نعرہ بازی، تصادم، یہ فیئر پلے نہیں!
وزیر آباد میں وزیراعظم کے خلاف نعرے لگانے پر جو ہوا، وزیراعلیٰ شہباز شریف نے استدعا وارننگ اور مریم نواز نے ٹوئٹ کر کے جو پیغام دیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے خدشات بے جا نہیں ہیں اور معاشرے میں بُری طرح تقسیم پیدا کی جا رہی ہے،جو گھر گھر لڑائی والی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری تو کنٹینر پر ہوتے ہیں، عمران خان کی اپنی سیکیورٹی اور ان کے اپنے کارکن کنٹینر کے چاروں طرف موجود رہتے ہیں۔ وہ تو بنی گالہ بھی چلے جاتے ہیں اور کنٹینر کی چھت پر اکیلے چہل قدمی بھی کرتے ہیں، ہمارے محترم ڈاکٹر طاہر القادری تو تہری حفاظت میں ہیں، ان کے اردگرد جدید اسلحہ سے لیس نجی سیکیورٹی کمپنی کے کمانڈو، ان کے اپنے رضاکار ہوتے ہیں، ان کے بعد خواتین اور بچوں کی ایک دیوار ہے اور پھر دوسرے چاہنے والے آتے ہیں، اس لئے یہ دونوں سربراہان جماعت اپنے خطاب میں کچھ بھی کہیں ان کی ذات کو فرق نہیں پڑتا اور اگر کبھی کبھار کہیں سے ان کی ذات پر کوئی چھینٹا آ بھی جائے تو وہ جواب میں پتھر برسا دیتے ہیں، ان حضرات نے کبھی ایک کارکن کی حیثیت سے کسی مظاہرے میں نعرے لگائے ہوں تو ان کو پتہ ہو کہ ایسے مواقع پر صورت حال کیا ہوتی ہے۔ ”گو نواز گو“ کا سلسلہ چلا تو چودھری اعتزاز احسن نے کہا تھا کہ اس سے بچا جائے اور وزیراعظم احتیاط کریں، لیکن یہ ممکن نہیں کہ وزیراعظم چھپ کر بیٹھ جائیں۔
یہ غالباً تیسرا حادثہ ہے جو وزیر آباد میں ہوا اور اب کسی اور کی توقع بے جا نہیں اور پھر بات لاتوں گھونسوں اور اس سے بھی بڑھ جائے، تو تعجب والا مسئلہ نہیں ہو گا۔ ہم نے ایوب خان سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو اور اس کے بعد بھی بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے خلاف چلنے والی تحاریک اور بڑے بڑے مظاہروں، جلوسوں اور جلسوں کی کوریج کی ہوئی ہے اور ہمارا تجربہ ہے کہ جب بھی کبھی ایسی صورت حال پیدا ہوئی وہ خراب ہوتی گئی اور تصادم بھی ہوتے رہے۔ یہاں بھی ابتدا میں بات غیر اہم نظر آئی تھی، لیکن جب قائدین ہی یہ کہیں کہ ”بچے بچے کی زبان پر گو نواز گو ہے“ اور پورے ملک میں یہ نعرہ گونج رہا ہے تو پھر کیا کہا جا سکتا ہے، ہم تو اپنا تجربہ ہی بیان کر سکتے ہیں وہ یہ کہ ایوبی دور سے قبل باغ بیرون موچی دروازہ میں دولتانہ ممدوٹ چپقلش میں نعرہ بازی ہوتی تو قائدین فوراً روک دیتے تھے۔ ایک دوسرے کے لئے آپ جناب کے الفاظ ہی ادا کئے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں نوابزادہ نصر اللہ خان تو بہت بڑی مثال ہیں، ایک دور آیا کہ جنرل ضیاءالحق اور ان کے درمیان سخت کشیدگی ہو گئی۔ جنرل ضیاءالحق کے اہداف میں سے بڑا ہدف نوابزادہ نصر اللہ خان بن گئے تھے۔ ایک مرتبہ ضیاءالحق کی طرف سے نوابزادہ کے بارے میں کافی سخت الفاظ کہے گئے، اس کے ایک ہی روز بعد نکلسن روڈ پر پریس کانفرنس میں نوابزادہ نصر اللہ خان ہمارے سامنے تھے۔ پوری محفل میں سے پہلا سوال داغنے والے آغا افتخار (مرحوم) نے بات ہی یہاں سے شروع کی اور پوچھا کہ جنرل ضیاءالحق نے ان (نوابزادہ) کے بارے میں کہا ہے، نوابزادہ نصر اللہ خان جواب میں مسکرا دیئے اور کہا یہ تو ان کا کہنا ہے، ہم تو بات ادب ہی سے کریں گے کہ ہمیں یہی سکھایا گیا اور یہی تہذیب و اخلاق ہے چنانچہ نوابزادہ نصر اللہ خان شدید ترین مخالفت کے دور میں بھی مقابل کو جناب اور صاحب کہہ کر ہی پکارتے تھے۔
