میں اپنے باپ کے ہاتھوں کے حلقے میں گھرا مچانوں پر سجی بڑی بڑی کتابوں پر نظریں دوڑاتا رہا (ایک مزدور باپ کی کہانی )
تحریر :نیر مسعود
قسط: 3
”اسے آپ اٹھائیے، شاباش!“اس نے مجھ سے کہا۔ مجھے یہ سب ایک دل چسپ تماشا معلوم ہو رہا تھا۔ کتاب کا وزن زیادہ تھا، تاہم میں نے اس کو اٹھا لیا اور باپ کے اشارے پر اسے استاد کے سامنے رکھ دیا۔ استاد کتاب پر ہاتھ رکھ کر آہستہ سے مسکرایا اور مجھے حیرت ہوئی کہ پرسوں وہ مجھ کو فقیر کیوں معلوم ہوا تھا۔
”اسے کھولو، شہزادے۔“اس نے کہا۔
کتاب کے چند ابتدائی صفحوں کو چھوڑ کر باقی ورق سادہ تھے۔ اس دن پہلے سادہ ورق پر استاد نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھ سے کچھ لکھوایا۔ اتنی بڑی سی کتاب پر اپنے ہاتھ کی تحریر مجھے بہت اچھی معلوم ہوئی۔ میں چاہتا تھا استاد مجھ سے کچھ اور لکھوائے لیکن میرے باپ نے دونوں ہاتھ آگے بڑھا کر مجھے اپنے قریب کھینچ لیا۔ اس کا بدن پھر دھیرے دھیرے لرز رہا تھا۔ اسی حالت میں دیر تک وہ استاد سے چپکے چپکے باتیں کرتا رہا، لیکن وہ دونوں معلوم نہیں کن اشاروں میں گفتگو کر رہے تھے کہ میری سمجھ میں ان کی ایک بات بھی نہیں آئی اور میں اپنے باپ کے ہاتھوں کے حلقے میں گھرا ہوا، مچانوں پر سجی بڑی بڑی کتابوں پر نظریں دوڑاتا رہا۔ آخر میرا باپ مجھے لے کر باہر آ گیا۔
اس کے بعد سے میرا زیادہ وقت استاد کے ساتھ گزرنے لگا اور میں اپنے باپ کو بھول سا گیا، یہاں تک کہ کچھ دن تک مجھے یہ بھی احساس نہیں ہوا کہ اس نے پھر سے اوزاروں کا تھیلا لے کر کام پر جانا شروع کر دیا ہے۔ مچھلیوں والے دروازے کے پیچھے موٹی کتابوں میں گھرا ہوا استاد مجھے ہر وقت موجود ملتا تھا۔ وہ شاید وہیں رہتا تھا۔ میں اکثر اسے دیکھتا کہ فرش پر ڈھیر کتابوں کے پاس آنکھیں بند کیے چت پڑا ہے اور فقیر معلوم ہو رہا ہے۔ میری آہٹ سن کر وہ آنکھیں کھولتا اور ہمیشہ ایک ہی بات کہتا:”آؤ، شہزادے، سبق شروع کیا جائے۔“
لیکن اس نے مجھے پڑھایا کچھ نہیں، البتہ لکھنا بہت جلدی سکھا دیا۔ ہر روز لکھنے کی باقاعدہ مشق کرانے کے بعد مجھے اپنے سامنے بٹھا کر وہ بولنا شروع کرتا۔ کسی کسی دن وہ مجھے پرانے وقتوں اور دوردراز کے علاقوں کی دل چسپ باتیں بتاتا، لیکن زیادہ تر وہ میرے اپنے شہر کے بارے میں باتیں کرتا تھا۔ وہ شہر کے مختلف محلوں میں بسنے والے خاندانوں کا حال سناتا تھا کہ کس محلے کا کون خاندان کس طرح آگے بڑھا اور کیونکر تباہ ہوا اور اب اس خاندان میں کون کون لوگ باقی ہیں اور کس حال میں ہیں۔ یہ دلچسپ قصے تھے لیکن استاد انھیں بے دلی سے بیان کرتا تھا اس لیے وہ مجھے محض بے ربط ٹکڑوں کی طرح یاد رہ جاتے تھے، البتہ شہر کے محلوں کا ذکر وہ اس انداز سے کرتا تھا کہ ہر محلہ مجھے ایک انسان نظر آتا تھا جس کا مزاج اور کردار ہی نہیں، صورت شکل بھی دوسرے محلوں سے مختلف ہوتی تھی۔ جوش میں آ کر استاد یہ دعویٰ بھی کرنے لگتا تھا کہ وہ شہر کے کسی بھی آدمی کو دیکھتے ہی بتا سکتا ہے کہ وہ کس محلے کا رہنے والا ہے یا کن کن محلوں میں رہ چکا ہے۔ اس وقت میں اس کے اس دعوے پر ہنستا تھا لیکن اب دیکھتا ہوں کہ خود مجھ میں یہ صفت کچھ کچھ موجود ہے۔
