جامعات میں فنی تعلیم کی ضرورت!
ہم آئے دن یہ بات سنتے ہیں کہ پاکستان میں سوا دو کروڑ سے زائد بچے سکول سے باہر ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جانہ ہو گا کہ یہ بچے سکول سے نہیں بلکہ معاشرتی زندگی اور قومی دھارے سے باہر ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک نے شرح خواندگی بڑھانے کے لئے کئی اقدامات کئے ہیں۔ کہیں بچوں کوسکالر شپ دیا گیا۔ کہیں ان کو مفت کتابیں اور یونیفارم دیا گیا۔ تو کہیں دوران تعلیم سکول کے اندران کو مفت کھانا بہم پہنچایا گیا۔
پاکستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی شرح بھی حوصلہ افزا نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بھی غربت ہے۔اگرچہ سرکاری سطح پر ہر ضلع میں یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ جس سے اعلیٰ تعلیم کی رسد اور رسائی کا دائرہ بڑھ گیا ہے۔ تاہم نوجوان طلبہ و طالبات کی ایک بڑی تعداد جامعات کا رخ اس لیے نہیں کر پاتی کہ وہ پڑھائی، آمدورفت اور بعض صورتوں میں قیام و طعام کے اخراجات پورے نہیں کر سکتے۔اس بات کا ذاتی طور پر مجھے اس وقت تجربہ ہوا جب میرے پاس پہلے سے داخل شدہ طلبہ و طالبات فیس میں رعایت کے لئے آئے اور بطور سربراہ شعبہ علم التعلیم مجھ سے اپنے ذاتی حالات و واقعات بیان کئے، جس سے میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ سکول، کالج اور جامعات میں طلبہ اپنے اخراجا ت کیسے پورے کر سکتے ہیں اور کس طرح ان کو مالی طور پر خود مختار کیا جا سکتا ہے۔یقین جانئے یہ کام مشکل ہرگز نہیں۔گزشتہ دنوں ایک تقریب میں انعامات کے طور پر کچھ سرٹیفکیٹ اورشیلڈ درکار تھیں۔ اس کے لئے میں اوکاڑہ شہر میں گھومتا رہا۔ با لآخر آدھے گھنٹے کے بعد میں فلیکس،شیلڈ اور سرٹیفیکیٹ بنانے والی ایک دکان پر پہنچا۔میں نے تین شیلڈزکا آرڈر دیا اور ادائیگی کی۔ وہاں پر موجود مختلف لوگ اپنے شعبہ کے ماہر تھے اور ہر کوئی اپنے کام میں ہمہ تن مصروف تھا۔اس سے مجھے خیال آیا کہ میرے وہ طلبا و طالبات جو میرے پاس فیس کی رعایت یا معافی کے لئے آتے ہیں وہ یہ کام کیوں نہیں کر سکتے اور اپنی ضروریات پوری کر کے مالی طور پر خود مختار کیوں نہیں ہو سکتے۔
اس کے بعد میرے ذہن میں کئی خیالات آئے کہ کیا یونیورسٹی ووکیشنل ٹریننگ کا کوئی شعبہ اپنی حدود میں قائم کر سکتی ہے،جہاں صبح، شام طلبا اپنی کلاسز سے فارغ ہو کر اپنے ہی ادارے میں رہتے ہوئے پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرکے ما لی طور پر خود مختار ہو سکیں۔ اسی اثناء میں میری نظر چئیرمین ٹیوٹا علی سلمان صدیقی صاحب پر پڑی جو بڑے زیرک،متحرک اور اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک انسان ہیں اور جن کی قیادت میں اس ادارے نے بڑی تیزی سے ترقی کی اور انہوں نے ملک میں فنی،پیشہ ورانہ اور اپرنٹس شپ کی تعلیم کو عام کیا اور اس ادارے کی از سرِ نو تنظیم سازی کی۔علی سلمان صدیقی صاحب سے میری گزارش ہے کہ فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کو غریب طلبہ و طالبات کی ”دہلیز“ پر پہنچانے کے لئے اورفنی وپیشہ ورانہ تعلیم کو عام تعلیم سے مربوط کرنے کے لئے سکول، کالج اور یونیورسٹی کی حدود میں اپنے ادارے قائم کریں یا فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کا محض ایک شعبہ قائم کر دیں، جس میں دو ماہ سے لے کر بارہ ماہ کے دورانیہ کے مختلف سرٹیفکیٹس اور ڈپلومہ کورسز کروائے جائیں۔