ اس نے شیر افگن کو تو قتل کرا دیا اور اس کی بیوی کو حرم سرائے شاہی میں داخل کر کے اس کا نام نور محل رکھ دیا۔ خاوند کے قتل سے نور جہاں کا دل سخت رنجیدہ تھا۔ یوں بھی عالی حوصلہ عورت تھی۔ رنج اور غصے کے مارے چھ برس کامل جہانگیر کی صورت نہ دیکھی۔ آخر غصہ فرو ہوا۔ ماتم بھی قرار واقعی ہو چکا تھا۔ اس لیے یہ بادشاہ کے ساتھ شادی کرنے پر راضی ہو گئی۔
اب پھر اس کا نام بدلا گیا اور اس دفعہ نور جہاں قرار پایا۔ اب سے سلطنت کے کل اختیارات نور جہاں کے ہاتھ میں آئے اور دراصل یہی فرمانروائی کرتی تھی۔ جہانگیر نے کل امور اس پر چھوڑ دیئے۔ فرمانوں اور کاغذات پر بھی جہانگیر کے بجائے نور جہاں کے دستخط ہوتے تھے۔ نور جہاں کا باپ وزیراعظم ہوا۔ اس کا بھائی امرائے دربار میں اول نمبر پر تھا۔ بیس برس تک نام کو تو جہانگیر بادشاہ تھا، مگر حقیقت میں نور جہاں بادشاہت کرتی تھی۔ جہانگیر کہا کرتا تھا کہ مجھ کو تو کھانے کے لیے نفیس اور کافی مقدار کھانا اور پینے کے لیے عمدہ شراب مل جایا کرے۔ اس کے سوا مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ یہ جانتا تھا کہ امور سلطنت کا انصرام ملکہ میری نسبت بہتر کر سکتی ہے۔ اس لیے اس کے ساتھ کسی طرح کی روک ٹوک نہ کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ عطر گلاب کی موجد نور جہاں تھی۔ حمام کے حوضوں میں گلاب کے پھول بھرے رہا کرتے تھے۔ ملکہ نے ایک روز پانی کی سطح پر تیل سا تیرتا ہوا دیکھا۔ نفاست پسند ملکہ کو ایک نکتہ ہاتھ آیا اور اب سے عطر گلاب تیار ہونے لگا۔)جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