تصادم (سیاسی) کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں اور کارکنوں میں جذبہ ہوتا ہے تو حوصلہ بھی کم ہوتا ہے، پھر آج کا دور الیکٹرونک کا ہے جب جو بھی بات کہی جائے وہ فوراً کہنے والے ہی کی زبان میں نشر بھی ہو جاتی ہے، جبکہ پرانے دور میں واقع رپورٹ ہوتا تو اگلے روز اخبار میں خبر ہوتی تھی اور وہ بھی کافی محتاط کہ کوئی لیڈر اگر گالی دے تو صحافی ایسا نہیں کر سکتا ، وہ اگر کسی لیڈر کی گالی جوں کی توں تحریر کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ یہ گالی لیڈر نے اپنی محفل میں دی ہو گی، لیکن صحافی نے تو پورے ملک کے سامنے دے دی، لیکن آج ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہاں تو جو کہا جاتا وہ براہ راست نشر ہو جاتا ہے اور پھر اسے اتنی بار نشر کیا جاتا ہے کہ عوام میں اشتعال کی سی کیفیت بن جاتی ہے۔ اگر لیڈروں کا فرض ہے کہ وہ احتیاط کریں تو میڈیا کو بھی ایسے اشتعال انگیز فقروں کو عوام تک پہنچانے میں احتیاط کرنا چاہئے۔
اس سلسلے میں دو مثالیں دی جا سکتی ہیں ایک تو پہلے بھی عرض کی جا چکی۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کی ہے جب 14اپریل1977ءکی دوپہر کو گورنر ہاﺅس لاہور کے لان میں پیپلزپارٹی کے ڈھائی تین ہزار کارکن بے حد مشتعل تھے اور اپنی قیادت سے جوابی حملے کی اجازت مانگ رہے تھے کہ پاکستان قومی اتحاد کے مظاہروں اور ان کے کارکنوں کی طرف سے حملوں کا جواب دیا جائے۔ بھٹو مسلسل منع اور انکار کرتے رہے اورکہا:”بھوکے بھیڑیئے میرے پیچھے پڑے ہوئے ہیں“ انہوں نے کارکنوں کو خاموش رہنے کی ہدایت کی تھی، چنانچہ1977ءکی تحریک میں کوئی جوابی مظاہرہ نہیں ہوا، جھڑپیں جہاں کہیں بھی ہوئیں وہ مقامی تھیں اور مظاہرین نے رتن سینما اور لاہور ہوٹل چوک والی بلڈنگ کے سامنے والی عمارت جلانے کے علاوہ طارق وحید بٹ کے گھر پر یلغار کا قصد بھی کیا تھا جو بوجوہ نہ ہو سکا۔
اس سلسلے میں ایک مثال بیرون لوہاری دروازہ کی جب وہاں پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے مظاہرہ کیا اور ایک سیکیورٹی ادارے کی گاڑی کے گزرنے پر نعرہ بازی بھی کی تو وہاں پاکستان عوامی اتحاد کے کارکنوں یا حامیوں نے ڈنڈوں سے اس مظاہرے کی تواضع کی اور یہ تواضع بعض مقامی حضرات کے درمیان رنجش کا باعث بن گئی اور تحریک کے بہت بعد یہاں کے دو فریقوں کے درمیان فائرنگ تک کا تبادلہ ہوا تھا۔
یہاں بھی جوش پر ہوش کو غالب آنا چاہئے۔ تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی قیادت کو بھی سمجھنا چاہئے کہ کسی دوسرے کی یا کوئی مشترکہ تقریب ہو تو وہاں یہ نعرہ نہ لگایا جائے اور ہوش کا مظاہرہ ہو، اسی طرح مسلم لیگ(ن) کی قیادت کے لئے بھی یہی لازم ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو صبر کی تلقین کریں۔ چہ جائیکہ وہ خود رنجیدہ ہو کر ایسی نعرہ بازی کی حوصلہ افزائی کریں۔ یہ ہو تو رہا ہے، ہونا نہیں چاہئے اور یہ جو وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے شیروں والی بات کی ہے تو وہ بھی ایسا نہ کریں کہ دونوں بھائیوں پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ برسر اقتدار ہیں۔ اسی طرح مخالفین کو بھی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔ سیاست کا کھیل سیاسی میدان ہی میں کھیلا جائے اسے ذاتی دشمنی تک نہ لے جایا جائے۔دھرنوں کے بارے میں بھی تو تحمل کی پالیسی اختیار کی گئی اور جلسوں کی اجازت بھی دی گئی ہے۔