پی ڈی ایم کے پاس نیا کیا ہے؟

پی ڈی ایم کے پاس نیا کیا ہے؟
پی ڈی ایم کے پاس نیا کیا ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


دنیا ترقی کی منازل طے کر رہی ہے اور ہم  اپنا تکیہ کلام بھی نہیں بدل سکے، آج بھی ہمارے سیاستدانوں کے وہی مکالمے سننے کو ملتے ہیں۔ جو 80 اور 90 کی دہائیوں میں ہوتے تھے۔  ہماری جمہوریت اور ہمارے حالات 80 سے پہلے قدرے بہتر تھے، اس کے بعد بتدریج بدتر ہوتے رہے ہیں۔اس وقت ہمارے ملک اور عوام کو جو مسائل درپیش ہیں اور جو ملک کی معاشی صورت حال ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک کو مشکلات سے نکالیں، لیکن ہمارے سیاستدان ایک دوسرے پر اپنا غصہ نکال رہے ہیں۔ 


جو حکومت کی کارگزاری ہے وہ سب کے سامنے ہے،نیا پاکستان بھی سب نے دیکھ بھی لیا ہے اور اسے بھگت بھی رہے ہیں، لیکن 40 سالہ تجربہ کار سیاستدانوں پر مشتمل حزب اختلاف کا کردار کیا ہے؟ یہ سب مل کر چلے ہیں حکومت کو گرانے، سرکار یہ بھی تو بتاؤ نا کہ جس سرکار کو آپ گرانے نکلے ہیں، اس کے گرنے کے بعد کا نقشہ کیا ہوگا؟ آپ جس مہنگائی کا رونا رو رو کر اپنے دکھ ہلکے کر رہے ہیں،اس مہنگائی کے خاتمے کی بھی کوئی نوید سنائیں اور کوئی ترکیب بتائیں نا؟  آپ جس جمہوریت کو مضبوط کرنے اور ووٹ کو عزت دلانے کے بین کر رہے ہو اور آج 40 برس بعد یہ بتا رہے ہیں کہ اس ریاست کے اوپر بھی ریاستیں ہیں۔ اس جمہوریت کو مضبوط کرنے اور ووٹ کی عزت بحال کس طرح ہوگی؟  کیا آپ نے اپنی جماعتوں کے اندر جمہوریت مضبوط کر لی ہے؟ کیا آپ سب نے ملک کو درپیش بڑے مسائل پر آپس میں مکالمہ مکمل کر لیا ہے اور ان مسائل کا حل پیش کر دیا ہے؟ اس وقت جتنی جماعتیں پی ڈی ایم کے نام سے حکومت کے خلاف احتجاج کا حصہ ہیں، وہ تمام جماعتیں حکومتوں میں شامل رہی ہیں اور ان کی حکومتوں میں مہنگائی بھی بتدریج بڑھتی رہی ہے۔ بدعنوانی بھی اژدھا بن گئی تو اب ان کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی آ گئی ہے جس سے وہ سب ٹھیک کر لیں گے؟ 


پی ڈی ایم والے پہلے یہ فیصلہ تو کر لیتے کہ وہ حکومت کو گرانا چاہتے ہیں یا حکومت بنانے والوں کا بستر گول کرنے کے خواہشمند ہیں؟ ان کا اگر یہ کہنا ہے کہ ووٹ کی کوئی عزت نہیں، حکومت کہیں اور سے بنتی ہے تو جناب اس گنگا میں آپ سب نے کتنی کتنی بار ہاتھ دھوئے ہیں؟ کیا پہلے ان ہاتھوں کا تیمم کرنا پسند کریں گے؟ کیا آپ قوم کو یہ بتانا پسند کریں گے کہ ہم آپ کے ووٹوں کے ذریعے نہیں، بلکہ بڑی سرکار کے سہارے برسراقتدار آتے رہے ہیں  اور یہ بھی کہ ہم اب سے توبہ کرتے ہیں، قوم سے معافی مانگتے ہیں اور عوام کے ووٹوں پر اعتماد کرتے ہیں۔ ان کے ووٹوں کو عزت دیتے ہیں، اپنی جماعتوں کی قیادت بھی ووٹوں سے منتخب کرتے ہیں اور خاندانی قیادت کے سلسلے کو بند کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ ملکی مسائل کے حل کا مکمل اور قابل عمل حل پیش کرتے ہیں، موجودہ حکومت سے بھی بات چیت کرتے ہیں اور اس حکومت کو مدت پوری کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں، پھر فیصلہ عوام پر چھوڑتے ہیں کہ جس پر وہ اعتماد کریں، وہی اس ملک کا انتظام سنبھالے……اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کیوں عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ یہ جو بیانات اور واویلے آپ کر رہے ہیں یہ تو اسی سلسلے کی کڑی ہیں جو 1988ء میں شروع ہوا تھا۔ ایک دوسرے پر گھٹیا الزامات لگانے کا سلسلہ، ایک دوسرے کو طعنے دینے کا سلسلہ، ایک دوسرے پر ملک دشمن کارروائیوں کے الزامات کا سلسلہ، ایک دوسرے پر بھارتی ایجنٹ ہونے کے الزام کا سلسلہ، ملکی معیشت کو تباہ کرنے اور ملک کو دیوالیہ کرنے کے الزام کا سلسلہ!!


راقم نے کل وزیراعظم صاحب کو گلگت بلتستان میں اپنے سیکیورٹی اداروں کی تعریف کے پل باندھتے اور مسلم لیگ (ن) کو بھارت دوست ثابت کرتے سنا اور وزیراعلیٰ پنجاب کو یہ کہتے سنا کہ ہم اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سرکار سیکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہی ملکی حفاظت ہے اور آپ نے اداروں کے ساتھ نہیں، بلکہ اداروں نے آپ کے ساتھ کھڑے ہونا ہے اور آپ کو عوام نے منتخب کیا ہے تو آپ سب نے عوام کی بہتری کے لئے  کام کرنا ہے۔ اس کے لئے  ایک بہترین نظام بنانے کا سوچو…… اس وقت ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اداروں کی مخالفت اور حمایت کا کھیل شروع ہے اور دنیا ہمارا تماشہ دیکھ رہی ہے۔ یہ ملک عوام کا ہے، اس ملک کے ادارے بھی عوام کے ہیں اور آپ سب بھی عوام ہی کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں تو پھر کچھ عوام کا بھی سوچو۔

مزید :

رائے -کالم -