مغرب میں توہینِ رسالت:اسباب و اثرات (1)
ظلم ، ناانصافی اور توہین کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا انسانی فطرت کا تقاضا ہے اور یہی احتجاج شدت پکڑ لیتا ہے جب اس کا تعلق گہرے قلبی اور روحانی تعلق سے ہو۔ حالیہ چند برسوں میں ڈنمارک کے اخبار میں نبی اکرم ﷺکے بارے میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت ہو یا فیس بک اور دیگر ویب سائٹس پر کارٹون مقابلوں کا اعلان ، عراق اور گوانتاناموبے میں قرآن پاک کی بے حرمتی ہو یا امریکی پادری ٹیری جونز کی جانب سے قرآن پاک جلائے جانے کا واقعہ ، نبی محترم ﷺ کی ذات اقدس پر کوئی حملہ ہو تو اس کے خلاف مسلم امہ سراپا احتجاج بن جاتی ہے اور اب امریکہ کے ایک یہودی کی بنائی گئی توہین آمیز فلم کے انٹر نیٹ پر جاری ہونے پر ایک مرتبہ پھر دنیا بھر میں شدید احتجاجی مظاہرے اور جلسے جلوس منعقد کیے جا رہے ہیں ۔ لیبیا میں امریکی سفیر کو مار دیا گیا ۔ اردن ، مصر ، پاکستان اور دیگر ممالک میں امریکی سفارت خانوں پر حملے ہوئے ہیں جن میں کئی افراد جان کی بازی ہار گئے ۔ مسلم ممالک میں امریکی فلم ڈائریکٹر اور پادری ٹیری جونز کے خلاف کارروائی اور سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ بھی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ ان واقعات پر ہر دل غمگین ہے جبکہ قرآن پاک اور صاحب قرآنﷺ سے محبت کرنے والی ہر آنکھ فرط جذبات سے لبریز نظر آتی ہے ۔ جوشیلے مسلمانوں نے تو ان نازک اور حساس معاملات میں جانوں کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا ۔ کرہ¿ ارض پر کتنے ہی علم دین ریاستی جبر اور استعمار کے ہاتھوں جنت کی راہوں کے مسافر بن رہے ہیں۔مسلمانوں کا جذبہ¿ ایمانی نعرہ بن کر عالم کفر کو للکار رہا ہے اور پورا عالم اسلام اس توہینِ رسالت اور توہینِ قرآن کے خلاف جلسے اور جلوسوں کی صورت میں شدید احتجاج کرر ہا ہے۔
مسلمانوں کی وحدت کو توڑنے، انہیں مایوسی کی دلدل میں دھکیلنے اور احساس کمتری میں مبتلا کر دینے کے لیے ہر دور میں کوششیں ہوتی رہی ہیں تاہم اسلام پسند قوتیں ہر دور میں ان سازشوں کا مقابلہ کرتی رہی ہیں ۔ عالمی مفادات کے تحت دنیا کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ تو پہلے سے ہی جاری تھا لیکن نائن الیون کے واقعے کے بعد شروع کی جانے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے اسلام کے خلاف حملوں کو مزید تیز کر دیا ہے ۔ صدر بش نے 2001ءمیں افغانستان پر حملے کو کروسیڈ یعنی صلیبی جنگ کا نام دیا تھا اور آج یہ بات مزید واضح ہو چکی ہے کہ اس جنگ کا مقصد القاعدہ کو سزا دینے کی بجائے اسلامی نظریات کو مٹانا تھا۔ یہ جنگ اب مکمل طور پر مذہبی بن چکی ہے کیونکہ اس کے پیچھے ’ہرمجدون ‘کا انتظار کرنے والے انتہاپسند یہودی اور عیسائی قوتیں سرگرم ہیں ۔ مغربی قوتیں نہ صرف اربوں ڈالر کا اسلحہ و بارود استعمال کرکے لاکھوں مسلمانوں کا خون کر چکی ہیں بلکہ ساتھ ساتھ مسلمانوں کی ثقافت ، دینی روایات ، محبت رسول ﷺ ، قرآن سے تعلق غرض پوری معاشرت کو ہی تبدیل کر دینا چاہتی ہیں۔ اس مقصد کے لئے تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد اسلام ، نبی اکرم ﷺ اور قرآن پاک کے خلاف توہین آمیز اقدامات کئے جاتے ہیں ۔ مسلم ممالک کی ثقافت کو تبدیل کرنے کے لئے نام نہاد این جی اوز اور میڈیا کے اداروں کو بھاری فنڈز فراہم کئے گئے ہیں جو آزادی¿ نسواں ، ہم جنس پرستوں کے حقوق ، آزادی¿ اظہارِ رائے اور فن و ثقافت کے نام پر مغربی کلچر کو فروغ دینے میں مصروف ہیں ۔ دوسری جانب مغربی ممالک کی پریشانی یہ ہے کہ بھرپور کوشش کے باوجود مسلمانوں کو ان کے دین سے دور نہیں کیا جا سکا ۔ ان کے دل سے قرآن کا پیغام اور نبی محترم ﷺ کی محبت نہیں نکالی جا سکی ۔ مغرب کئی سو سال کے سیاسی غلبے کے باوجود اسلامی نظریے کو ختم نہیں کر سکا اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ جس کے باعث آج مسلمان زیر عتاب ہیں اور نبی اکرمﷺ کی ذات اقدس اور کتاب ہدایت کی توہین کرکے مسلمانوں کو اخلاقی پستی کی طرف دھکیلنے کی سازش کی جا رہی ہے ۔
