’’نئی شادی کر لینا صریح دھوکہ ہے ‘‘ مذہبی سکالر کی ایسی توجیہہ کہ دوسری شادی کی خواہش رکھنے والوں کو سب سے پہلے یہ مشکل کام کرنا ہوگا
لاہور(فرید نظامی)اسلام میں مرد کو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت کے معاملہ میں مختلف مکتبہ فکر میں اختلافات پائے جاتے ہیں ،نہ صرف یہ بلکہ پہلی بیوی کو بتائے بغیر بھی شادی کرنے کے سوال پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے تاہم اس بارے میں زیادہ بااثر رائے یہ ہے کہ پہلی بیوی کو مطلع کئے یا اسکی اجازت کے بغیر شادی کی جاسکتی ہے جو شرعی طور پر درست مگر قانوناً جرم سمجھی جائے گی۔اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے چئیرمین مولانا شیرانی اس بارے میں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ مرد پردوسری شادی کے لئے پہلی بیوی سے اجازت لینا لازمی نہیں ۔ ۔دوسرے ملکوں کی نسبت پاکستان میں ایک سے زائد شادیوں اور پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر شادی کے فقہی مسائل پر بحث مباحثہ زیادہ ہوتا ہے ۔حال ہی میں معروف مذہبی سکالر جاوید احمد غامدی نے اپنے مضمون میں بیوی کو بتائے بغیر دوسری شادی کے شرعی احکام پر اپنا ذاتی نقطعہ نظر پیش کیا ہے جس سے ایک بار پھر اس موضوع کا رخ الجھی ہوئی بحث کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔جاوید احمد غامدی نے لکھا ہے کہ ’’ میرے نزدیک بیوی کو بتائے بغیر نئی شادی کر لینا صریح دھوکہ ہے اس کی شریعت کیسے اجازت دے سکتی ہے۔ ہمارے ہاں شادی غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے کہ یہ ایک مقدس رشتہ ہے اور اس کے تقاضوں کو پامال نہیں کیا جائیگا۔ چنانچہ اگر کوئی بغیربتائے دوسری شادی کرتاہے تو فریب دیتا ہے۔ جن چیزوں میں کسی کی حق تلفی روکنے کیلئے قانون بنایا جائے اس میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ اس قانون کی پابندی کی جائیگی۔ ریاست کاقانون اگر شریعت کے خلاف نہ ہو تو وہی حیثیت رکھتا ہے جو اللہ کی ہدایت کی ہے۔
دوسری طرف یہ بات بھی بڑی تکرار سے کی جاتی ہے کہ اسلام میں چار شادیوں کی اجازت ہے، یہ تاثر سر اسر غلط ہے صحیح تعبیر یہ ہوگی کہ اسلام میں یا شریعت میں ایک سے زیادہ شادی پر پابندی نہیں لگائی گئی۔ جن چیزوں پر اللہ تعالیٰ پابندی نہیں لگاتے ان کو معاشرے کیلئے چھوڑ دیتے ہیں، تاکہ وہاں انسان قانون سازی کرسکیں، انسان جب قانون سازی کرتا ہے تو اس کی دو بنیادیں ہوتی ہیں، یا تو کسی کی حق تلفی کو روکنے کیلئے قانون سازی کی جاتی ہے یا کسی کی جان، مال، آبرو پر زیادتی کو روکنے کیلئے قانون سازی کی جاتی ہے۔
ہمارے ملک میں یہ قانون اس لئے بنایا گیا کہ مرد عام طور پر زیادتی کرتے تھے، بغیر پوچھے شادی کر لیتے تھے اور بعض اوقات کافی دیر بعد پتہ چلتا تھا۔ یہ قانون شرعی لحاظ سے بالکل درست اصول پر بنایا گیا ہے اس پر دینی یا اخلاقی طور پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ شریعت کا اصول یہ ہے کہ جو مباحات کادائرہ ہے یا جن میں اجازت ہوتی ہے اس میں ریاست قانون بنا سکتی ہے، جب وہ ریاست کے قانون کی خلاف ورزی کرے گا تو یہ قانون کی خلاف ورزی ہوگی۔ ہمیں تین چیزوں کا پابند کیا گیا ہے اللہ کی اطاعت، پیغمبرﷺ کی اور جو ہمارا قانونی نظام ہو، حکمران جب کوئی قانون بناتے ہیں تواس کی بھی وہی حساسیت ہے۔ اب دیکھیں ٹریفک قانون ہے اس میں شرعی پابندیاں تو کوئی نہیں لیکن جب ہم نے یہ قانون لوگوں کی حفاظت کیلئے بنا دیا تو سب پر پابندی لازم ہے‘‘ جاوید احمد غا مدی کے برعکس مفتی عبدالقیوم ہزاروی کا کہنا ہے کہ پہلی بیوی کو بتائے بغیر شادی کرنا شرعاً جائز مگر قانوناً جرم ہے۔