امن وامان۔۔۔ہوں ، پردے میں رہنے دو

Oct 03, 2013 | 04:27 PM

محمد زبیراعوان

نمل نامہ (محمد زبیراعوان) پنجاب پولیس کے بارے میں عوام کے مجموعی تاثر سے آپ بخوبی آگاہ ہیں ، پولیس کا نام آتے ہی  ایک پیٹ نکلے ،کالی شرٹ اور خاکی پتلون پہنے ”ڈھانچے“ کا تصورذہن میں آتاہے جو ظلم وغضب کی علامت سمجھاجاتاہے ، رشوت خور سے لے کر پتہ نہیں کون کون سے نام ذہن میں آتے ہیں ۔اس میں پولیس اہلکاروں یا عوام کا قصور نہیں ، محکمے کا ایساہی تاثر بنادیاگیاجو چند لوگوں کے ذاتی ”آئین و قانون“ کی وجہ سے بنا۔اُسی قانون پر عمل درآمد کرتے ہوئے قوم کے ٹیکسوں سے تنخواہ لے کر بچوں کا پیٹ پالنے والا اہلکار جلاد بنتاہے اور اُسی ”قانون“سے ہی مسیحا۔پنجاب کے ضلع اور عمران خان کے آبائی حلقہ میانوالی میں بھی پولیس نے کچھ لوگوں کی خاطر اپنا ہی آئین وقانون بنارکھاہے جس پر من وعن عمل درآمد جاری ہے اور شاید اِسی تناظر میں عمران خان ہمیشہ مقامی لوگوں کو اختیارات منتقل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔تھانہ چکڑالہ(نمل ) کی حدود میں گذشتہ تین سال سے امن وامان کی صورتحال کراچی سے زیادہ مختلف نہیں ،شہرقائد میں تو سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد صوبائی اور وفاقی حکومت حرکت میں آگئی لیکن لاہور سے دور دراز علاقہ ہونے کی وجہ سے تھانہ چکڑالہ(جہاں عمران خان کی نمل یونیورسٹی واقع ہے) پر حکام بالاکی نظرشفقت نہیں پڑی ۔پولیس اہلکاراپنی”نوکری“پوری کرتے ہیں اور علاقے میں جرائم پیشہ عناصر اپنے ”فرائض“۔ ۔ ۔ دیہاتی تھانے میں ایک طرف تاجروں نے ڈکیتی اور چوریوں کیخلاف ہڑتال اور کراچی ، اسلام آباد روڈ بلاک کرنے کی دھمکی دی ہے تودوسری طرف انجینئر اور پی ٹی سی ٹیچرکے اہل خانہ بھی محفوظ نہیں ،خود پولیس اہلکار قتل ہورہے ہیں، مسلح نقاب پوش سورج کے ماتھاٹیکتے ہی محلوں میں گھس آتے ہیں ،سڑک پر نکلناتودرکنار ۔ جب گھروں میں ڈکیتیوں تک بات پہنچ جائے تو اگلے مرحلے میں” عزتیں“بھی خاک میں ملتی ہیں ۔ ڈی آئی جی سرگودھا اور آئی جی پنجاب لاہور میں تشریف فرماہیں ،خیبرپختونخواہ سے ملحقہ سرحد ہونے کے باوجود پولیس اہلکار وں کادن کے اوقات میں گپیں ہانکنا اور شام کے وقت فخرآباد موڑ پر مین روڈ سے گزرنے والی گاڑیوں کے رجسٹر پر اندراج کی مدمیں 20روپے وصولی پسندیدہ مشغلہ ہے ۔ رجسٹریشن کی بجائے گاڑیوں کی تلاشی ضروری ہے جو شاید مشکل اور ”آمدن“ سے خالی کام ہے ۔ تھانے کے شمالی علاقوں میں گشت پر موجود گاڑی کے اہلکار موبائل میں ہی گھوڑے بیچ کر نیند پوری کرتے ہیں ۔ یہ سب باتیں ”پولیس “کے ماتھے کا جھومر ہیں جو کسی نہ کسی صورت میںپاکستانی پولیس میں ہرجگہ پائی جاتی ہیں ۔میرے لیے حیران کن بات یہ انکشاف تھاکہ تھانہ چکڑالہ کا سٹیشن ہاﺅس آفیسر اپنی مدت ملازمت پوری ہی نہیں کرپاتااور زیادہ سے زیادہ 10، 15دن بعد ہی تبادلہ ہوجاتاہے ۔ کریدنے پر معلوم ہواکہ شہریوں یا سیاستدانوں کی طرف سے پولیس کو کوئی مسئلہ نہیں ،کسی ایس ایچ او کو تھانے میں اشتہاری نہیں ٹکنے دیتے جو سورج غروب ہوتے ہی آبادیوں کا رخ کرلیتے ہیں اور کسی کے گھر سے”مال “نہ ملے تو مویشیوں کو ہی مال غنیمت سمجھ لیتے ہیں۔ تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ لینے والی پولیس اورپاکستان کے آئین کی موجودگی کا احساس نہیں ہوتا۔ کیاحلقہ کے عوام کو عمران خان سے مایوس کرنامقصود ہے ؟ یا پھر عوام کے جان ومال کا تحفظ پولیس اور حکمرانوں کی ترجیح ہی نہیں۔کچھ حکومتی وزراءپر کالعدم تنظیموں سے تعلق کاالزام بھی عائد ہوتاہے تو کیااُنہوں نے اپنے” پیاروں“ کو وہاں پناہ دے رکھی ہے؟خادم اعلیٰ کو وزیراعظم کی معاونت کا نیانیاشوق پیداہواہے اور اُنہیں ابھی صوبے کے معاملات دیکھنے کا” شرف“ نصیب نہیں ہوا۔چکڑالہ کے ہر گھر میں اسلحہ موجودہے ، لوگوں کی عزتیں تارتارہونے اور قانون کو ہاتھ میں لینے تک نوبت آنے سے پہلے ہی کچھ سوچ لیں ، ورنہ کہیں دیر نہ ہوجائے اور پھر کسی ٹارگٹڈ ایکشن کیلئے نئی اے پی سی بلانی پڑے ۔

مزیدخبریں