امریکی صدارتی انتخاب اور ہم!

Nov 03, 2024

چوہدری خادم حسین

امریکہ میں صدارتی انتخابات کا عمل جاری اور کئی ریاستوں میں قبل از تاریخ رائے دہندگان کا عمل بھی جاری ہے، امریکہ اس وقت واحد سپرپاور کے طور پر دنیا کے نقشے پر موجود ہے اس لئے دنیا بھر میں بھی دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے۔ ہر ملک اپنے مفاد کے مطابق خواہش مند ہے کہ دونوں میں سے کون جیتے، جس سے ان کو فائدہ ہو، ہم مسلمانوں کو کسی ایک بھی امیدوار سے نیک توقع رکھنے کی ضرورت نہیں ہے اگرچہ ہمارے ہی ”بہادر“ راہنما امریکہ میں ٹرمپ کے لئے کام کررہے اور ان سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں، ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ ٹرمپ ہوں یاکملا ہیرس، مسلمانوں کو کسی سے خیر کی توقع رکھنا دیوانے کا خواب ہے ان حضرات کو کم از کم انتخابی مہم کے دوران ہر دو امیدواروں کی ترجیح دیکھ لینا چاہیے، ان کو دنیا میں کسی سے کوئی غرض نہیں کملا ہیرس اور ٹرمپ دونوں ہی صیہونیوں کی ہمدردیوں اور تعاون کے لئے مرے جا رہے ہیں اور ایک د وسرے سے بڑھ   چڑھ کر اسرائیل کی حمایت کررہے، اس وقت ڈیمو کریٹ حکمران ہیں اور اس حکومت کے وزیردفاع نے ایک بار  پھر اسرائیل کے حق دفاع کے نام پر تازہ ترین اسلحہ کی کھیپ دینے کا اعلان کیا ہے، اسی حکومت کے وزیرخارجہ ٹونی بلنکن مارے مارے پھر رہے ہیں۔ بظاہر اسرائیل اور مجاہدین کی صلح اور جنگ بندی کی بات کرتے ہیں، لیکن جب متعلقہ اسلامی ممالک جاتے  ہیں تو جا کر ان سے کہتے ہیں کہ وہ حماس اور حزب اللہ پر اثر انداز ہوں جبکہ امریکی حکومت سربہ سر اسرائیل کا تحفظ کرتی چلی آ رہی ہے اور اس کے لئے ان فلسطینیوں اور لبنانیوں کو مورد الزام ٹھہراتی ہے جو اسرائیل اور امریکہ کی مشترکہ جنگی قوت کا شکار ہیں، حالانکہ پوری دنیا میں عوامی سطح پر اسرائیل کی مذمت اور جنگ بندی کا مطالبہ ہو رہا ہے، خود امریکی عوام بھی مظاہرے کر رہے ہیں، لیکن ہم ہیں کہ اسی امریکی انتظامیہ سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے ملک کے اندرونی معاملات میں دخل دے اور ہمیں جیل سے تخت شاہی پر پہنچا دے، ان حضرات سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ یہ فلسطینیوں کی نسل کشی کی مذمت کر دیں۔ کل تک یہ حضرات امریکہ کی مذمت کرتے اور امریکہ کو حکومت گرانے کاملزم گردانتے تھے اور آج یہ لوگ لابنگ کرکے امریکی کانگرس کے اراکین سے خط لکھوا کر، اپنے ملک کے اندر مداخلت کا مطالبہ کراتے ہیں۔

یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اوائل ہی سے اپنی خارجہ پالیسی کا رخ ایک اسلامی (یا مسلمان کہہ لیں) ملک کے طور پر اپنا مکمل تشخص نہ بنا پائے اور اول وزیراعظم ہی نے سوویت یونین کی دعوت کو درخور اعتنا نہ جانا اور امریکہ تشریف لے گئے، اس کے بعد تو ہم مغرب کے ساتھ دفاعی معاہدوں میں بھی بندھ گئے، آنے والے ادوار میں بھی یہ نہ ہوسکا کہ ہم امریکہ کے ساتھ ساتھ سوویت یونین کے ساتھ بھی اپنے تعلقات استوار کرلیتے، حتیٰ کہ پاکستان میں سرخ ہے، سرخ ہے، ایشیاء سرخ ہے، سبز، سبز ہے، ایشیا سبز ہے کے نعروں کا مقابلہ ہونے لگا اور سرد جنگ میں بھی ہم نے امریکہ ہی کا ساتھ دیا اور پھر وہ وقت آیا، جب سوویت یونین نے افغانستان میں مداخلت کی تو ہمارا جذبہ جہاد بلند ہو گیا، ہم نے امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان کو ”آزاد“ کرالیا اور ابھی تک اس ”آزادی“ کو دہشت گردی کے ذریعے بھگت رہے ہیں جبکہ اس ”بہادری“ کا صلہ لینے والے انجام کو تو پہنچ گئے لیکن آنے والی نسلوں کو سنوار گئے اور ہم بے نامی امریکی غلامی کا شکار ہو گئے حتیٰ کہ ہماری حالت یہ ہے کہ اس پورے تعاون کے عوض ایران سے کئے جانے والے گیس لائن معاہدے کی تکمیل بھی نہ کرا سکے اور امریکی پابندیوں کے باعث بروقت اپنے حصے کا کام مکمل نہ کر سکے۔ اب حالات یہ ہیں کہ ایران نے عالمی مصالحتی عدالت سے رجوع کر لیا اور ہم اپنے دفاع کے لئے غیر ملکی قانونی کمپنیوں کی معاونت حاصل کررہے ہیں تاکہ وہ بھاری رقم بچا سکیں جو معاہدے کی خلاف ورزی کے باعث ایران طلب کررہا ہے۔ اس کو بچانے کے لئے ہم بھاری بھرکم معاوضہ ادا کریں گے اور یہ زرمبادلہ میں ہوگا، ہم تو اتنا بھی نہ کر سکے کہ امریکی انتظامیہ کو قائل کریں کہ یہ عوامی مفاد کا منصوبہ ہے اور اس کی تکمیل سے ہم بھاری زرمبادلہ بچا کر عوام کو گیس کے ساتھ بجلی بھی کم نرخوں پر دے سکیں گے اسی سے اندازہ کرلیں کہ امریکہ کو ہم عوام سے کتنی ”محبت“ ہے جس کے درد میں امریکی صدر کی یادداشت متاثر ہو گئی اور اب ان کو صرف یہ یاد ہے کہ ایران کو اسرائیل کے خلاف کارروائی سے روکنا ہے اور اس کے لئے نئی پابندیاں بھی لگائی جائیں۔

معذرت سے گزارش ہے کہ ہم جو ایٹمی طاقت ہیں اور اس کی حفاظت پر مامور ہیں۔ مقصد اپنا دفاع ہے۔ امریکہ کو یہی پروگرام ایک آنکھ نہیں بھاتا، اسے ہم یا ہمارے ملک سے کوئی ہمدردی نہیں،اسے تو اپنا اور اسرائیل کا مفاد عزیز ہے، جبکہ ہمارے سمیت عالم اسلام مسلمانوں کی بربادی کو چپ سادھے دیکھنے پر مجبور ہے جبکہ اسرائیلی جارحیت کی بناء پر اس کی اقوام متحدہ کی رکنیت معطل کرائی جا سکتی ہے لیکن ہم عالم اسلام والے ”مذمت“ سے آگے نہیں بڑھ پا رہے، حالانکہ حضور اکرمؐ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے۔ہم تو اس آگاہی کو بھی نظر انداز کر رہے ہیں جو ہمیں 15سو سال پہلے دی گئی تھی، آج جو حالات درپیش ہیں یا خراب ہوتے جا رہے ہیں تو ہم سب کلمہ پڑھنے والوں کو پندرہ صدیوں پہلے ہی بتا دیا گیا تھا، ہم نے اس انتباہ کو کتابوں اور صحیفوں میں رہنے دیا اور خود  بھی بے عملی کی زندگی گزار رہے ہیں، حتیٰ کہ یہاں تو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں بھی ہوئیں اور اب وہی حضرات امریکی امیدوار ٹرمپ سے آس لگائے بیٹھے ہیں ”ساڈا ٹرمپ آوے گا تاں جیلوں بار کڈاوے گا“ اسی طرح لابنگ کررہے اور اپنوں کو گالیاں دے رہے ہیں۔

ایک بار پھر یہ گذارش بے معنی نہ ہو گی اللہ کے بندو اللہ ہی کا نام لو اپنے اعمال سدھارو،جو آگاہی دی گئی تھی اسے پیش نظر رکھو اور خود کو راہ راست پر لا کر عاقبت سمیت دنیا سنوار لو،اللہ اور رسول اکرمؐ نے جو بتایا سچ ہے اور ثابت ہو گیا ہے،بھائی بھائی بن جاؤ بیٹھ کر بات چیت سے معاملات حل کرو،محاذ آرائی ترک کر دو،ملکی ترقی کے لئے مل کر کام کرو،غیر نہیں اپنے ہی کام آتے ہیں۔

مزیدخبریں