حضرت مجددؒ نے شاہ پرستی نہیں خدا پرستی سکھائی۔ یہی ادا اقبال کوبھائی ، وہ ایک سجدے کو سب سجدوں پر بھاری سمجھتے تھے
مصنف: جمیل اطہر قاضی
قسط:6
اقبال نے متذکرہ بالا نظم میں حضرت مجدد علیہ الرحمہ کے تجدیدی اور مجاہدانہ کارناموں کی طرف اشارہ کیاہے ۔
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اسرار
”صاحب ِاسرار“ سے علومِ دینیہ اور امور ِدینیہ میں حضرت مجددؒ کی ژرف نگاہی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس کے بعد ہی جہانگیر کے دربار میں حاضری کا اس طرح ذکر کیا ہے۔
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمئی احرار
جہانگیر نے حضرت مجددؒ پر ایک جھوٹا الزام لگا کر دربار میں طلب کیا تھا۔ دربار میں جانے سے پہلے شہزادہ خرم (شاہجہان) نے جو آپ سے بڑی عقیدت رکھتا تھا۔ چند علماءکو بھیج کر یہ درخواست کی تھی کہ حضرت مجددؒ،جہانگیر کے سامنے سجدۂ تعظیمی کرلیں تو کوئی گزند نہیں پہنچے گی۔ نیز یہ کہ علمائے کرام نے سجدۂ تعظیمی کو مباح لکھا ہے۔ اس پر آپ نے جواب دیا۔ یہ تو رخصت ہے، عزیمت یہ ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ نہ کیا جائے۔ حضرت مجددؒ کی عزیمت پسندی نے سر زمین ِ ہند کو بڑی ہلاکت سے بچالیا اور تاریخ ِہند کا رخ موڑ دیا۔ اگر رخصت پر عمل کیا ہوتا تو پھر ”جہانگیر نہ ہوتا، شاہ جہان“ شاہ جہان نہ ہوتا۔ اورنگ زیب، اورنگ زیب نہ ہوتا۔ تاریخ ِہند کا کچھ اور ہی رخ ہوتا۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف علامہ اس شعر میں اشارہ فرماتے ہیں:۔
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمئی احرار
عجب نہیں کہ مثنوی ”پس چہ باید کرداے اقوامِ مشرق“ میں اسلام میں فقرو درویشی کا تصور پیش کرتے ہوئے حضرت مجدد علیہ الرحمہ کی سیرت بھی سامنے ہو، ان اشعار کے قرائن سے کچھ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے، اقبال فرماتے ہیں:۔
چیست فقر اے بندگانِ آب و گل
یک نگاہ راہ بین، یک زندہ دل
فقر، کارِ خویش را سنجیدن ست
بردو حرف ”لا الہ“ پیچیدن ست
فقر، ذوق و شوق و تسلیم و رضاست
ما امینیم ایں متاعِ مصطفی ست
برگ و سازِ اُو در قرآنِ عظیم
مرد دریشے نہ گنجد در گلیم
قلبِ اُو راقوت از جذب و سلوک
پیش سلطان نعرۂ اُو ”لا ملوک“
حضرت مجددؒ نے جہانگیر کے سامنے یہی نعرۂ لاملوک بلند کیا تھا، جس کی پاداش میں آپ کو قید و بند کی صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کرنا پڑیں اور آپ نے بڑی خندہ پیشانی سے ان کو برداشت کیا اور ثابت کر دکھایا:۔
”فقر، ذوق و شوق و تسلیم و رضاست“
اقبال نے ضرب کلیم میں انہی حضرات کے لئے کہا ہے:۔
زمانہ لے کے جسے آفتاب کرتا ہے
انہیں کی خاک میں پوشیدہ ہے وہ چنگاری
وجود انہیں کا طوافِ بتاں سے ہے آزاد
یہ تیرے مومن و کافر تمام زُنّاری
اقبال اس شخص کی پیشوائی و امامت کو ملت ِ اسلامیہ کے لئے فتنہ قرار دیتے ہیں۔ ”جو مسلماں کوسلاطین کا پرستار کرے۔“
فتنۂ ملت بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے
حضرت مجددؒ نے شاہ پرستی نہیں سکھائی، خدا پرستی سکھائی۔ یہی ادا اقبال کوبھائی ہے۔ انہوں نے خود، خود دار طبیعت پائی تھی۔ غیر اللہ کے سامنے جھکنا ان کے نزدیک موت کے مترادف تھا۔ وہ ایک سجدے کو سب سجدوں پر بھاری سمجھتے تھے۔
وہ اک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
مذکورہ بالا نظم کے چوتھے شعر میں اقبال نے حضرت مجددؒ کے اصلاحی کارناموں کی طر ف اشارہ کیا ہے۔ فرماتے ہیں۔
وہ ہند میں سرمایۂ ملت کا نگہبان
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار
( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )