اپوزیشن کا جال، حکومت بے حال
مریم نواز نے ٹائیگر فورس کے مقابلے میں شیرجوان فورس بنا دی ہے، گویا مقابلہ ہر محاذ پر سخت ہے، شاید اسی مقابلے کی فضا کو پیش نظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اب جو وہ کرنے والے ہیں، اس کے بعد ٹانگیں کس کی کانپتی ہیں، جلد پتہ چل جائے گا۔ شاید یہ بات انہوں نے اپوزیشن رہنماؤں کی طرف سے مسلسل یہ بیان دینے کے بعد کہی ہے کہ اپوزیشن تحریک کی وجہ سے حکومت کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ کرکٹ کے ایک سابق کھلاڑی کے لئے اس سے بڑا طعنہ اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کی ٹانگیں کانپنے لگی ہیں، کیونکہ اس کا تو سارا انحصار ہی ٹانگوں کی مضبوطی پر ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست میں اب محاوروں کا استعمال کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔ اب ٹانگیں کانپنا بھی ایک محاورہ ہے، جس کا مطلب ہے خوف سے تھرتھر کانپنا۔ نجانے اپوزیشن نے یہ اندازہ کس بات سے لگایا ہے کہ اس کے تین جلسوں سے حکومت تھر تھر کانپنے لگی ہے، جبکہ عمران خان کی باڈی لینگوئج سے تو ابھی تک ایسا کوئی شائبہ نہیں ابھرا۔
البتہ یہ سوال ضرور بنتا ہے کہ اپوزیشن تو یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ حکومت کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں،مگر حکومت ایسا کیا کرے گی کہ اپوزیشن کی ٹانگیں کانپتی نظر آئیں گی۔ لگتا ہے وزیر اعظم اپنی وہی پرانی بات دہرا رہے ہیں کہ وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے، اسی خوف سے اپوزیشن والوں کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں، مگر وہ خود ایسا کیونکر کر سکتے ہیں۔ ان کے پاس ایسا کون سا اختیار ہے جس کے ساتھ وہ اپوزیشن کو نشانِ عبرت بنا سکیں، یہ کام تو ریاستی اداروں کا ہے کہ وہ کسی بھی شخص کے خلاف قانون شکنی پر اقدامات کریں، کیا عمران خان نیب کو چابی لگا دیں گے اور وہ احتساب کو اپوزیشن کے خلاف تیز کر دے گا تاکہ اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں؟ وزیر اعظم نے کچھ دن پہلے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر کہا تھا کہ اب سے کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ اب یہی عوامی انداز انہوں نے ٹانگیں کانپنے والا بیان دے کر اپنایا ہے۔ کیا حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مولا جٹ اور نوری نت والی لڑائی شروع ہو چکی ہے؟ کیا سیاسی قانون، قاعدے، روایات اور شائستگی کو تیاگ دیا گیا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ اپوزیشن وزیر اعظم کے ایسے دھمکی آمیز بیانات سے گھبرا کر گھر بیٹھ جائے؟ نہیں صاحب ایسا کبھی نہیں ہوا، نہ ہوگا، کیونکہ سیاسی تحریکیں ایسے بیانات سے جڑ پکڑتی ہیں، مضبوط ہوتی ہیں۔ یہ بیانات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ حاکمِ وقت اپوزیشن کے جال میں آ چکا ہے اور اس سے نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کو اس بات کا دکھ ہے کہ اپوزیشن نے انہیں ہدف بنانے کی بجائے ریاستی اداروں، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو ہدف بنایا ہوا ہے۔ سیاسی مخالفت کو ملک دشمنی کا رنگ دے دیا گیا، جو ایک گھٹیا حرکت ہے۔ یہ بات واقعی معیوب ہے کہ سیاسی اختلافات کی وجہ سے ایسا راستہ اختیار کیا جائے جو ملک و قوم کے مفاد میں نہ ہو…… لیکن اپوزیشن یہ کام اچانک نہیں کر رہی، جب سے موجودہ حکومت قائم ہوئی ہے، پہلے دن سے سلیکٹڈ وزیر اعظم کی گردان جاری ہے، پھر یہ بھی کہا جانے لگا کہ سلیکٹروں کو اپنا ہاتھ اٹھا لینا چاہئے وگرنہ ملک کی تباہی کا الزام ان پر آئے گا۔ جب اس سے بھی بات نہ بنی تو سابق وزیر اعظم نوازشریف میدان میں آئے اور انہوں نے گوجرانوالہ کے جلسے سے ویڈیو لنک خطاب میں نام لے کر تمام ذمہ داروں پر تنقید کی اور یہ تک کہہ دیا کہ سلیکٹڈ ہمارا مسئلہ نہیں، ہمارا مسئلہ تو وہ قوتیں ہیں جو ایسے نا اہلوں کو سلیکٹ کرتی ہیں، بات ہے کہ آگے ہی بڑھتی چلی جا رہی ہے اور ایسی حدوں کو چھونے لگی ہے جہاں قومی مفاد کے پر جلنے لگتے ہیں۔
ہمارا تو پیارے کپتان کے لئے ایک بار پھر مشورہ یہی ہے کہ وہ اپوزیشن کے جال میں نہ آئیں،ساری توجہ اپنی حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے پر صرف کریں۔ اس وقت اپوزیشن دہری چال چل رہی ہے۔ ایک طرف وہ چاہتی ہے کہ حکومت کو سیاسی تحریک میں الجھا کر اس کی رہی سہی کارکردگی کو بھی صفر بنا دے اور دوسری طرف اپنے بیانیہ میں فوجی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنا کر اسے مجبور کرنا چاہتی ہے کہ وہ حکومت کی حمایت ترک کر دے، ایسے میں اگر وزیر اعظم عمران خان اپنے جوشیلے اور بے تدبیر وزراء اور مشیروں کے کہنے پر اپنی توپوں کا رخ اپوزیشن کی طرف کر دیتے ہیں اور ایسی بڑھک بھی مارتے ہیں جو وزیر اعظم کے شایانِ شان نہیں تو گویا وہ بلا وجہ ایک ایسی تحریک کو اپنے خلاف منظم کر رہے ہیں، جو فی الوقت انتشار اور بے یقینی کا شکار ہے۔ اپوزیشن کے خلاف ملک دشمنی، غداری اور بھارت نوازی کے الزامات کی بات پرانی ہو چکی ہے، کیونکہ یہ پچھلی کئی دہائیوں سے جوں کی توں استعمال ہو رہی ہے۔ ہر حکومت نے ایسے الزامات اپنی اپوزیشن پر لگائے ہیں، مگر ثابت آج تک ایک بھی نہیں ہو سکا۔ حکومت نے اپوزیشن کے الزامات کا جواب بھی اگر دینا ہے تو مدلل انداز میں دے، صرف غداری اور ملک دشمنی کا ڈھنڈورا پیٹنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ یہ بات پلے باندھنے والی ہے کہ کسی بھی دور کی اپوزیشن کے لئے حکومت کو تنگ کرنا مشکل نہیں ہوتا، اصل کام یہ ہے کہ حکومت پریشان نہ ہو اس کے وزراء ایسے بو کھلائے ہوئے نہ ہوں، جیسے موجودہ وزراء ہیں، یہاں تو خود وزیر اعظم عمران خان اپوزیشن کو نظر انداز نہیں کر پا رہے، ایسے حالات کو دیکھتے ہوئے اگر اپوزیشن ٹانگیں کانپنے کا محاورہ حکومت کے لئے استعمال کر رہی ہے تو حیرانی والی کوئی بات نہیں۔