صنعتی اِنقلاب نے جہاں ترقی اور خوشحالی کے دروازے دنیا کے لئے کھولے وہاں اس معاشی انقلاب نے انسانوں کے معاشرتی استحصال کو بھی جنم دیا۔ فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدورں کو اُن کی محنت کے مطابق مزدوری نہیں ملتی تھی، اُن کی صحت، جسمانی تحفظ اور فلاح کا کوئی نظام موجود نہیں تھا۔ کم عمر بچوں سے 15/15 گھنٹے کام لیا جاتا تھا۔ غرضیکہ بندہ مزدور کے اوقات ظالمانہ حد تک بدتر تھے۔ 18ویں صدی کے وسط میں یورپ اور امریکہ میں مزدور تنظیمیں بننا شروع ہوئیں۔ اِن کو لیبر یونینزکہا جانے لگا۔یہ یونینز خالصتاً مزدوروں کی اجتماعی فلاح کے لئے وجود میں آئی تھیں۔ سفید کالر والے ورکرز نے بہت بعد میں اپنے اپنے پیشے کے مطابق تنظیمیں بنائیں اور اُنہیں ٹریڈ یونینز کانام دیا جانے لگا۔
جس طرح ہر اچھی تحریک میں بگاڑ آ جاتا ہے اور اُس تحریک کو عموماً مفاد پرست ٹولہ اُچک لیتا ہے، اِن تحریکوں کے عہدیدار بھی فیکٹریوں کے مالکوں اور حکومتی کارندوں کے ساتھ ساز باز کر کے عام مزدوروں اور ورکروں کا حق غصب کرنے لگے۔ آجر (یعنی کارخانے کا مالک) کو یہ طریقہ زیادہ فائدہ مند نظر آتا ہے کہ وہ چند افراد کے ساتھ ”مک مکا“ کر کے اور حکومتی محکمہ محنت کو ”کھلا پلا“کر مزدوروں کی ”بک بک“ سے محفوظ رہے۔ لیبر یونینز اور ٹریڈ یونینز جن کا اَب ایک ہی مطلب سمجھا جاتا ہے، اُن کے عہدیداروں کو آجر خرید لیتے ہیں اور اِس طرح اُن کاکام چلتا رہتا ہے۔
میَں اپنے ذاتی تجربے سے بتا سکتا ہوں کہ ٹریڈ یونینز کے عہدیدار کس طرح منافقت، لالچ اور دھوکا دہی سے اپنے ہی ساتھیوں کااستحصال کرتے ہیں۔ میَں 1971ء میں پاکستان کے ایک بڑے بینک میں مڈل لیول کا ایگزیکٹو تھا۔ 1967ء سے 1970ء تک کا وہ زمانہ بڑا سورش زدہ تھا جب پاکستان میں ”ایشیا سرخ ہے“ کا نعرہ گونجنا شروع ہوا تھا اور کچھ اُردو اخباروں کی سرخیوں میں سرمایہ دارانہ نظام کی ”ایسی کی تیسی“ کی جاتی تھی،حالانکہ پاکستان میں اصل سرمایہ دارنہ نظام ابھی پوری طرح سے آیا بھی نہیں تھا۔ اُن دِنوں پاکستان کی سیاست میں سوشلزم نیا نیا ”گج وج“ کے آیا تھا۔ دفتروں اور کارخانوں کا ہر چھوٹا ورکر کامریڈ بن کر اپنے سینئر سے زبان درازی کرنا اپنا حق سمجھتا تھا۔ میری پوسٹنگ لاہور میں تھی۔ بینک کے لاہور ریجن کا دائرہ عمل ملتان سے راولپنڈی / اسلام آباد تک تھا۔اس ریجن میں بینک کی 450 سے زیادہ برانچیں آتی تھیں، قریباً تمام بینکوں میں چھوٹے درجے کے ملازموں (گارڈز، قاصد، کلرک) کی لیبر یونینز بن چکی تھیں اور بینکوں کے جونیر افسروں کی Associations بھی پوری طرح فعال تھیں، اوپر سے ستم پر ستم یہ کہ تمام بینکوں کی یونینز اور Associations نے فیڈریشنز بنا لیں تھیں، یعنی اور زیادہ تگڑی ہو گئی تھیں۔اُن فیڈریشنز کے اوپر سیاسی پیشہ ور مزدور لیڈر اثر انداز ہو کر بینکوں سے من مانے مطالبات منواتے تھے۔ بینکوں کی ہر برانچ کا چھوٹے درجے کا ایک ملازم یونین کا نمائندہ ہوتا تھا،اس نمائندے کی بدزبانی اور گستاخانہ روئیے سے منیجر بھی خائف رہتا تھا۔ بینکوں کا روائتی نظم و ضبط اور خوش اخلاقی کی فضا معدوم ہو چکی تھی۔ میرے بینک کے چھوٹے سٹاف کی یونین پر بینک کے گارڈز کا زیادہ قبضہ تھا، اُن دِنوں گارڈز بینک کے باقاعدہ پکے ملازم ہوتے تھے، جو اکثر ریٹائرڈ فوجی ہوتے،پتہ نہیں کیسے ہوا کب ہوا، میرے بینک میں آنے سے قبل 800 سے زیادہ گارڈز صرف چکوال سے تعلق رکھتے تھے، اِن میں زبردست ”گرائیں“ نوازی کا سسٹم قائم تھا،بینک گارڈز کا ”چکوال گروپ“ بینک کے ٹیلیفونوں کے ذریعے آپس میں رابطے میں رہتا تھا۔ بینک کی برانچ بند ہونے کے بعد، برانچ کے ٹیلیفون، ائیرکنڈشنرز، ہیٹر اور باتھ رومز گارڈز کے زیر استعمال ہوتے تھے، بلکہ گارڈز کے دوست بھی برانچ بند ہونے کے بعد یہ سہولت حاصل کرتے تھے۔برانچ منیجروں کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ ٹیلیفون کو تالہ لگا سکیں،اِن حالات میں میرے جنرل منیجر نے مجھے یہ ذمے داری سونپی کہ میَں بینک کی یونینز میں جو فسادی عنصر آگیا تھا اور اُن کے عہدیدار مکمل طور پر سیاسی بلیک میلنگ میں ملوث ہو چکے تھے،لہٰذا یونینز کو سیاست اور فسادیوں سے پاک کروں۔ میرے لئے یہ بہت ہی مشکل فریضہ تھا۔
ملتان سے راولپنڈی /اسلام آباد تک یونینز کے عہدے دار مجھے نہ ہی پہنچانتے تھے نہ ہی اُنہون نے میرا نام سُنا تھا۔ لاہور زون کی یونینز کے عہدیدار البتہ مجھے مناسب احترام دیتے تھے۔ شائد اس لئے کہ میرا ابھی تک بینک کے انتظامی معمولا ت میں کوئی عمل دخل نہ تھا، جب مجھے یونینز سے Deal کرنے کی ڈیوٹی سونپی گئی تو میَں نے پہلے تو یہ کیا کہ یونینز کے عہدیداروں کی نظروں میں میرا جو Soft image تھا، اُس کو میَں نے یونینز کے چھوٹے /بڑے ممبران سے دوستی کی شکل دے دی۔ میَں نے تمام برا نچوں کے عہدیداروں کو لاہور بلا کر کھانے کی دعوت دی تا کہ اُن سے میرا تعارف بھی ہو جائے اور اُنہیں یہ پتہ چل جائے کہ میَں اُن کے اور بینک کی سینئر انتظامیہ کے درمیان رابطے کا باعث ہونگا، یہ قریباً150 سے زیادہ مندوب تھے۔ 3-4 گھنٹوں کی اس میٹنگ میَں مجھے پتہ لگانے میں مشکل نہ ہوئی کہ اِن عہدے داروں میں کون کس سیاسی جماعت سے ہمددری رکھتا ہے، کون باقاعدہ اُس وقت کے بڑے لیبر لیڈروں سے میل جول رکھتا ہے اور ہداہات لیتا ہے۔ لا ہور کی یونینز اور اُن کے ”کھڑپینچوں“سے میرا جب کچھ میل جول بڑھا تو میَں اُنہیں یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو گیا تھا کہ میَں بھی ایشیاء سرخ ہے پر یقین رکھتا ہوں۔ میَں نے 3-4 ملاقاتوں میں اپنے بینک کی تمام یونینز اور آفیسرز ایسوسی یشنز کے شرارتی قسم کے عہدیداروں کو سمجھ لیا تھا۔ وہ اپنے لئے الگ دفتر، سٹیشنری، فون، موٹرسائیکل اور ایک ملازم کی مانگ کر رہے تھے۔ میَں نے اِن کے کھڑپینچوں کو الگ سے بلا کر ”مشورہ“ دیا کہ بجائے اتنے اخراجات کرنے کے تم لوگ کیوں نہ اپنے دفتر اپنے گھروں میں ہی بنا لو،میَں بینک کی بڑی اِنتظامیہ سے بات کر کے ایک معقول رقم فیڈریشن کے صدر کو دِلوا دوں گا۔ فیڈریشن کے صدر صاحب ہر یونین اور ایسوسی یشن کو اُس کے کام کی نوعیت کے مطابق، اُن کو اخراجات مہیا کرتے رہیں گے۔ 2لاکھ روپے ماہانہ طے ہوا، یہ رقم آج کے دو کروڑ کے برابر تھی۔
