پُر تشدد احتجاج مسئلے کا حل نہیں!
مُلک میں آسیہ کیس کے فیصلے پر جو ردعمل ہوا اور جاری ہے، اس کے کئی افسوسناک پہلو ہیں۔ جس طرح اسے پُرتشدد بنا دیا گیا ہے، گاڑیاں، بسیں، موٹر سائیکلیں اور درخت تک جلائے جا رہے ہیں،وہ اس امر کا اظہار ہیں کہ اس تحریک کی کال جس نے بھی دی، اُس کا اِس پر کنٹرول نہیں ہے۔ ایک ایسے مسئلے پر احتجاج ، جو سرورِ کائنات حضرت محمدؐ کی ذاتِ اقدس سے جڑا ہوا ہے، اِس طرح کی شکل اختیار کر لے گا، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ لوگوں کو اذیت دے کر جو احتجاج کیا جاتا ہے وہ جلد عوام کی نفرت کا نشانہ بن جاتا ہے۔ احتجاج کے دو دِنوں میں جو کچھ ہو چکا ہے، اب شاید اِس کا دفاع اِس کے حامی بھی نہ کر سکیں۔احتجاج کرنا ہے تو آپ کسی ایک جگہ دھرنا دے کر بیٹھ جائیں۔سنی تو آپ کی وہاں بھی جائے گی،یہ سڑکیں بند کرنا، ریل گاڑیاں نہ چلنے دینا، بازاروں کو زبردستی بند کرانا، جو بند نہ کرے، اُس کی دکان لوٹ لینا، نہ رکنے والوں کی گاڑیاں جلانا، گویا دہشت کا ایک سماں پیدا کر دینا وقتی فائدہ تو دے سکتا ہے،مگر اسے صحیح معنوں میں عوامی حمایت حاصل نہیں ہو سکتی۔
صاف لگ رہا ہے کہ ایجنڈا کوئی اور ہے اور فائدہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے اُٹھایا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ ایسے مظاہروں سے کیسے بدل سکتا ہے۔ قانون یا آئین میں اتنی گنجائش کہاں ہے کہ مظاہروں پر سپریم کورٹ کے فیصلے بدلے جا سکیں۔ اس کا بہترین راستہ وہی ہے جو حافظ محمد سعید اور دو وکلاء نے اختیار کیا ہے،یعنی سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کرنا۔ یہ کوئی بنانا ریاست ہے کہ اس کے فیصلے اور اختیارات کو چند لوگوں کے ہاتھوں میں دے دیا جائے اور وہ جس طرح چاہیں انہیں استعمال کریں۔۔۔پاکستان کوئی چھوئی موئی قسم کی حقیقت نہیں جسے یرغمال بنایا جا سکے۔یہاں کتنے ایسے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے والے وقت کے ساتھ ساتھ مٹ گئے، پاکستان آج بھی سلامت ہے، طالبان نے بھی اسی طرح پاکستان کو یرغمال بنانے کی کوشش کی تھی۔ وہ آئین کو مانتے تھے اور نہ پاکستان کی پارلیمینٹ کو، پھر سب نے دیکھا کہ وہ پاکستان سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دیئے گئے۔ سوات میں قبضے کے بعد علیحدگی کی تحریک چلی تو اُس میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے تھے،جو خوف اور گمراہی کی وجہ سے شرپسندوں کے ساتھ تھے۔ جب ریاست نے فیصلہ کیا کہ انہیں نیست و نابود کرنا ہے تو سب نے دیکھا کہ کس طرح مُلک دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔ آج سوات میں امن بھی ہے اور کوئی اُن کا نام لینے والا بھی موجود نہیں۔
مجھے یاد ہے جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک نظام مصطفےٰ چلی تو تمام دینی جماعتیں اس میں شامل تھیں۔اُس وقت بھی دھرنے ہوتے اور شہر بند کئے جاتے تھے،مگر قیادت کی طرف سے بار بار یہ اپیل کی جاتی تھی کہ احتجاج کریں،مگر کسی کی جان و مال کو نقصان نہ پہنچے۔ ملتان میں مولانا حامد علی خان اس تحریک کے روحِ رواں تھے۔وہ ملتان کے بے تاج بادشاہ کہلاتے تھے۔ اُن کے حکم پر لوگ لڑنے مرنے کو تیار رہتے تھے، لیکن انہوں نے کبھی اپنے کارکنوں کو اجازت نہیں دی کہ وہ لوٹ مار کریں یا قانون ہاتھ میں لیں۔ملتان میں تحریک کے دوران بازار بند ضرور ہو جاتے تھے، لیکن ایسا نہیں تھا کہ لوگ کھلی دکانوں پر لوٹ مار کریں۔شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اُس وقت کی قیادت آج کے مولانا صاحبان جیسی نہیں تھی، جو کال دے کر یہ بھول گئے کہ احتجاج کو پُرامن بھی رکھنا ہے۔ ویسے وہ ایسا کر بھی کیسے سکتے تھے، جب خود انہوں نے مُلک کی اہم شخصیات کو قتل کرنے کے فتوے جاری کئے۔طیارے کو ہائی جیک کرنا اور راستوں کو بند کر دینا ایک جیسا جرم ہے۔دونوں اپنی منزل پر پہنچنے سے محروم رہ جاتے ہیں
