دورۂ آسٹریلیا شاہینوں کا امتحان شروع
پاکستان کرکٹ ٹیم دورہ آسٹریلیا میں میزبان ٹیم کے خلا ف پہلا ٹی ٹونٹی میچ کھیلنے میں مصروف ہے،پریکٹس میچ جیتنے کے بعد کھلاڑیوں کے حوصلے بلند ہیں۔ کھلاڑیوں نے اپنی نظریں سیریز پر جمالی ہیں اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ کینگروز کو انہیں کے میدان میں ڈھیر کردیں گے، اب دیکھنا یہ ہے کہ شاہین کس طرح اس سیریز میں کینگروز کو دبوچنے میں کامیاب ہوتے ہیں،جو ایک بہت مشکل ہدف ہے۔خاص طور پر ٹی ٹونٹی ٹیم کے نئے کپتان بابر اعظم اور ٹیسٹ ٹیم کے کپتان اظہر علی پاکستان کرکٹ بورڈ کے اعتماد پر کس حد تک پورا اترتے ہیں بلاشبہ دورہ آسٹریلیا پاکستان کے لئے ایک بہت ٹف دورہ ہے اس سے قبل بھی جب بھی پاکستان کی ٹیم نے آسٹریلیاکا دورہ کیا ہمیشہ ہی قومی ٹیم کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا حال ہی میں جس طرح سے پاکستان کی ٹیم نے سری لنکا کیخلاف اپنی ہی ہومسیریز میں او ر گراؤنڈ پر ناقص ترین کھیل کامظاہرہ کیا اور کمزور ٹیم کے ہاتھوں جس طرح سے اس کو کلین سوئپ شکست ہوئی اس کے بعد اب آسٹریلیا کے خلاف اس کی سر زمین پر میچ جیتنا حقیقتا ایک خواب سے کم نہیں ہے اور اب اس خواب کو کسطرح سے حقیقت میں بدلا جاتا ہے یہ تو اب میچز کے نتائج سے ہی معلوم ہوگا مگر سرفراز احمد کو ٹیم کی کپتانی سے ہٹاکر اگر ٹیم سے اچھے نتائج کی توقع کیجارہی ہے تو یہ شائد درست بات نہیں ہے۔ دوسری طرف آسٹریلیاکی ٹیم اس وقت مکمل فارم میں ہے اور اس نے جس طرح سے سری لنکا کے خلاف حالیہ ٹی ٹونٹی سیریز میں بہت عمدہ کھیل کامظاہرہ کیا اور بڑے مارجن سے کامیابیاں حاصل کیں ہیں اس سے لگتا ہے کہ پاکستان کو شکست دینا اس کے لئے آسان ہی ہوگا پاکستان کرکٹ ٹیم نے اس سیریز سے قبل سرفراز احمد کو کپتانی سے ہٹایا جس پر شائقین کرکٹ نے ان پر شدید تنقید کی اور کہا کہ ایک بہترین کپتان کو کیوں ہٹایا گیا ان کو کم از کم اس سیریز میں کپتانی کا موقع ضرور ملنا چاہئیے تھا بہرحال جو ہوا اب دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح سے بابر اعظم اور اظہر علی ٹیم کی باگ دوڑ سنبھالتے ہیں اور کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔ ٹی ٹونٹی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کا کہنا ہے کہ کپتانی بہت اعزاز کی بات ہے اور آسٹریلیا کے خلاف سیریز ہی پہلا ٹارگٹ ہے جو آسان نہیں ہے مگر اس کے باوجود میری کوشش ہوگی کہ میں عمدہ کپتانی کامظاہرہ کروں اور پوری ٹیم کو ساتھ لیکر چلوں اور پوری ٹیم سے یہ ہی امید رکھتا ہوں کہ وہ بھی میرا بھرپور ساتھ دے گی اور اسی طرح سے ہم اس مشکل سیریز میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔قومی ٹیم کے فاسٹ باؤلروہاب ریاض نے کہا ہے کہ آسٹریلیا میں ٹی ٹوئنٹی سیریز میں فتح حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ کینگروز کے خلاف کامیابی مہمان کھلاڑیوں کے اعتماد میں اضافہ کا ذریعہ بنے گی، پیس بیٹری میں بھی نوجوانوں اور تجربہ کار کھلاڑیوں سمیت اچھے بولرز شامل ہیں، کھلاڑیوں کے لیے اپنی صلاحیتوں کو منوانے کا اچھا موقع ہے، بڑی ٹیم سے سیریز آسان نہیں ہوتی، پاکستان ٹیم ٹی20میں اچھی کرکٹ کھیلتی آئی ہے، ٹیم میں تجربہ کار اور نوجوان بولرز کا اچھا کمبی نیشن ہے، کوچ اور مینجمنٹ بہت سپورٹ کرتی ہے، بہت اچھی چیز ہے مصباح الحق اور وقار یونس ہماری کوچنگ کر رہے ہیں، ہیڈ کوچ مصباح الحق اور وقار یونس دونوں بہت پازیٹو ہیں۔