کبھی کبھی استاد باتیں کرتے کرتے چٹائی پر چت لیٹ کر آنکھیں بند کر لیتا تو میں فرش پر ڈھیر کتابوں کے ورق الٹنے پلٹنے لگتا۔ انھیں ورق گردانیوں میں مجھے معلوم ہوا کہ میں پڑھ بھی سکتا ہوں۔ لیکن ہاتھ کی لکھی ہوئی وہ بھاری بھاری کتابیں میری سمجھ میں نہیں آئیں۔ ان میں بعض تو میری اپنی زبان ہی میں نہیں تھیں، بعض کی عبارتیں اور بعض کی تحریریں اتنی گنجلک تھیں کہ بہت غور کرنے پر بھی ان کا بالکل دھندھلا سا مفہوم میرے ذہن میں آتا اور فوراً نکل جاتا تھا۔ ایسے موقعوں پر مجھے اپنے استاد پر غصہ آنے لگتا اور کئی مرتبہ میں نے اس سے بڑی بدتمیزی کے ساتھ بات کی۔ ایک بار وہ آنکھیں بند کیے چپ چاپ پڑا میری باتیں سن رہا تھا کہ اچانک میرے سر کے اندر چمک سی ہوئی۔ میں نے چلّا کر کہا:”بہرا ہوگیا ہے، فقیر؟“ اور ایک بھاری کتاب اٹھا کر اس کے سینے پر پھینک دی۔
اس کے دوسرے دن مجھے اپنے مکان کے قریب کی ایک چھوٹی سی درس گاہ میں پہنچا دیا گیا۔اس کے بعد میں شہر کی مختلف درس گاہوں میں پڑھتا رہا۔ شروع شروع میں میرا باپ بڑی پابندی کے ساتھ مجھ کو درس گاہ تک پہنچاتا اور وہاں سے واپس لاتا تھا۔ چھٹی ہونے پر میں باہر نکلتا تو دیکھتا کہ وہ درس گاہ کے پھاٹک سے کچھ فاصلے پر کسی درخت کے تنے سے ٹیک لگائے خاموش کھڑا ہے۔ مجھے دیکھ کر وہ آگے بڑھتا، میری کتابیں سنبھالتا، اور کبھی کبھی مجھ کو بھی گود میں اٹھانے کی کوشش کرتا لیکن میں اسے نوچ کھسوٹ کر الگ ہو جاتا تھا۔ اگر کسی دن اسے آنے میں دیر ہو جاتی تو میں خوشی خوشی سیر کرتا ہوا تنہا گھر لوٹتا اور دوسرے دن اکیلے جانے کی ضد کرتا تھا۔
آخر رفتہ رفتہ میں نے تنہا جانا اور واپس آنا شروع کر دیا۔ پھر میں خالی وقت اور چھٹّی کے دنوں میں بھی گھر سے باہر نکلنے لگا اوراسی زمانے میں اچھی بری صحبتوں سے بھی آشنا ہوا۔ میں نے شہر کے ان تمام محلوں کے چکر لگائے جن کے بارے میں استاد بتاتا تھا کہ کون ریاکار ہے، کون بزدل، کون چاپلوس اور کون فسادی۔ انہی گردشوں کے دوران ایک دن میں نے اپنے باپ کو بازار میں دیکھا۔وہ بازار کے اس حصے میں کھڑا ہوا تھا جہاں ہر روز صبح کے وقت مزدور اور کاریگر کام کی تلاش میں آ کر جمع ہوتے تھے۔ اوزاروں کا تھیلا زمین پر اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں رکھے وہ آس پاس کے لوگوں سے آہستہ آہستہ باتیں کر رہا تھا کہ اس کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ تھیلا زمین پر چھوڑ کر وہ لپکتا ہوا میری طرف آیا۔
”کیا ہوا؟“اس نے پوچھا۔
”کچھ نہیں۔“میں نے جواب دیا۔
وہ کچھ دیر تک مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھتا رہا، پھر بولا:”کوئی بات ہو گئی ہے؟“
”کچھ نہیں۔“میں نے پھر کہا۔
”ہمیں دیکھنے آئے تھے؟“اس نے پوچھا، پھر خود ہی بولا، ”ایسا ہی ہے تو ہمیں کام پر دیکھیے۔“ پھر وہ آہستہ سے ہنسا۔ ( جاری ہے )