مہنگائی کا ذمہ دار کون؟

مہنگائی کا ذمہ دار کون؟
مہنگائی کا ذمہ دار کون؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وزیر اعظم کی ہدایت کے باوجود مجھے ان کی کارکردگی پر بھروسہ نہیں تھا۔ اس لئے اپنا ذاتی بھلا جانتے ہوئے مَیں  اس مشن پر چل پڑا۔ گھر والوں نے مجھے سو روپے نقد دئیے اور کلو ڈیڑھ کلو بینگن اور اتنے ہی شلجم لانے کا کہا۔مَیں  نے پوچھا کہ مہنگائی کا دور ہے، سو روپے میں یہ چیزیں آ جائیں گی؟ جواب ملا یہ بھی کوئی سبزیاں ہیں۔ دس پندرہ روپے فی کلو مل جائیں گی۔میرے گھر سے تقریباً ایک جیسے فاصلے پر دونوں طرف دو منڈیاں ہیں۔ چکور شکل کی ان منڈیوں میں ارد گرد تین منزلہ بلڈنگز ہیں اور درمیان میں ایک بڑا چبوترا ہے، جس پر ساری خرید و فروخت ہوتی ہے۔مَیں  منڈی کے اس چبوترے کی تمام دکانوں پر گھوما۔ جس دکان پر بھی یہ دو سبزیاں نظر آئیں، اس سے پوچھا تو کوئی سو روپے کلو سے کم دینے کو تیار نہیں تھا۔ میرے گھر کے لوگ ان سبزیوں کو سبزیاں نہیں سمجھتے اور جنہیں سبزیاں سمجھتے ہیں ان کا احوال پوچھا تو کوئی بھی دو اڑھائی سو روپے کلو سے کم نہیں تھی۔سوچنے لگا کہ اب کیا کیا جائے؟ گھر میں جا کر جب اداس چہرے کے ساتھ اس قدر مہنگائی کا ذکر کیا تو بیگم اور پریشان ہو گئی۔ 


مَیں  منڈی میں سستی سبزی حاصل کرنے کی غرض سے بڑے غور و فکر میں مصروف تھاکہ یکایک یوں لگا کہ گوتم بدھ کی طرح مجھے بھی بدھی مل گئی ہے۔ یاد آیا کہ وزیر اعظم نے کہا تھا کہ وہ شروع دن سے کہتے آئے ہیں کہ مہنگائی کی وجہ ذخیرہ اندوزی ہے۔ لوگ اپنے گوداموں میں چیزیں چھپا لیتے ہیں، مارکیٹ میں نہیں بھیجتے، اس لئے مہنگائی ہو جاتی ہے۔ وزیر اعظم کے بارے میں پوری قوم کو یقین ہے کہ ایماندار اور سچے آدمی ہیں۔ بس ایک تولنا نہیں آتا، صرف بولنا آتا ہے، اس لئے کچھ بھی بول دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ذخیرہ اندوزی ہوتی ہے، تو یقیناً ہوتی ہے، مگر جہاں ہوتی ہے، وہ گودام بھی کہیں ہوں گے؟ سامنے منڈی کے اس چبوترے کے چاروں طرف جو بلند و بالا عمارتیں تھیں، وہاں سے اکا دکا مزدور کچھ بوریاں اٹھائے آ رہے تھے۔ مجھے یقین ہو گیا کہ یہی وہ گودام ہیں جن میں بینگن اور شلجم ذخیرہ کئے ہوئے ہیں،کیونکہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد مزدور ان بلڈنگوں میں سے بوریاں اٹھائے باہر آتے نظر آتے تھے۔


مَیں ایک منجھے ہوئے جاسوس کی طرح دائیں بائیں دیکھتا ایک بلڈنگ میں گھس گیا۔گراؤنڈ فلور پر پیاز کی چند بوریاں تھیں۔پہلی منزل پر دفتر تھا۔ ایک کھلا کمرہ تھا، جس میں منشی صاحب اور ان کے ارد گرد چند لوگ  بیٹھے تھے، مجھے دیکھ کر منشی صاحب نے پوچھا کہ فرمائیں۔ مَیں نے یکدم سوچا اور فوراً واش روم کا پوچھا کہ کہاں ہے؟ جواب ملا کہ سب سے اوپر والی منزل پر چلے جائیں۔مجھے ساری بلڈنگ دیکھنے کا سنہری موقع مل گیا۔مَیں  دوسری منزل سے گزرا تو زمین پر کچھ بستر لگے تھے۔ پتہ چلا کہ مہمان بیوپاری ہیں،جو دور دراز سے سبزیاں لے کر آتے ہیں یہ ان کے سونے کی جگہ ہے۔ تیسری منزل پر ایک گندے سے کمرے میں خالی بوریاں اور ٹوٹی پھوٹی چیزیں پڑی تھی۔ واش روم سے بدبو کے بھبھکے دور دور تک فضا کو معطر کئے ہوئے تھے۔ وہاں جانا بے ہوشی کو دعوت دینا تھا۔ مایوس واپس پلٹا تو گراؤنڈ فلور پر سیڑھیاں نیچے جاتی نظر آئیں۔ تھوڑا سا دورازہ کھلا تھا۔ یقیناً یہی ذخیرہ اندوزی کا گودام تھا۔ مَیں  نے دائیں بائیں دیکھا، ہر شخص اپنے حال میں مگن تھا۔ مَیں  سیڑھیوں سے نیچے اتر گیا۔ ہلکی سی روشنی میں دیکھا ہر طرف بوریاں ہی بوریاں تھیں۔ پیاز اور لہسن کی بدبو ہر طرف پھیلی تھی۔ چند لمحوں بعد مَیں گھپ اندھیرے میں گودام میں بینگن اور شلجم تلاش کرنے لگا۔کافی تلاش کے بعد ایک جگہ ایک بڑا سا بینگن پڑا محسوس ہوا۔ مَیں نے خوشی سے آگے بڑھ کر بینگن کو پکڑنا چاہا۔ یکدم بینگن نے جھٹکا دیا،آنکھیں مٹکائیں اور مجھے پوچھا کہ بتائیں کیا کام ہے؟ اف یہ تو کوئی کالا کلوٹا بینگن نما جیتا جاگتا انسان تھا جو ان بوریوں پر سو رہا تھا۔اس بینگن نما نے چھلانگ لگائی اور سیڑھیوں سے اوپر چلا گیا۔ 


مَیں اس کے پیچھے بھاگ کر اوپر آیا کہ کوئی مشکل پیش نہ آ جائے۔اوپر پہنچا تو ایک باریش بزرگ نے مجھے اپنے پاس بلا لیا اور پوچھا، بیٹاتم شکل و صورت سے معقول آدمی محسوس ہوتے ہو، چور نہیں ہو، مگر نیچے گودام میں تمہارا کیا کام؟ کیا کرتا ساری بات سچ بتا دی کہ گھر والے کہتے ہیں کہ سو روپے میں ڈیڑھ کلو بینگن اور ڈیڑھ کلو شلجم اور کچھ بقایا بھی لے کر آؤ،مگر منڈی میں وہ سو روپے کلو میں ملتے ہیں۔ وزیر اعظم کا فرمان ہے کہ یہ مہنگائی ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے ہے، اس لئے مَیں اس ذخیرے کی تلاش میں نیچے گیا تھا۔ بزرگ ہنسے اور کہنے لگے، میری چند باتیں سمجھ لو تو سب جان جاؤ گے۔ پہلی یہ کہ جس مزدور کو تم نے بینگن سمجھ کر جگایا ہے، وہ دس بارہ سال پہلے جب یہاں آیا تھا تو کسی شلجم کی طرح گورا چٹا تھا۔ دس بارہ سال اس گندے ماحول میں رہتے، سوتے، کھاتے، پیتے، اٹھتے، بیٹھتے اور بے پناہ مشقت کرتے اب اس کی شکل بینگن نہیں بھرتے والے بینگن جیسی ہو گئی ہے۔

کسی حکومت کو اگر گندی سیاست سے فرصت ملے تو شاید غریبوں کے بارے میں سوچے تو شلجم نما لوگ اپنے برے حالات کی وجہ سے بینگن نما نہ نظر آئیں۔ دوسری تازہ سبزیاں ذخیرہ نہیں ہوسکتیں۔ ان کی تو زندگی ہی دو تین دن ہوتی ہے۔ فقط پیاز، لہسن، ادرک اور آلو کچھ دن ذخیرہ ہوتے ہیں اور انہیں ذخیرہ کرنا ضرورت ہوتی ہے۔ تیسری بات ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہ دونوں کام اس وقت ہوتے ہیں، جب حکومتی لوگ خود اس میں شریک ہوتے ہیں یا پھر انتہائی درجے کے نا اہل ہوتے ہیں۔آٹا، چینی جیسی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی میں حکومت کے وزراء شامل نہ ہوں تو یہ کام نہیں ہو سکتا۔ وزیر اعظم کو جس دن یہ بات سمجھ آ گئی، دنیا بدل جائے گی، مگر جو حکومت بجلی، گیس، پٹرول اور ایسی دوسری ضروری چیزوں کی قیمتوں پر کنٹرول نہیں کر سکتی، بلکہ خود ان کی قیمتیں بڑھانے کی ذمہ دار ہو، اس کی نا اہلی میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہوتی۔

مزید :

رائے -کالم -