مغرب میں فروغ اسلام:عالم کفر پریشان ہے کہ اس کی بھرپور کوششوں کے باوجود اسلام مغربی ممالک میں تیزی سے پھیل رہا ہے اور اعلی تعلیم یافتہ افراد احیائے اسلام کی تحریکوں کو میسر آ رہے ہیں ۔اسی طرح مغربی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے بہت سے طالب علم سیکولر معاشروں کی روایات کو اپنانے سے گریز کرتے ہوئے اپنی صلاحیتیں احیائے اسلام کے لئے وقف کر رہے ہیں ۔ یورپ اور امریکہ میں کئی مسلمان تنظیمیں انتہائی سرگرمی کے ساتھ اسلام کا پیغام عام کرنے میں مصروف ہیں ۔ مغربی ممالک اگرچہ اسلام پر دہشت گردی ، بنیاد پرستی اور دقیانوسیت کے الزامات لگاتے رہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کوئی مغربی شخص ایمانداری کے ساتھ تحقیق کرتا ہے تو وہ اسلام کی سچائی کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک میں بہت سے نامور افراد حلقہ بگوش اسلام ہوئے ہیں ۔ اسلام قبول کرنے والوں میں بڑی تعداد خواتین کی ہے جو مغربی ممالک کی مادرپدر آزادی اور عورت کو کھلونا سمجھنے کے تصور کی باغی بن کر اسلام کے نظام عفت و عصمت کو اپنا رہی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی یورپی ممالک میں اسلامی طرز حیات کو قبول کرنے والے افراد کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نفرت نے بھی مسلمانوں کو اپنی شناخت کی طرف لوٹنے کا درس دیا ہے۔ گوانتاناموبے، ابو غریب اور دیگر امریکی جیلوں کی انسانیت سوز داستانوں اور دوسری جانب قرآن اور پیغبر اسلام حضرت محمدﷺ کی توہین کے واقعات نے مسلمانوں کے اندر اپنی دینی روایات سے متعلق تحقیق کرنے، سچ کی تلاش اور دنیا کو حقیقت سے آشنا کرنے کا جذبہ بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ عالم کفر کے گھٹیا پروپیگنڈے کے باوجود اسلام اپنی انسانیت نواز خوبیوں کے باعث روز اوّل سے مسلسل پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ آج دنیا بھر میں دو ارب کے لگ بھگ انسان حلقہ بگوش اسلام ہیں۔سانحہ نائن الیون کے بعد امریکہ اور یورپ میں قبول اسلام کی شرح فزوں تر ہے بلکہ اسلام یورپی ممالک کا دوسرا سب سے زیادہ وسعت پذیر دین بن چکا ہے۔
یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اسلام کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کی طاقت کو تباہ کرنے کے لئے شروع کی تھی لیکن ہوا اس کے برعکس کہ اسلام مغربی ممالک میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ نائن الیون سے قبل امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد10 لاکھ تھی جو کہ اب28 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے ۔ ایک اور دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکیوں میں اسلام کے بارے میں جاننے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے ۔ امریکہ میں قرآن پاک کا ترجمہ شائع کرنے والے ایک ادارے کے اعدادوشمار کے مطابق نائن الیون کے واقعہ کے بعد پہلے تین ماہ میں قرآن پاک کی فروخت میں پندرہ گنا اضافہ دیکھا گیا اور کئی ماہ تک قرآن پاک امریکہ میں بیسٹ سیلر کتاب رہی ۔ العربیہ چینل کی رپورٹ کے مطابق 2001ءمیں 34 ہزار امریکیوں نے اسلام قبول کیا ۔ نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکہ میں جو مسلمان ہیں ان میں 25 فیصد تعداد ایسے امریکیوں کی ہے جنہوں نے اسلام قبول کیا ہے ۔ ہر سال 50 ہزار امریکی مسلمان ہو جاتے ہیں جبکہ برطانیہ میں نو مسلموں کی شرح10فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ برطانیہ میں 2001ءمیں مسلمانوں کی تعداد16لاکھ تھی جو اب 30 لاکھ کے قریب ہے۔ جو2030 ءتک60 لاکھ ہو جائے گی ۔ اسی طرح دیگر یورپی ممالک میں مسلمانوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب یورپی ممالک میں موجود مسلمانوں میں مذہبی رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے اور یہ لوگ احیائے اسلام کی تحریکوں میں سرگرم کردار ادا کر رہے ہیں۔ بوسنیا اور کوسوو کی آزادی کے بعد یورپ میں دو نئے اسلامی ممالک منظر عام پر آئے ہیں ۔ (جاری ہے)