یہ کیوں ضروری ہے؟ اس کی بنیادی وجہ اور مختصر پس منظر تو میں نے بیان کر دیا ہے۔ مزید یہ ہے کہ ابھی بھی عوام الناس میں فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کے مواقع کے بارے میں کماحقہ شناسائی اور واقفیت نہیں ہے۔یونیورسٹی،کالج اور سکول میں ٹیوٹا کی طرزپرانتظام اس طرح کے فنی اور پیشہ ورانہ شعبہ کے قیام سے اساتذہ، والدین اور طلبہ و طالبات میں فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کی اہمیت اور ضروریات کا احساس بڑھے گا اور اس سے وہ عملی طور پر فائدہ اٹھا سکیں گے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ طلبہ و طالبات کو اپنے ہی ادارے کی حدود میں رہتے ہوئے فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کے مواقع حاصل ہوں گے اور ان حوصلہ افزائی ہو گی۔ مزید یہ کہ فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کے کسی دوسرے ادارے میں جانے کے لئے ان کے اخراجات ختم ہو جائیں گے اور آمدورفت میں وقت بھی ضائع نہیں ہو گا۔ اس سلسلے میں قائم ہونیوالا فنی و پیشہ ورانہ تعلیم کا شعبہ صبح اور شام کی شفٹ میں کلاسز کا اجرا ء کر سکتا ہے۔ خاص طور پر جامعات میں صبح کے وقت کلاسز پڑھنے والے طلبا و طالبات شام کے وقت اسی جگہ فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کر سکیں گے اور اس کے برعکس شام کی کلاسز میں داخل شدہ طلبا صبح کے وقت فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کر کے روزگار کے قابل ہو سکیں گے۔اس منصوبے کے تحت تمام تدریسی، نصابی اور انتظامی امور ٹیوٹا کی زیرِ نگرانی عمل میں لا سکتے ہیں، جبکہ یونیورسٹی،کالج یا سکول انفرا سٹرکچر جیسے کلاس روم، آفس، لیبارٹری وغیرہ مہیا کر سکتے ہیں، اور یوں ایک چھوٹے سے قابل ِ عمل منصوبے کے تحت ہم اپنی نوجوان نسل کو مالی طور پر خود مختار بنا کر ایک باعزت اور مفید شہری بنا سکتے ہیں،جو غربت کے چکر سے نکل کر نہ صرف اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں بلکہ اپنے خاندانوں کی کفالت بھی کر سکتے ہیں۔
ابتدائی طور پر ٹیوٹا ایک پائلٹ پراجیکٹ کا آغاز یو یونیورسٹی آف اوکاڑہ سے کر سکتا ہے،جہاں راقم الحروف شعبہ علم التعلیم اور شعبہ بیرونی روابط کے سربراہ کے طور پر کا م کر رہا ہے۔فنی اور پیشی ورانہ تعلیم کو عام تعلیم سے مربوط کرنے کے اس منصوبے کو بعد ازاں دیگر تعلیمی اداروں تک بڑھایا جا سکتا ہے۔اس منصوبے کے اور بھی کئی پہلو ہیں۔ جیسے ان شہروں میں پہلے سے قائم ٹیوٹا کے ادارے متوازی طور پر کیسے کام کریں گے۔ ایک اہم پہلے سے قائم ٹیوٹا کے ادارے متوازی طور پر کیسے کام کریں گے۔ایک اہم سوال ہے تاہم ان جیسے کئی اور سوالات پر کا م کیا جا سکتا ہے۔علی سلمان صدیقی صاحب سے گزارش ہے کہ عام تعلیمی اداروں اور ٹیوٹا کی درمیان اس تعلیمی اشتراک کو عملی جامعہ پہنانے کیلئے اقدامات کریں۔ راقم الحروف کو خوشی ہو گی اگر وہ اس عمل میں اپنا کوئی کردار ادا کر سکے۔