عالمی تبلیغی اجتماع رائے ونڈ
آج جس تبلیغی تحریک کی سارے عالم میں صدائے باز گشت ہے اس کے بانی حضرت مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کے مجاہدوں، ریاضتوں اور روحانیت واخلاص سے اس تحریک کی ابتداء ہوئی۔
راؤنڈ میں منعقد ہونے والا عالمی اجتماع جس میں پوری دنیا سے لاکھوں مسلمان شرکت کر رہے ہیں حسبِ سابق اس مرتبہ بھی رائے ونڈ تبلیغی اجتماع کے دو سیشن ہونگے پہلا سیشن 2 نومبر2017بروز جمعرات کی شام سے شروع ہوگا اور 5 نومبر بروز اتوار پہلا سیشن اجتماعی دُعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا، تبلغی اجتماع کا دوسرا سیشن 09 نومبر بروز جمعرات کی شام سے 12 نومبربروز اتوارتک ہوگا ،یہ سیشن بھی اجتماعی دعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا۔اس عالمی اجتماع میں پاکستان سمیت پوری دنیا سے لاکھوں مسلمان شریک ہوں گے اور آخری روز ’’اجتماعی دعا‘‘ میں یہ تعداد مزید بڑھ جاتی ہے۔۔۔
زبان پر ذکر الٰہی ، آنکھوں میں شب بیداری کے آثار، پیشانیوں پر سجدوں کے نشان، کاندھوں پر بستر، ایک ہاتھ میں ضروری سامان اور دوسرے ہاتھ میں تسبیح لیے بے شمار قافلے اپنے مخصوص انداز اور ترتیب سے آج پوری دنیا میں ملک ملک شہر شہر، نگرنگر اور قریہ قریہ اپنے قدموں کو دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت کیلئے اللہ کے راستہ میں بڑی دلسوزی کے ساتھ گرد آلود کرتے ہوئے امت کے ایک ایک فرد کے دروازے پردستک دیتے ہوئے نظر آئیں گے، ان قافلوں کو عرف عام میں ’’تبلیغی جماعت‘‘ کہا جاتا ہے چوبیس گھنٹوں میں کوئی ایسا وقت اور لمحہ نہیں گزرتا جس میں تبلیغی جماعت کی نقل وحرکت پوری دنیا میں کہیں نہ کہیں جا ری نہ ہو،۔۔۔۔۔
بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ کا گھرانہ ان خوش قسمت خاندانوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے مقبولیت و محبوبیت سے خوب نوازا تھا۔ اس خاندان کی بنیاد کچھ ایسے صدق و اخلاص پر پڑی تھی کہ صدیوں تک یکے بعد دیگرے نسل درنسل اس خاندان میں علماء وفضلاء، اہل کمال، مقبولین اور اللہ والے لوگ پیدا ہوتے رہے۔ جہاں اس خاندان کے مردوں میں جذبہ جہاد، تقویٰ ونیکی، دین کی اشاعت و ترویج کا عام رواج تھا وہاں ان کی عورتیں بھی دینداری، عبادت گزاری، شب بیداری اور ذکر و تلاوت میں پیچھے نہ تھیں بلکہ اس خاندان کی عورتوں میں بھی قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر اور احادیث کے مطالعہ کی عام عادت تھی۔
آپؒ کے والد مولانا محمد اسماعیلؒ ولی کامل اور والدہ محترمہ بھی ’’رابعہ سیرت‘‘ خاتون تھیں جنہو ں نے آپؒ کی پرورش و تربیت میں کوئی کمی نہ چھوڑی، چھوٹی عمر میں ہی قرآن مجید اور دینی علوم کی تعلیم احسن طریقہ سے امتیازی شان اور نمایاں اندازمیں مکمل کر لی تھی، نیکی و تقوی کی صفات بچپن میں ہی آپؒ کے اندر نمایاں اور خاندان میں آپؒ کی شہرت ولی کامل کی تھی۔
آپؒ نے جہاں شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ جیسے مجاہد عالم دین سے علم حاصل کیا وہاں دوسری طرف آپ ؒ نے اپنے وقت کے قطب الاقطاب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے تصوف و سلوک کی منازل تیزی سے طے کیں۔۔۔ ایک مرتبہ آپؒ نے اپنے پیر و مرشد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ سے عرض کیا کہ حضرت ذکر کرتے ہوئے میرے دل پر بوجھ محسوس ہوتا ہے حضرت گنگوہیؒ یہ سن کر متفکر ہوئے اور فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ نے اپنے مرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے اس قسم کی شکایت کی تھی توحاجی امداد اللہ صاحبؒ نے جواب فرمایا کہ’’اللہ تعالیٰ آپؒ سے کام لیں گے‘‘۔
بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاسؒ نے جب اپنے گردوپیش کا جائز ہ لیا تو ہر طرف دین سے دوری عقائد کی خرابی اور اعمال و عقائد کا بگاڑ دیکھا کہ لوگ شرک و بدعت، جہالت اور ضلالت و گمراہی کے ’’بحرظلمات‘‘ میں ڈوبے ہوئے ہیں تو ان کے دل پر چوٹ لگی اور وہ امت محمدیہ ﷺ کی اصلاح کے سلسلہ میں متفکر و پریشان دیکھائی دینے لگے، آپؒ نے محسوس کیا کہ عام دینداری جو پہلے موجود تھی اب ختم ہوتی اور سمٹتی چلی جا رہی ہے، پہلے یہ دین داری خواص تک اور مسلمانوں کی ایک خاص تعداد میں رہ گئی تھی پھر اس کا دائرہ اس سے بھی تنگ ہوا اور ’’اخص الخواص‘‘ میں یہ دینداری باقی رہ گئی ۔پہلے جو خاندان اور قصبات و علاقے اور شہر ’’رشد و ہدایت‘‘ کے مراکز سمجھے جاتے تھے ان میں بھی اس قدر تیزی کے ساتھ انحطاط و زوال ہوا کہ اب ان کی ’’مرکزیت‘‘ ختم ہوتی جارہی ہے جہاں پہلے علم و عمل کی قندیلیں روشن رہتی تھیں اب وہ بے نور ہیں، دوسری بات انہوں نے یہ محسوس کی کہ علم چونکہ ایک خاص طبقہ تک محدود رہ گیا ہے اس لیے آپؒ یہ چاہتے تھے کہ عوام الناس میں پھر سے دینداری پیدا ہو، خواص کی طرح عوام میں بھی دین کی تڑپ اور طلب پیدا ہو، ان میں دین سیکھنے سکھانے کا شوق و جذبہ انگڑائیاں لے، اس کے لیے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ ہر ایک دین سیکھے، کھانے، پینے اور دیگر ضروریات زندگی کی طرح دین سیکھنے او اس پر عمل کرنے کو بھی اپنی زندگی میں شامل کریں اور یہ سب کچھ صرف مدارس و مکاتب اور خانقاہی نظام سے نہیں ہوگا کیونکہ ان سے وہی فیضیاب ہو سکتے ہیں جن میں پہلے سے دین کی طلب ہواور وہ اس کا طالب بن کر خود مدارس و مکاتب اور خانقاہوں میں آئیں، مگر ظاہر ہے کہ یہ بہت ہی محدود لوگ ہوتے ہیں اس لیے مولانا الیاس کاندھلویؒ ضروری سمجھتے تھے کہ اس ’’دعوت و تبلیغ‘‘ کے ذریعہ ایک ایک دروزاہ پر جا کر اخلاص و للہیت کے ساتھ منت و سماجت اور خوشامد کر کے ان میں دین کے ’’احیاء‘ کی طلب پیدا کی جائے کہ وہ اپنے گھروں اور ماحول سے نکل کر تھوڑا سا وقت علمی و دینی ماحول میں گزاریں تاکہ ان کے دل میں بھی سچی لگن اور دین سیکھنے کی تڑپ پیدا ہوا اور یہ کام اسی دعوت والے طریقہ سے ہوگا جو طریقہ اور راستہ انبیاء کرام علیہم السلام کاتھا اور جس پر چلتے ہوئے صحابہ کرامؓ جیسی مقدس اور فرشتہ صفت جماعت پوری دنیا پر اسلام کو غالب کرنے میں کامیاب ہوئی اور پھر جب اس دعوت و تبلیغ سے عام فضا دینی بنے گی تو لوگوں میں دین کی رغبت اور اس کی طلب پیدا ہوگی تو مدارس و خانقاہی نظام اس سے کہیں زیادہ ہوگا بلکہ ہر شخص مجسمِ دعوت اور مدرسہ و خانقاہ بن جائے گا۔
مولانا الیاسؒ کی یہ عالمگیر’’احیائے اسلام کی تحریک‘‘ جیسے ظاہر میں لوگ صرف کلمہ و نماز کی تحریک کہہ کر اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوش کرتے ہیں یہ کوئی معمولی کام اور تحریک نہیں بلکہ یہ پورے دین کو عملی طور پر زندگی میں نفاذ کی تحریک ہے۔جماعت کے بانی حضرت مولانا الیاس ؒ خود اپنی اس تحریک کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’میرا مدعا کوئی پاتا نہیں‘‘ لوگ سمجھتے ہیںیہ’’تحریکِ صلوٰۃ‘‘ ہے میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ ہر گز تحریکِ صلوٰۃ نہیں ہے بلکہ ہماری جماعت اور تحریک کا ایک خاص مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو حضورﷺ کا لایا ہوا دین پورا کا پورا سیکھا دیں یہ تو ہماری تحریک کا مقصد، رہی تبلیغی قافلوں کی چلت پھرت، تو یہ اس مقصد کے لیے ابتدائی ذریعہ ہے اور کلمہ و نماز کی تلقین گویا ہمارے پورے نصاب کی الف، ب، ت ہے۔۔۔۔