اُس روز سب ہی خوش خوش چلے گئے۔دو مہینے نہیں گذرے تھے کہ فیڈریشن اور یونینز میں رقم کی تقسیم کی وجہ سے ناچاقی ہو گئی۔ یونینز اور ایسوسی یشنز کے عہدیدار مجھ سے اَب فرداً فرداً اور رازداری سے ملنے لگے۔ میَں نے اِن کے جائز مطالبات کی لسٹ پہلے ہی اِن عہدیداروں کی مشاورت سے بنائی تھی۔ میَں نے عہدیداروں کو فرداً فرداً تجویز دی کہ اگر تمہارے سب کام سہولت سے ہو جائیں اور یہ جو بیہودہ مطالبات ہیں جس کو کوئی بھی Employerنہیں مانے گا، اُن کو چھوڑ دو تو تم لوگ بھی خوش، بینک بھی خوش اور میں تمہارا کامریڈ ساتھی بھی خوش۔ لوجی۔ اگلے دو ماہ میں سب یونینز ختم ہی ہو گئیں۔ بینک میں امن آگیا اور سب سے بڑی بات کہ میں ایمانداری سے بینک کے چھوٹے ملازمین کا علامتی ترجمان بھی بن گیا۔ بینک کی اِنتظامیہ سے میَں نے وعدہ لیا کہ چھوٹے ملازمین کی جائز اور حق کی بات کو مانا جائے گا۔ میَں بذاتِ خود بینک کا پسندیدہ اور Productive اَفسر تھا اس لئے میری تجاویز کو ٹالا نہیں گیا۔ میرے بینک کی یونینز برائے نام کی رہ گئیں۔ یہ خبر پاکستان کے دوسرے شعبوں کے بڑے لیبر لیڈروں کی خفگی کا باعث بنی۔ اُن دِنوں کے ایسے مشہور لیبر لیڈر جن سے اُس وقت کی حکومتیں ڈرتی تھیں (یہ سب مرحوم ہو چکے اس لئے اُن کا نام لکھنا مناسب نہیں) اُنہوں نے میرے بینک کے خلاف زبردست پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔ بینک مجھے اور میرے جنرل منیجر کو اِشتہاروں کے ذریعے وِلن، سرمایہ داروں کے گماشتے اور بہت سی خرافات اور الزامات کے ساتھ خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔لیکن میَں نے اور میرے بینک نے اِس کا کوئی اثر نہیں لیا۔
ٹریڈ یونین کا کردار اُس زمانے میں بڑا بھیانک اور ملک کے لئے نقصان دہ بن چکا تھا۔ واپڈا میں ہی 10-12 یونینز بجلی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھتی ہیں۔واپڈا کے چھوٹے، بڑے حاضر اور ریٹائرڈ ملازمین جن کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ ہے کو مفت بجلی کی شکل میں مراعات ابھی تک ملتی ہیں۔ یہاں تک کہ ریٹائرڈ ملازم کی بیوہ کو بھی بجلی ملتی رہتی ہے۔ واپڈا کے ملازمین کو قریباً 40 کروڑ بجلی کے یونٹس ماہانہ مفت ملتے ہیں۔ جن کی قیمت آج کے حساب سے 12 ارب روپے بنتی ہے۔ اِسی طرح ریلوے کی بھاری بھرکم یونینز ہیں۔ لوکو شاپ کی اور کیرج ورکشاپ کی یونینز زیادہ طاقتور اور بلیک میلنگ کی پوزیشن میں ہیں، ٹرک ڈرائیوارز اور ٹرک مالکان کی الگ الگ یونینز ہیں۔ پاکستان کے ہر پیداواری شعبے نے الگ الگ یونینز بنائی ہوئی ہیں۔ اِن یونینز کے کرتا دھرتا حکومتوں کو ڈرا کر اپنا رانجھا راضی رکھتے ہیں۔ عوام جائیں بھاڑ میں۔ غریب مزدور کو کچھ ملے یا نہ ملے۔ صنعتی انقلاب نے جہاں اِنسانوں کو ترقی کی راہ پر ڈالا، جمہوریت کا تحفہ دیا وہاں ٹریڈ یونینز کو بلیک میلنگ کی طاقت بھی دی۔ ہمارے جیسے ملک میں جہاں حکومتی لیبر ڈپارٹمنٹ کرپشن کا گڑھ ہو، پیداواری شعبوں کے مالکان لالچی، خودغر ض اور ملکی سیاست میں درانداز ہوں، وہاں لیبر یونینز اپنے ساتھیوں کی فلاح کے لئے کام نہیں کرتیں۔ وہ مافیا کا روپ دھار لیتی ہیں۔