بار کے بغیر انصاف کی فراہمی نامکمل، ہڑتالوں کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی: چیف جسٹس
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر)چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد سے پنجاب بار کونسل کے وفد کی ملاقات۔تفصیلات کے مطابق وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل فرحان شہزاد کی سربراہی میں وفد نے چیف جسٹس گلزار احمد سے ملاقات کی۔ چیف جسٹس نے وفد کو خوش آمدید کہا۔ دوران ملاقات وفد سے گفتگو کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ انصاف کی فراہمی کا مشکل کام عدلیہ کے سپرد ہے جو بار کے تعاون کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا،انصاف کی فراہمی کیلئے بینچ اور بار دونوں کا کردار بہت اہم ہے،انصاف کی فراہمی کیلئے بینچ اور بار دونوں کو سخت محنت کرنی چاہیے تاکہ متاثرہ فریقین کو فوری انصاف مل سکے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ایک ہی نظام کا حصہ ہونے کے ناطے بینچ اور بارکا گہرا رشتہ ہے، اس لیے جب بھی مدعو کیا جاتا ہے میں بار ایسوسی ایشنز کا دورہ کرتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا بار ایسوسی ایشنز کی طرف سے چھوٹے موٹے معاملات پر ہڑتالوں کے رجحان سے مقدمات کی سماعت ملتوی ہو جاتی ہے،اس سے نہ صرف عدالتی کاروائی متاثر ہوتی ہے بلکہ فریقین کی مایوسی میں بھی اضافہ ہوتا ہے جس سے عدلیہ کے ادارے کی بدنامی ہوتی ہے، پیشے، ادارے کی عزت و وقار اور تقدس کو برقرار رکھنے کے لیے ایسے طرز عمل کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے۔ پنجاب بار کو نسل کے ممبران نے چیف جسٹس گلزار احمد کو بتایا کہ پنجاب میں ہڑتالوں میں 95 فیصد تک کمی آئی ہے ۔ وفد نے فوجداری نظام انصاف میں ناقص تفتیش کا معاملہ بھی اٹھایا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا وفد کو بتایا کہ پولیس ریفارمز کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں اس معاملے پر بات کی جائے گی۔ وفد نے احاطہ عدالت میں سیکورٹی انتظامات نا کافی ہونے کا معاملہ بھی اٹھایا۔ وفد نے چیف کو بتایا کہ پنجاب بار کونسل نے ایک ریگولیٹری باڈی ہونے کے ناطے اندرونی احتسابی نظام کو بڑھایا ہے اور وکلاء کے مس کنڈکٹ کیخلاف تادیبی کارروائی شروع کی لیکن ایسی اپیلیں تاحال ڈسپلنری ٹربیونلز کے پاس ہیں جو ابھی موثر طریقے سے کام نہیں کر رہے۔ جس پرچیف جسٹس نے وفد کو یقین دلایا کہ اس معاملے کو متعلقہ حلقوں کے سامنے اٹھایا جائے گا۔ وفد نے ملاقات کیلئے وقت دینے پر چیف جسٹس گلزار احمد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے احترام اور جذبہ خیر سگالی کی علامت کے طور پر انہیں سووینئر بھی پیش کیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے وفد کا شکریہ ادا کیا۔
پنجاب بار وفد
اسلام آبا(سٹاف رپورٹر) چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ حالت یہ ہے کہ اب ہم گٹر بھی نہیں بنا سکتے، پتہ نہیں ملک کو کس جگہ پہنچا دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فاضل بینچ نے سرکاری اراضی پر قائم پیٹرول پمپس کی لیز سے متعلق کیس پر سماعت کی، دوران سماعت چیف جسٹس نے کمشنر فیصل آباد پر اظہار برہمی کیا۔ چیف جسٹس نے کمشنر فیصل آباد کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ تجاوزات کے حوالے سے آپ نے کیا کام کیا، آپ تو ماسٹر پلان تک نہیں جمع کرا سکے، آپ نے دس تصویریں بھیج دی ہیں، ساری زندگی آپ ٹائم ہی لیتے رہے ہیں، آپ نقشہ تک تو بنا نہیں سکے، چار سال سے آپ ماسٹر پلان تک نہیں دے سکے، آپ سے کیا امید کی جا سکتی ہے، اب تو گوگل سے ایک منٹ میں سب مل جاتا ہے، ڈرون تصاویر سے ایک ایک مکان کا پتہ چل جاتا ہے۔ ڈی جی فیصل آباد ڈویلپمینٹ اتھارٹی سے مکالمے کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ ڈی جی ایف ڈی اے ہیں، آپ کو اپنے کام کا پتہ ہے؟ آپ کے ذہن میں کچھ ہے کہ کیا کرنا ہے؟ حالت یہ ہے کہ اب ہم گٹر بھی نہیں بنا سکتے، اب گٹر لائن بھی ہمیں جائیکا بنا کر دے گا، پتہ نہیں ملک کو کس جگہ پہنچا دیا گیا ہے، ہمارے ٹاون پلانر ملک چھوڑ کر ٹورنٹو اور یورپ جا چکے، جس کا جیسے دل کرتا ہے ویسے تعمیرات کررہا ہے۔دوسری جانب سپریم کورٹ نے خواتین میں بریسٹ کینسر کے بڑھتے کیسز کا نوٹس لیتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو تمام اسپتالوں میں بریسٹ کینسر کے علاج اور ٹیسٹ کی سہولت فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ میں دل کے مریضوں کیلئے سٹنٹس پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ خواتین معاشرے کا 50فیصد حصہ ہیں، چھاتی کا کینسر خواتین کو بہت تیزی سے متاثر کر رہا ہے، ملک کے کسی سرکاری اسپتال میں میموگرافی اور بریسٹ کینسر کے علاج کی سہولت نہیں، خواتین کی اکثریت نجی اسپتالوں سے مہنگا علاج کرانے کی سقت نہیں رکھتی، صرف صاحب حیثیت خواتین ہی مہنگا علاج کروا پاتی ہیں۔عدالت عظمی نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو تمام اسپتالوں میں بریسٹ کینسر کے علاج اور ٹیسٹ کی سہولت فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ سرکاری اسپتالوں میں علاج کے لئے خواتین کے پردے کا انتظام بھی یقینی بنایا جائے، اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ سرکاری اسپتالوں میں ماہرین پر مشتمل عملے میں خواتین بھی شامل ہوں۔
چیف جسٹس