ہماری تبلیغی تحریک کا ایک خاص مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے سارے کے سارے جذبات پر دین کے جذبہ کو غالب کر کے اور اس راستہ سے مقصد کی دعوت کو پیدا کرتے ہوئے اور اکرام مسلم کے اصول کو رواج دے کر پوری قوم کو اس حدیث کے مصداق بنایا جائے۔
ترجمہ: ’’تمام مسلمان ایک جسم و جان کی مانند ہیں‘‘۔ اور ہمارے تبلیغی کام میں اخلاص، صدقِ دل کے ساتھ اجتماعیت اور مل جل کر باہمی مشورے کے ساتھ کام کرنے کی بڑی ضرورت ہے اور اس کے بغیر بڑا خطرہ ہے۔۔۔
مولانا الیاسؒ نے اس دعوت و تبلیغ والے کام کے طریقہ کار اور چھ اصولوں کے علاوہ کچھ مطالبے اور دینی تقاضے بھی رکھے ہیں جس کے تحت اس دعوت و تبلیغ والے کام کی محنت و ترتیب اور مشورہ کے لیے روزانہ کم از کم دو سے تین گھنٹے وقت دینا، ذکر و اذکار اور اعمال کی پابندی کرناروزانہ دو تعلیمیں کروانا ایک مسجد میں اور ایک گھر میں، ہفتہ میں دو گشت کرنا، جس کے تحت کچھ وقت نکال کر اپنے ماحول میں ضروریاتِ دین کی تبلیغ کیلئے باقاعدہ جماعت بنا کرایک امیر اور ایک نظام کی ماتحتی میں اپنی جگہ اور قرب و جوار میں تبلیغی گشت کرنا، ہر مہینہ میں تین دن اس دعوت و تبلیغ والے کام میں لگاتے ہوئے اپنے شہر یا قرب و جوار کے علاقہ میں گشت و اجتماع کرتے ہوئے دوسروں کو بھی اس دعوت و تبلیغ والے کام پر نکلنے کیلئے امادہ اور تیار کرنا، سال میں ایک ’’چلہ‘‘ یعنی چالیس دن اللہ کے راستہ میں دعوت و تبلیغ کیلئے لگانا، اور پھر چار مہینے(تین چلے) اللہ تعالیٰ کے راستہ میں نکل کر لگاتے ہوئے دین اور اس دعوت و تبلیغ والے کام کو سیکھے اور پھر ساری زندگی اسی کام میں صرف کرنا۔ بقول حضرت مولانا پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ کے کہ ’’اس دعوت و تبلیغ والے کام کو کرتے کرتے مرنا اور مرتے مرتے کرناہے‘‘۔
رائے ونڈ کے اس ’’عالمی تبلیغی اجتماع‘‘ میں لاکھوں افراد کی شرکت کے باوجود یہاں کوئی جھگڑا، فساد، ہنگامہ، گالم گلوچ نظر نہیں آئے گا بلکہ ہر شخص اخلاص و للہیت کا پیکر اور عاجز ی و انکساری کا مجسم نظر آئے گا۔۔۔ تبلیغی اجتماع میں ملکی، سرحدی، صوبائی امتیازات، قومی لسانی تعصبات اور گروہ بندیاں خاک میں مل جاتے ہیں یہاں سب بحیثیت مسلمان، امیر و غریب، حاکم و محکوم، پنجابی و پٹھان، بلوچی و سندھی، گورا ، کالا، عربی ،عجمی یا رنگ و نسل کے اختلافات سے بے نیاز ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے اور سجدہ ریز ہو کر پوری دنیا کے مسلمانوں کی اصلاحِ، امت کے ایک ایک فرد کو جنت کی طرف لے جانے، غلبہ اسلام، خلافت راشدہؓ کے مقدس نظام کے عملی نفاذ، کشمیر وعراق، شام، افغانستان وفلسطین، برما ویمن سمیت دیگر ملکوں کے مظلوم مسلمانوں کی آزادی و کامیابی، حرمین شریفین کے تحفظ، وطن عزیز کی سا لمیّت و استحکام، دین کیلئے محنت کرنے کی دُعااور اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔
’’وہ لمحات جو اللہ والوں کی صحبت میں گزر جائیں وہ لمحات قیمتی ترین، متاعِ حیات، دنیا میں کامیاب زندگی گزرانے اور آخرت میں نجات کا ذریعہ بن جاتے ہیں‘‘۔