۔مجھے یاد ہے جب میر مرتضیٰ بھٹو نے پاکستانی طیارہ ہائی جیک کیا تھا اور الذوالفقار تنظیم کے گرفتار ساتھیوں کو چھڑا لیا تھا تو باشعور حلقوں نے اُسی وقت کہہ دیا تھا کہ مرتضیٰ بھٹو پاکستانی سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکل گیا ہے،کیونکہ ایسا عمل کر کے کوئی بھی سیاست دان نہیں بن سکتا۔سیاست تو سیاسی جدوجہد مانگتی ہے۔ آج تحریک لبیک پاکستان بھی وہی کر رہی ہے، جسے سیاست میں ممنوع سمجھا جاتا ہے۔وہ سیاسی جدوجہد کی بجائے پُرتشدد جدوجہد کر رہی ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں وہ چوتھی بڑی جماعت بن کر اُبھری،لیکن عوام اب جو کچھ دیکھ رہے ہیں، اُس کی وجہ سے تحریک لبیک وحشت کی علامت بنتی جا رہی ہے۔اس سے اس کے ووٹ بینک میں اضافہ نہیں کمی ہو گی۔یہ تاثر اگر گہرا ہوتا چلا گیا کہ تحریک لبیک آئین، قانون اور سپریم کورٹ پر یقین نہیں رکھتی تو سیاست میں اُس کے لئے زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔پھر شاید اُسے اُن پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑے جو آئین کے تحت ایسی تنظیموں پر لگائی جا سکتی ہیں۔
یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ آئین سے بغاوت کر کے پاکستان میں رہنا ممکن نہیں۔کوئی بھی پرویز مشرف اور الطاف حسین سے زیادہ طاقتور نہیں۔آج وہ دونوں مُلک سے باہر بیٹھے ہیں اور اُن کے لئے سیاست کرنا تو درکنار مُلک میں واپس آنا بھی ناممکن ہو گیا ہے۔آج ہی آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ فوج کو ہر معاملے میں نہ گھسیٹا جائے،ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ فوج کو مجبور نہ کیا جائے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے، جو آئین نے اُسے سونپ رکھا ہے۔ یہ بات غالباً اُن لوگوں کے لئے کہی گئی ہے جو فوج اور اُس کے سپہ سالار کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے بجا کہا ہے کہ آسیہ کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے دیا ہے۔ یہ مقدمہ تقریباً دس برس پاکستانی عدالتوں میں چلتا رہا ہے، دس برس بعد سپریم کورٹ نے اگر اُسے بری کیا ہے تو اُسے کوئی وقتی یا دباؤ کے تحت کیا گیا فیصلہ نہیں کہا جا سکتا۔سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں حکومت کوئی فوری ریلیف نہیں دے سکتی، حتیٰ کہ سپریم کورٹ بھی ایسا نہیں کر سکتی۔البتہ صرف نظرثانی کی اپیل کا راستہ موجود ہے
۔جو ظاہر ہے ایک صبر آزما عمل ہے،اِس لئے جو احتجاج ہو رہا ہے اِس کا ہدف کون ہے۔ پاکستانی عوام، جن کی زندگی اجیرن کر دی گئی ہے۔ مذہب کے نام پر لوگوں کو کیوں گمراہ کیا جا رہا ہے۔یہ معاملہ سڑکوں پر حل ہونے والا نہیں، بالآخر معاملہ مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہو گا۔ وہ بھی اس طرح کہ حکومت نظرثانی اپیل خود دائر کرنے پر آمادگی ظاہر کر دے، اس کے سوا پاکستانی آئین کے تحت کوئی چارہ نہیں، اپنے پیرو کاروں کو ڈنڈے سوٹے دے کر میدان میں اتارنے والوں کو اتنی سمجھ بوجھ تو ضرور ہو گی کہ عدالت کا فیصلہ ڈنڈوں اور بندوقوں سے تبدیل نہیں ہوتا۔ مَیں نے سپریم کورٹ کا56صفحات پر مشتمل فیصلہ پڑھا ہے،ججوں نے خوفِ خدا اور حُبِ رسولؐ کواپنے دِل و ذہن میں رکھ کر میرٹ کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔
ایسے بہت سے دلائل دیئے اور نکات اٹھائے ہیں،جو آسیہ مسیح کی بے گناہی کو ظاہر کرتے ہیں۔نچلی عدالتوں اور پولیس کی سطح تک ایک خوف کی وجہ سے کئی سچائیوں کو چھپایا گیا، جن کا سپریم کورٹ کے فیصلے میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ ایک بے گناہ کو سزا کے بعد اس کی تلافی نہیں ہو سکتی۔ البتہ اگر وہ انسانی غلطی سے رہا ہو جائے تو اللہ کی پکڑ میں ضرور آتا ہے۔مظاہرین پچھلے دو روز سے جو بھی کر رہے ہیں،وہ کسی بھی طرح اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں،اسلام تو دوسرے کی جان و مال کا احترام کرنے کی تلقین کرتا ہے۔اس سلسلے کو ریاست بھی زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتی،کیونکہ پھر اُس کی ذمہ داری پر بھی سوالات اٹھنے لگتے ہیں،بہتر راستہ یہی ہے کہ آسیہ کیس کو نظرثانی اپیل کے ذریعے ایک بار پھر سپریم کورٹ لے جایا جائے اور کیس کو سچا ثابت کرنے کے لئے ٹھوس شواہد اور ثبوت فراہم کئے جائیں، اس کے سوا جو کچھ بھی ہو گا،وہ انتشار تو پیدا کر سکتا ہے، مسئلے کا حل نہیں نکال سکتا۔