ٹیڈی لباس کا فیشن چلا پھر بیل باٹم کا رواج درآمد ہو گیا ،ہر نوجوان کسی نہ کسی فلمی ہیروسے متاثر نظر آتا اسی کے اندازمیں چلنے پھرنے اور گفتگو کرنے کی کوشش کرتا
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:95
بدلتے فیشن
جیسے جیسے آمدنی کے ذرائع بہتر ہوتے گئے، لوگوں میں نت نئے کپڑے بنانے کا رجحان چل نکلا۔ایسے میں بھلا فیشن کیوں پیچھے رہتا ۔ دوسرے بڑے شہروں کی طرح کراچی میں بھی فیشن آئے دن بدلتا رہتا تھا ۔ کم وسائل ہونے کے باوجود کوششں ہوتی تھی کہ زمانے کے ساتھ ہی چلا جائے ۔ سن 60ءکے آغاز میں بہت ہی تنگ لباس کا چلن آیا جسے عرف عام میں’ ’ٹیڈی “لباس کہتے تھے ۔ یہ لڑکے لڑکیوںمیں یکساں مقبول ہوا تھا ۔
لڑکوں کا بڑا عجیب سا حلیہ ہوتا تھا۔ انتہائی تنگ، پنڈلیوں سے جڑی پتلون کے ساتھ بدن سے چپکی ہوئی قمیص ہوتی تھی جس کے سامنے اوپر کے دو تین بٹن کھلے چھوڑ دیئے جاتے تھے جہاں سے وہ فخریہ انداز میں اپنے بالوں بھرے سینے کی نمائش کیا کرتے تھے ۔ سر پر بے تحاشا بڑھائے ہوئے بال جو کانوں کو بھی ڈھانپ لیتے تھے اور ان میں سے لٹکتی ہوئی موزوں کی طرح آوارہ سی چار چار انچ لمبی قلمیں ہوتی تھیں ۔کپڑوں کی مانند جوتے بھی انتہائی تنگ اور نوکیلے ہوتے تھے۔بعض جوتوں کو توکچھ شوقین سامنے سے اتنا تنگ کروا لیتے تھے کہ پنجہ بھی پچک جاتا تھا اور پیر کی انگلیاں بدنماہو جاتی تھیں۔
ہر نوجوان اس وقت ہندوستان یا پاکستان کے کسی نہ کسی مشہور فلمی ہیروسے متاثر نظر آتا اور پھر اسی کے اندازمیں چلنے پھرنے اور گفتگو کرنے کی کوشش کرتا تھا ۔ تب تقریباً ہر تیسرا نوجوان اپنے آپ کو دلیپ کمار ، راج کپور یا دیو آنند ہی سمجھتا تھا ۔ہاں کچھ لڑکے پاکستانی اداکاروں محمد علی اور وحیدمراد وغیرہ کی نقل کرتے ہوئے پائے جاتے تھے۔ اگر کچھ دوست کسی کو سنجیدگی سے یہ احساس دلا دیتے کہ اس کی شکل تو واقعی ہی دلیپ کمار سے بڑی مماثلت رکھتی ہے اور یہ کہ اگر وہ اپنی گردن کچھ ٹیڑھی رکھے تو سائڈ پوزسے تو وہ ہو بہووہی لگتا ہے ، تو دوستوں کی اس بات پر سو فیصد یقین کرتے ہوئے پوری ایمان داری سے وہ اس وقت تک دلیپ کمار بنا رہتا جب تک کہ خود اس کی عقل ٹھکانے نہ آ جاتی یا اس کی گردن کا کوئی پٹھا نہ اکڑ جاتا۔
اپنی اس مشابہت کو عظمت کی بلندیوں تک پہنچانے کی خاطر اور اس زمانے کے ماحول کے مطابق ایسے ہر دو نمبر ہیرو کو گانا بھی گانا پڑتا تھا ، جو وہ اپنے ممدوح کی طرح بال بکھرا کر اپنی بھونڈی سی آواز میں حسب فرمائش سنا دیا کرتا تھا۔
لڑکیاں بھی پیچھے نہیں رہی تھیں۔ ان کا لباس بھی آہستہ آہستہ بے حد چست ہوتا گیا یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اپنی قمیصوں کو، جو پہلے ہی تنگ ہوتی تھیں، مزید تنگ کرنے کی خاطر ان کی پشت پرزپ لگالیا کرتی تھیں۔ یہی حال شلوار کا تھا جس کے پائنچوں کواور تنگ کرنے کے لیے وہاں ٹچ بٹن لگوا لیتی تھیں ۔جوتیاں ان کی بھی بڑی خوفناک حد تک نوکیلی ہوتی تھیں ۔یہ تو کبھی ان کو خیال ہی نہیں آیا ورنہ وہ اس کو ایک مہلک اسلحے کے طور پر استعمال کر کے کسی کو اچھا خاصا زخمی کر سکتی تھیں۔یہاں تک تو سب ٹھیک تھا مگر ایسے حالات میں اگر ان کے ہاتھوں سے کوئی کتاب ، پرس یا کچھ اور نیچے گر جاتا تو پھر لاکھ کوششں کے باوجود اسے زمین سے اٹھا نہیں پاتی تھیں اور ہمیشہ کسی راہگیر کی مدد کی منتظر رہتیں۔ نوجوان لڑکے ایسے موقعوں پررضاکارانہ خدمات انجام دینے کوہر وقت آس پاس ہی منڈلاتے رہتے تھے اور فوراً اس کی مدد کو پہنچتے۔ اس قسم کے نیک کاموں سے انہیں اس بات کی آس بندھی رہتی کہ شاید مستقبل قریب میں وہ اسی بہانے ایک دوسرے کے اور زیادہ قریب ہو جائیں۔خواتین کے تیل سے چپڑے، سامنے سے کس کر باندھے ہوئے بال، وسط میں نکالی ہوئی مانگ اورکبھی کبھار دو چوٹیاں بھی اسی وقت کے فیشن میں شامل تھیں۔
کوئی تین چار سال تک ٹیڈی لباس کا یہ فیشن چلا ہو گا کہ یکدم مغرب سے بیل باٹم کا رواج درآمد ہو گیا ۔اس میں لڑکے لڑکیوں کی قمیصیں تو اسی طرح کسی ہوئی اور اونچی رہیں ، ہاں ان کی پتلونوں اور پاجاموں کا گھیرا اوپر سے تنگ اور گھٹنوں سے نیچے ڈھیلا ہو گیا۔ پائنچے کھلے اور لمبے ہو کر اب اتنے بڑے ہو گئے تھے کہ وہ فٹ فٹ بھر آگے دوڑاکرتے تھے۔ گھٹنوں کے نیچے سے اس کی بناوٹ دیکھ کر علم ہوجاتا کہ اس کا نام بیل باٹم کیوں رکھا گیا تھا۔ بیچ میں ایک دفعہ دھوتی شلوار کا فیشن بھی چلا مگرزیادہ عرصے تک نہیں۔
فیشن کے اس سارے تغیر اور تبدیلی کے دورا ن سنجیدہ اور بڑی عمر کے لوگ اپنے سادہ سے لباس ہی میں مطمئن رہے۔ وہ نہ تو ٹیڈی لباس سے متاثر ہوئے اور نہ ہی بیل باٹم ان کے مزاج کوبدل سکا ۔ اس کے برعکس وہ لباس کی ان قسموں سے شدید نفرت کرتے ، مگر بادل نخواستہ نئی نسل کی خواہشوں کی تکمیل میں رکاوٹ نہیں بنتے تھے ۔ ( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )