پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی ایک بڑا چیلنج ہے،سائرہ تارڑ
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)وزیر مملکت برائے نیشنل ہیلتھ سروسز ، ریگولیشن اینڈ کوآرڈیننشن سائرہ افضل تارڑ نے کہا ہے کہپاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کا اثر ہر فرد کی زندگی کے ہر پہلو پر پڑ رہا ہے ۔ آزادی کے بعد سے پاکستان کی آبادی میں 6گنا اصافہ ہوا آج ہمارا ملک دنیا بھر میں سب سے زیادہ آبادی والے ممالک میں سے چھٹے نمبر پر ہے۔یہ بات انہوں نے پاکستان کی آبادی کی صورت حال اور ملکی مسائل سے متعلق میڈیا سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔انہوں نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ آج پاکستان ڈیموگرافک تبدیلی کی تکمیل اور تولیدی صحت کے اشاریوں میں اسلامی ممالک اور کئی علاقائی ممالک سے پیچھے ہے ۔پاکستان میں تولیدی صحت کے اشاریوں میں بہتری اور ڈیمو گرافی تبدیلی کی تکمیل نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ماضی کی حکومتوں نے آبادی کے مسئلہ پر توجہ نہیں دی اور سیاسی عزم کی کمی کے باعث یہ مسئلہ جوں کا توں رہا ۔ پاکستان میں آبادی کے مسئلہ کو کبھی بھی قومی ترجیح قرار نہیں دیا گیا ۔ سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اب ملک کی موجودہ اعلی قیادت کی جانب سے ایک واضع پالیسی کے اعلان سے ماضی کی کوتاہیوں کا مداوا ہو سکے گا اور اس سے مضبوط اتفاق رائے کے ساتھ اس اہم ترین صوبائی اور قومی مسئلہ کو حل کرنے کے عزم کا اعادہ ہوگا ۔یہی وجہ ہے کہ وزارت قومی صحت، وزارت منصوبہ بندی و ترقی اور پاپولیشن کونسل کے اشتراک سے اسلام آباد میں 5سے 6نومبر کو آبادی کے بارے میں اعلی ترین سطح کی کانفرنس منعقد کر وا رہی ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں اقوام متحدہ کے آبادی کے ادارہ ، پیکرڈ فاؤنڈیشن اور گیٹس فاؤنڈیشن کا تعاون بھی حاصل ہے۔ سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ یہ بات بڑی حوصلہ افزا ہے کہ 2015ء میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں ، مذہبی رہنماؤں اور صوبائی و وفاقی قیادت میں اس پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ہمیں بہت زیادہ شرح پیدائش اور آبادی میں بے ہنگم اضافہ کے معاشرے کی مجموعی فلاح و بہبود پر مضر اثرات پر قابو پانے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس اب نئے مواقع او رنئے حقیقی عوامل ہیں اب ہمارے پاس وژن 2025ء میں آبادی کے مسئلہ کی شمولیت سے یہ مسئلہ اجاگر کرنے کا بڑا اہم موقع ہے ۔ ایک اہم ستون کے طور پر انسانی سرمایہ کے دائرہ کار میںیہ اجلاس بڑا اچھا موقع فراہم کرتا ہے تاکہ انسانی ترقی ،صحت اور قومی و صوبائی سطح پر بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانے کی حکمت عملیاں اور راہوں کی سمت کا تعین کیا جا سکے ۔ انہوں نے کہا کہ پائیدار ترقی کے نئے بنائے گئے اہداف سے بھر پور استفادہ کرنے کی ضرورت ہے جن پر ستمبر2015ء میں وزیر اعظم پاکستان نے دستخط کئے تھے اور ان پائیدار ترقیاتی اہداف کا مقصد صوبوں میں آبادی اور صحت میں توازن لاناہے ۔ 18ویں ترمیم کے باعث آبادی اور صحت کے شعبوں کی صوبوں کو منتقلی کے بعد صوبوں کو آبادی پر قابو پانے کا ہدف پورا کرنے کا عزم کرنا ہو گا۔ صوبائی سطحوں پر ان اہداف کو اپنانے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے آبادی کے بارے میں حکمت عملی اور صوبائی سطح پر افراد کی صحت کے لئے لائحہ عمل کو یقینی بنانے کے عمل کا آغاز بھی ہو گیا ہے ۔ وزیر صحت نے کہا کہ پاکستان نے 2012ء میں خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں اعلی سطحی لندن کانفرنس میں شرکت کی اور مانع حمل اشیاء کے استعمال کی شرح بڑھانے اور خاندانی منصوبہ بندی نہ کئے جانے کی شرح میں کمی لانے کا عزم کیا۔پاکستان کے چاروں صوبوں کی صحت و بہبود آبادی کی وزارتوں کے نمائندوں کا ستمبر2014ء میں "صوبائی سطح کے ترقیاتی اور زچہ بچہ کی صحت کے اہداف کے حصول کے لئے خاندانی منصوبہ بندی ترجیح " کے عنوان سے اجلاس ہوا ۔ 2020ء کے لئے جو نئے مانع حمل کے اہداف مقرر کئے گئے وہ پنجاب میں 55فیصد ، سندھ میں 45فیصد ، کے۔ پی میں 42فیصد اور بلوچستان میں 32فیصد ہیں ان اہداف نے پاکستان کے صوبوں میں خانہ منصوبہ بندی کے پروگراموں میں تیزی لانے کی راہ ہموار کی ہے ۔یہ اہداف صوبائی سطح پر صحت اور بہبود آبادی کے پروگراموں میں شامل کئے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مختص کئے جانے والے صوبائی بجٹ سے بھی آبادی کے مسئلہ کو ترجیح دیئے جانے کے حکومتی عزم کا عندیہ ملتا ہے۔سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ 5 اور 6 نومبر کو منعقد ہونے والی اعلیٰ سطحی کانفرنس کے ذریعے ہم پاکستان کو درپیش آبادی کے مسئلہ پر قابو پانے کے لئے حکمت عملی اور سوچ میں تبدیلی لانے کا اعلان کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، ماضی میں کم بچے پیدا کرنے کے مشورہ کو عوام نے مغرب کا اسلام اور مسلم امہ کا حجم کم کرنے کا ایجنڈا سمجھ کر قبول نہیں کیا۔ ماضی کے ان تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں خاندانی منصوبہ بندی کے لئے دیئے گئے تصورمیں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اور ہمیں اب اس مسئلہ کے اقتصادی اور ڈیموگرافک پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی اور ایسی خاندانی منصوبہ بندی کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے جو کہ سماجی ، ثقافتی اور مذہبی طور پر قابل قبول ہو اور عوام بھی بآسانی اسے اپنا لیں۔ اس ضمن میں تبدیلی لانے میں اہم ترین کردار مذہبی رہنماؤں کے نیٹ ورک کا ہے جن کی تقاریر سے لوگ اثر لیتے ہیں وہ عام لوگوں کے خیالات اور رویئے کے ساتھ ساتھ سیاسی رائے عامہ پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اسی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اسلامی ممالک نے خاندانی منصوبہ بندی کے اپنے پروگراموں کے صحیح سمت میں آغاز پر ہی مذہبی رہنماؤں سے مدد لی ۔ تاہم پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کے پروگراموں کے بارے میں مذہبی رہنماؤں سے کام لینے کی کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں یہی ایک بڑی وجہ ہے کہ پاکستان خاندانی منصوبہ بندی کو آگے لے جانے کے حوالہ سے بہت سے علاقائی ممالک سے بھی پیچھے رہ گیا ہے۔ پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں مذہبی رہنماؤں اور علماء کرام کی طرف آنے والا رد عمل بڑا حوصلہ افزاء رہا ہے خاندانی منصوبہ بندی کے فوائد کے حوالے اعداد و شمار اور ثبوت سے قائل ہو کر اب مذہبی رہنما پیدائش میں وقفہ کی نہ صرف حمایت کے لئے میدان عمل میں آ گئے ہیں بلکہ اب وہ لڑکیوں کو تعلیم ، غذایت ، بھر پور توجہ اور مناسب نگہداشت پر بھی زور دینے لگے ہیں اس پر ان کا موقف ہے کہ قرآن پاک کے مطابق خاندان کی بنیاد پیار محبت اور نگہداشت پر ہے اورقرآن مجید میں ماؤں ، بچوں اور خاندانوں کے حقوق واضح طور پر بیان کئے گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ خاندان کے کسی بھی رکن کی زندگی خطرے میں ڈال دینے والی سختی کو اسلام کے اصولوں کے منافی قرار دیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ مائیں بچوں کو پورے دو سال تک اپنادودھ پلائیں ۔ حکومت اب ماؤں ، بچوں اور خاندانوں کی صحت اور فلاح و بہبود کو یقینی بنانے پر بھر پور توجہ دے رہی ہے۔ علماء اب خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں ماضی کی اس دلیل میں تبدیلی کو سراہتے ہیں جس میں اقتصادی پہلو پر زور دیا گیا تھا۔ اب خاندانی منصوبہ بندی کا تعلق خاندان کی صحت میں بہتری اور فلاح و بہبود اور زچہ بچہ کی قبل از وقت زچگی ،حمل اور اس سے ہونے والی اموات سے بچانے کے ساتھ جوڑا جاتا ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ علماء کرام نے یقین دلایا ہے کہ وہ پیدائش میں وقفہ کے قابل قبول مذہبی پیغامات پھیلانے کے لئے تمام متعلقہ حکومتی محکموں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہیں اس مقصد کے لئے وہ مسجد کے منبر سے لے کر الیکٹرانک میڈیا پر آنے سمیت ہر فورم پر بات کرنے کے لئے خود کو پیش کرتے ہیں تاکہ خاندانوں کی صحت اور فلاح و بہبود میں بہتری اور بچوں کی پیدائش میں وقفہ کے بارے میں رائے عامہ میں تبدیلی لانے میں مدد مل سکے ۔ پالیسی سازوں کو آبادی کے مسائل پر عوام کی سوچ کے جمود کو توڑنے کے لئے اس منفرد موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیئے ۔ہمیں توقع ہے کہ وزیر اعظم پاکستان اور چاروں صوبائی وزراء اعلی کے اس اعلی سطحی اجلاس میں تمام صوبے اور علاقے خاندانی منصوبہ بندی کے 2020ء کے اہداف اور دیگر ترقیاتی اہداف کے حصول پر زور دیں گے اور اس ضمن میں فنڈنگ اور اعلی سطحی عزم کریں گے ۔ یہ اعلی سطحی کانفرنس سیاسی قیادت کی توجہ کے علاوہ مذہبی قیادت کو بھی آگے لائے گی کہ پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی اور بچوں کی پیدائش میں وقفہ لانے کی کوششیں کس طرح تیز کی جا سکتی ہے ۔ آبادی کے بارے اعلی سطحی اجلاس میں اس معاملہ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کا بھی موقع اور خاندانی منصوبہ بندی کے قومی مسئلے کا اہداف کے عزم کا اعادہ کا موقع بھی ملے گا ۔ اور آبادی و ترقی کے بارے میں متفقہ قومی بیان جاری ہو سکے گا۔آبادی کے بارے میں 5 نومبر کو منعقد ہونے والے اعلی سطحی اجلاس میں پاکستان بھر سے 500مندوبین شرکت کریں گے اور اس میں تقریباً25سے 30 تک غیر ملکی ماہرین بھی شرکت کریں گے ۔
