کنفیوژن

کنفیوژن
کنفیوژن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جوں جوں عام انتخاب قریب آرہاہے، کنفیوژن بڑھ رہا ہے، ایسا کنفیوژن جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوجائے اور جس کی موجودگی میں کیے گئے فیصلے فاصلوں کو جنم دیںاور نتیجتاً منزل دور ہو جائے ، کنفیوژن اتنا زیادہ ہے کہ سوائے خوف کے کچھ پلے نہیں پڑ رہا ہے، سوچ مزید گنجلگ ہوتی جا رہی ہے ،ہر کوئی پوچھ رہا ہے کیا ہوگا، کوئی نہیں پوچھ رہا کہ کیا ہو رہا ہے ، کنفیوژن نے دو مختلف سمتوں کے حالات کا باہمی فیوژن کردیا ہوا ہے۔
اگلاانتخاب کب ہوگا، ہوگا تو پہلے کون سا ہوگا، انتخاب میں پیپلز پارٹی اور اس کے حلیف کیا گل کھلائیں گے، اگر دوبارہ سے آگئے تو عوا م کدھر جائیں گے،وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ کہتے ہیں کہ انتخاب اپنے وقت پر ہوگا، یہ سچ ہے تو اپوزیشن جس انتخاب کی بات کر رہی ہے کیا وہ بے وقت کا انتخاب ہے، اگر ایسا ہے تو بے وقت کا انتخاب بھی منعقدہوسکتا ہے جیسے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم بلدیاتی انتخاب کی بات کر رہی ہے، یوں وقت اور بے وقت کی راگنی نے سارا ماحول کرکرا کردیا ہے ، کنفیوژن پیدا کر دیا ہے، سندھ میںنیا بلدیاتی قانون منظور ہوگیا ہے اور باقی ملک میں پہلے سے موجود قانون کا بھی کوئی اٹی مول لگانے کو تیار نہیں، دوسری جانب جن عوام کے لئے بلدیاتی انتخابات کا ڈول ڈالا جارہا ہے وہ اس سارے عمل سے بے نیاز مہنگائی کی چکی پیس رہے ہیں ، بلدیاتی انتخابات ہو بھی گئے تو بھی ان کے ہاتھ سے چکی نہیں چھوٹے گی، دن پھریں گے فقط بے نظیروں کے!
آئی آر آئی کے سروے میں عمران خان کی پارٹی مقبولیت کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر آگئی ہے، لیکن سمجھ نہیں آرہا کہ آئی آر آئی نے یہ سروے کس Clientکے لئے کیا ہے ، اگر پاکستانی عوام کے لئے کیا ہے تو اس سروے سے عوام کا کنفوژن بڑھ گیاہے، کم نہیں ہوا،یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی لیڈر کی مقبولیت یا غیر مقبولیت کی دلیل کسی سروے سے حاصل کی جاسکتی ہے ، ایسا ہے تو پھر سروے کی دلیل کیا ہوگی، اس کا سرا کہاں سے پکڑا جا سکے گا، دیکھا جائے تو اس سروے نے ہاں اور ناں کو گڈ مڈ کر دیا ہے اوراس گڈ مڈ صورت حال کا فائدہ پاکستان کی سیاست کو ہرگز نہیں ہو سکتا !
شاید عمران اسی لئے وزیرستان جارہے ہیں تاکہ گرتی ہوئی مقبولیت کو کچھ سہار ادے سکیں لیکن کنفوژن یہ ہے کہ وہ وہاں تحفے میں کیا لائیں گے، خود کش جیکٹوں کے سوا....؟ اس سے بڑا کنفیوژن یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو راولپنڈی میں ہونے کے باوجود محفوظ نہ تھیں اور عمران وزیرستان جا کر بھی محفوظ ہوں گے ، انشاءاللہ!
روسی صدر پیوٹن نے اسلام آباد آنے سے انکار کر دیا توامریکی صدر نے صدر زرداری سے ملاقات سے انکار کردیا ،وہ الطاف حسین کو جپھیاں ڈالنے لندن پہنچ گئے۔ انہوں نے لندن میں بیٹھ کر جناب زرداری سے وہ کچھ منوا لیا ہے جو نواز شریف پاکستان میں ہو کر بھی نہ منا سکے !
ایک عوامی سا کنفیوژن بھی ملاحظہ ہو کہ ہمارے سرکاری بابوﺅں نے گزشتہ دو ہفتوں میں تیل کی قیمت میں آٹھ روپے کا اضافہ کیا اور موجودہ ہفتے میں اس قیمت میں چھے روپے کی کمی کر دی ، صارفیں دو روپے کے خسارے میں ہیں اور میڈیا بتا رہا ہے کہ پٹرول سستا ہوگیاہے ، میڈیا آنکھوں دیکھی مکھی نگل رہا ہے اور عوام کو بھی نگلنے پر مجبور کر رہا ہے۔ ادھرپارلیمانی کمیٹی چیخ رہی ہے کہ پٹرول کی ہفتہ وار قیمت کے تعین کو ختم کیا جائے لیکن اس کی کوئی نہیںسن رہا، یہی حال سپریم کورٹ کا ہے، وہ نیب سے چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ رینٹل پاور پلانٹس میں ہونے والی کرپشن کے ذمہ داران کو بشمول راجہ صاحب کے دھر لیا جائے ۔
ادھر پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کہتی ہے کہ این ایل سی میں کرپشن کے ذمہ داران جرنیلوں کے خلاف کارروائی کی جائے لیکن جی ایچ کیو ایسا کرنے سے منع کردیتا ہے اور جرنیلوں کو بحال کر کے ان پر فوجی عدالت میں مقدمہ کی داغ بیل ڈالے ہوئے ہے، کیوں، یہ تو معلوم نہیں البتہ یہ ضرور معلوم ہے کہ یہی وجہ ہے کہ پولیس چوروں کو پکڑتی ہے تو سیاستدان چھڑوا کرلے جاتے ہیں، عوام چوروں کو پکڑتے ہیں تو پولیس چھڑوا کر لے جاتی ہے!
پولیس کی ایسی ہی کارکردگی کا نتیجہ ہے کہ قرآن پاک کے اوراق مبینہ طور پر جلانے والی مرشا مسیح جیل سے باہر ہے اور پولیس کے دباﺅ پر جھوٹی گواہی پر دھر لیا جانے والا حافظ جدون اندر ہے، بڑا کنفیوژن ہے۔

مزید :

کالم -