آسٹریلیا سیریز مشکل ضرور ہے لیکن مقابلہ اچھا ہوگا، سب مل کر فتوحات کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش کریں گے، گرین شرٹس کو ہیڈکوچ و چیف سلیکٹر مصباح الحق اور بولنگ کوچ وقار یونس کی رہنمائی حاصل ہونا بڑی خوش آئند بات ہے، دونوں کی سوچ بڑی مثبت اور کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کا باعث ہے۔وہاب ریاض کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا کے خلاف سیریز آسان نہیں ہوگی، ٹیم کو اچھا کھیل پیش کرنا ہوگا۔جبکہ قومی کرکٹ کے اوپنر فخر زمان کا کہنا ہے کہ آسٹریلوی کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہو گئے۔ یہاں کی پچز مختلف ہیں لیکن کافی حد تک کنڈیشنز کو سمجھ چکے ہیں، پریکٹس میچ میں بولرز نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میزبان ٹیم کو بڑا سکور نہیں کرنے دیا۔انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں بھی اچھی کرکٹ دیکھنے کو ملے گی، میزبان کینگروز کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے، پیسرز اور اسپنرز سب ردھم میں نظر آئے، ہدف بڑا نہ ہونے کی وجہ سے بطور اوپنر مجھے اور بابر اعظم کو بھی کریز پر سیٹ ہونے کا وقت ملا، کارکردگی کا یہی معیار آسٹریلیا کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں بھی برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے۔جبکہ آسٹریلیا کے دھواں دھار بلے باز کرس لین کا ماننا ہے کہ پاکستانی ٹیم سری لنکا سے زیادہ مشکل حریف ثابت ہوسکتی ہے-آسٹریلوی بلے باز کا کہنا تھا کہ پاکستانی ٹیم نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک ورلڈ کلاس ٹیم ہے جس کے پاس 150 کلومیٹر کی رفتار سے گیند کرانے والے بالر اور بہترین بلے باز موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ٹیم ٹی 20 کرکٹ میں دنیا کی بہترین ٹیموں میں شامل ہے۔آسٹریلوی بلے باز کرس لین نے آسٹریلیا کو خبردار کیا کہ ورلڈ کلاس پاکستانی ٹیم کو آسان نہ سمجھیں کیونکہ آنے والی تین میچوں کی ٹی 20 سیریز میں پاکستانی ٹیم سری لنکا سے زیادہ مشکل حریف ثابت ہوسکتی ہے۔کرس لین کا کہنا تھا کہ پاکستانی ٹیم میں لیفٹ آرم اسپنر عماد وسیم اور شاداب خان جیسے شاندار بالر موجود ہیں جو ہمارے بلے بازوں کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔کرس لین نے آسٹریلیا کے علیل کھلاڑی گلین میکس ویل کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں میکس ویل کی بیماری کا سن کر بہت پریشانی ہوئی کیونکہ جب ٹیم کا ایک کھلاڑی ٹیم سے باہر جاتا ہے تو پوری ٹیم پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میکس ویل آسٹریلوی ٹیم کا فخر ہیں اور انہیں امید ہے کہ وہ پوری طرح صحت یاب ہو کر کرکٹ کی دنیا میں واپس آئیں گے۔ آسٹریلوی کھلاڑی گلین میکس ویل آج کل اپنی دماغی بیماری کے باعث کرکٹ کی دنیا سے دور ہیں اور اپنے ڈاکٹر کے مشورے پر آرام کر رہے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کھلاڑیوں نے اس سیریز کو بہت اہمیت کا حامل قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ سرفراز کے بغیر اس سیریز میں پاکستان کی ٹیم کو کامیابی حاصل کرنے کے لئے بہت مشکل درپیش ہوں گی معین خان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ بابر اعظم میرے خیال میں ابھی اس قابل نہیں کہ وہ کپتانی کرسکیں اور خاص طور پر اس سیریز میں جس میں بڑے بڑے منجھے ہوئے کپتان بھی گھبراجاتے ہیں اس لئے ضرورت اس بات کی تھی کہ اس سیریز کیلئے سرفراز احمد کو ہی کپتان مقرر رکھا جاتا پی سی بی کا فیصلہ درست نہیں ہے اور اس سے اچھے نتائج بھی نہیں نکلیں گے اس کے باوجود ٹیم کی کامیابی کیلئے پر امید اور دعا گو ہیں اس حوالے سے عاقب جاوید کا کہنا ہے پاکستان کرکٹ بورڈ پتہ نہیں ایسے فیصلے کیوں کررہا ہے جس سے پاکستان کرکٹ ٹیم کو نقصان ہوسکتا ہے ایک اچھے کپتان کو عہدہ سے ہٹانے کی منطق سمجھ سے باہر ہے بہرحال یہ سیریز پاکستان کے لئے جیتنا کوئی آسان بات نہیں ہوگی سکندر بخت اور باسط علی اورمحمد وسیم نے بھی پاک آسٹریلیا جاری سیریز کو پاکستان کے لئے آسان قرار نہیں دیا اور ان کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں اگر پاکستان کی ٹیم آسٹریلیا کیخلاف کھیلے جانے والے تین ٹی ٹوٹنی میچز میں سے ایک میچ بھی جیت جاتی ہے تو یہ بڑی کامیابی ہوگی اس وقت پاکستان کی ٹی ٹونٹی ٹیم کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے اور جس طرح سے آسٹریلیا کی ٹیم کھیل پیش کررہی ہے وہ بھی اب دیکھنا یہ ہے کہ بابر اعظم کس طرح سے اس بھاری ذمہ داری کو پورا کرتے ہیں اور پوری قوم کی تو خواہش ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم اس سیریز میں کینگروزکو شکست دینے میں کامیاب ہو اسی طرح سے شائقین کرکٹ بھی سرفراز احمد کی تبدیلی کے بعد قومی ٹی ٹونٹی ٹیم سے زیادہ امیدیں وابستہ کئے ہوئے نہیں ہیں ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لئے اس سیریز میں جیت ایک معجزہ ہی ہوگا اور سرفرازر احمد کی کمی کو بہت زیادہ محسوس کیا جائے گا ان کی موجودگی سے پاکستان ٹیم کے لئے اس سیریز میں کامیابی حاصل کرنا آٰسان ہوتا جبکہ دوسری جانب پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیوآفیسروسیم خان کئی بڑے فیصلوں کے پیچھے مرکزی کردار ہیں۔لیکن ان کے فیصلے کس قدر درست ثابت ہوتے ہیں اور ان کا پاکستان کرکٹ کو کس قدر فائدہ ہوتا ہے اس کا پتہ وقت پر ہی چلے گا۔ وسیم خان کے فیصلے اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔سابق کپتان سرفرازاحمد کو 2016 میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بعد شاہد آفریدی کی جگہ ٹی ٹوئنٹی ٹیم کا کپتان بھی مقرر کر دیا گیا تھا۔سرفراز احمد کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے 2017 میں چیمپیئنز ٹرافی جیتی اور آئی سی سی کی ٹی ٹوئنٹی عالمی رینکنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کی، لیکن ٹیسٹ کرکٹ میں ان کی قیادت میں پاکستانی ٹیم کو سری لنکا، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں شکست سے دوچار ہونا پڑا اور وہ صرف آسٹریلیا کے خلاف سیریز جیتنے میں کامیاب ہوسکے۔پی سی بی کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ سرفراز احمد نے قومی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ٹورنامنٹ میں سندھ کی قیادت چھوڑ کر اپنے کیس کو کمزور کیا۔لیکن حقیقت یہی ہے کہ سرفراز احمد کو ایک ہفتہ پہلے ہی علم ہوچکا تھا کہ انہیں تبدیل کرنے پر احسان مانی،وسیم خان اور مصباح الحق میں اتفا ق رائے ہوچکا ہے۔نئی تبدیلیوں، حیران کن فیصلوں اور نت نئی قیاس ارائیوں میں پاکستانی کرکٹ ٹیم آسٹریلیا کے مشکل دورے پر پہنچ گئی ہے۔پاکستان ٹیم اب آسٹریلیا میں کیا کرتی ہے پی سی بی اس سال ڈومیسٹک کرکٹ کو پرکشش بنانے کے لئے ایک ارب روپے خرچ کئے ہیں لیکن جب تک ٹیم ہارتی رہے گی پی سی بی حکام تنقید کی زد میں رہیں گے۔گری ہوئی ٹیم کو اٹھانے کے لئے سخت لیکن درست اور غیر جانب دارانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔سپر مین سے بھی سپر کارکردگی کی ضرورت ہے لیکن کھوکھلے دعووں سے اب شائد کام نہیں چلے گا۔٭