طرابلس کی جنگ شروع ہوئی تو ترکی کی حمایت میں پنجاب میں جلسے شروع ہوگئے

طرابلس کی جنگ شروع ہوئی تو ترکی کی حمایت میں پنجاب میں جلسے شروع ہوگئے
طرابلس کی جنگ شروع ہوئی تو ترکی کی حمایت میں پنجاب میں جلسے شروع ہوگئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف: پروفیسر عزیز الدین احمد
قسط:92
طالب علم کی ہجرت، بنائی کمیونسٹ پارٹی:
5 فروری1915ءکو لاہور کے 15مسلمان طالب علموں نے اپنا ملک چھوڑ کے ترکوں کی مدد کے لیے ترکی جانے کا فیصلہ کیا جو اس وقت برطانیہ کے ساتھ نبرد آزما تھا۔ یہ نوجوان جہاد کے شوق سے سرشار ہو کر لاہور سے کابل پہنچے جہاں 4 سال تک نظر بند رہے۔ ان میں سے کچھ ترکی جاتے ہوئے راستے میں تاشقند رک گئے۔ یہاں انہوں نے 1920ءمیں ہندوستان کی پہلی کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی۔ ایک طالب علم دوران سفر بیمار ہوگیا اور افغانستان میں مناسب علاج معالجہ نہ ہونے کی وجہ سے فوت ہوگیا۔ ایک آزاد علاقے میں مولویوں کے ہاتھوں قتل ہوا، تیسرا وطن واپس آنے کے بعد انگریز کی جیل میں راہی ملک عدم ہوگیا۔ ان میں سے ایک نے جو بہت سی مشکلات اور تکالیف کا سامنا کرتا ہوا ترکی پہنچا ترک توپ خانے کی ملازمت اختیار کی اور کپتان کے عہدے پر پہنچ کر ریٹائر ہوا۔ اس نے جس طرح ساری جوانی ترکی میں گزار دی تھی بڑھاپا بھی وہیں گزارنے کا فیصلہ کیا۔
 لاہور کے ان طالب علموں کی مثال پر بعد میں کئی اور نوجوانوں نے عمل کیا۔1920ءمیں جب علماءنے ہجرت کا اعلان کیا تو اور بھی بہت سے ہندوستانی اور پنجابی لڑکے کابل کے راستے ترکی جانے کی خواہش لیے چل دیئے۔ ان میں سے بھی کچھ تاشقند رہ گئے، چند ایک ترکی پہنچے اور کچھ مایوس ہو کر ہندوستان لوٹ آئے اور قید کر دیئے گئے، کچھ راستے میں مرکھپ گئے۔
 بیسویں صدی کی ابتدا ءمیں جب ترکی کی سلطنت کے حصے بخرے ہونے لگے تو پنجابی مسلمانوں کو بہت صدمہ ہوا۔ طرابلس کی جنگ شروع ہوئی تو ترکی کی حمایت میں پنجاب میں جلسے شروع ہوگئے۔1912ءمیں بلقان کی جنگ کے دوران زخمیوں کی مدد کے لیے پنجاب کے عوام نے بہت سا چندہ اکٹھا کیا اور ترکی بھیجا۔
 صدی کے شروع میں یورپی ملکوں نے جب ترکی کے خلاف محاذ قائم کیا تو بہت سے مسلمانوں میں ترکوں کی محبت اور برطانوی سامراج کی مخالفت کے جذبات اکٹھے ہوگئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے رسالے ”الہلال“ اور”البلاغ“ اور مولانا محمد علی جوہر کے ”کامریڈ“ نے ترکوں کی حمایت میں جو مہم چلائی اس کے اثرات دور دور تک پہنچے۔ کئی لوگوںمیں یہ خیال پیدا ہوا کہ افغانستان سے مدد حاصل کر کے ایک طرف ترکوں کی حمایت کی جائے اور دوسری جانب بر صغیر پر برطانوی حکومت کا خاتمہ بھی کیا جائے۔یہ محض جذباتی منصوبے تھے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ افغانستان غریب اور پسماندہ ملک تھا خزانہ خالی، فوج خود سر اور جنگ کی جدید ٹریننگ سے ناواقف تھی۔ اسلحہ اور دیگر جنگی سازو سامان پرانا اور ناقابل استعمال تھا۔ افغان دفاعی جنگ تو لڑ سکتے تھے پر ان میں انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کی طاقت نہیں تھی۔ افغانستان کی ان کمزوریوں کا جذباتی پنجابیوں کو ادراک نہیں تھا۔
1914ءمیں ترکی کے سلطان نے جب انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تو پنجابی مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں میں بڑا جوش پیدا ہوا۔ بہت سے لوگوں میں کچھ کرنے کی خواہش پیدا ہوئی لیکن کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ کیا کیا جائے۔ کچھ طالب علموں نے گورنمنٹ کالج لاہور کو آگ لگانے کی کوشش کی جو ناکام ہوگئی۔
 صوبہ سرحد کے قبائلی علاقے چمرکنڈ میں انیسویں صدی میں سید احمد شہید بریلوی کے ہمراہ آنے والے مجاہدین کی اگلی نسلی کے کئی افراد پناہ لیے ہوئے تھے۔ لگ بھگ سو آدمیوں کا یہ جتھہ حقیقی دنیا سے کٹ کر خوابوں کی دنیا میں بستا تھا وہ علی الصبح بیدار ہو کر تلوار سے جنگ لڑنے کی مشق کیا کرتے تھے۔ ان کا ایک نمائندہ مولوی فضل الٰہی وزیر آباد کا باشندہ تھا۔ اس نے بھی ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر دارا لسلام یعنی مسلمان ملکوں کو ہجرت کرنے کا اعلان کر دیا اور پنجاب کے مسلمان طلباءکے ساتھ اس مقصد کے لیے رابطہ قائم کیا۔( جاری ہے ) 
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔

مزید :

قومی -