اب ڈاکٹر طاہرالقادری پارلیمنٹ میں آکر نظام بدلنے کی جدوجہد کرینگے
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
ڈاکٹر طاہرالقادری جس انقلاب کے انتظار میں اسلام آباد میں دھرنا دئیے بیٹھے ہیں وہ تو نہیں آیا البتہ ایک بار پھر ان کی ذہنی کا یا کلپ ہوگئی ہے انہوں نے اعلان کردیا ہے کہ ان کی جماعت پاکستان عوامی تحریک انتخابات میں حصہ لے گی، انتخابات جلد ہوں یا بدیر، انہوں نے ان میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کردیا ہے اور کہا ہے کہ اب وہ پارلیمنٹ میں منتخب ہو کر نظام بدلنے کی جدوجہد کریں گے، انہیں یہ دعوت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی دی جارہی تھی اور کہا جارہا تھا کہ اگر وہ نظام بدلنا چاہتے ہیں تو پارلیمنٹ میں آئیں، پارلیمنٹ سے باہر بیٹھ کر یا دھرنا دے کر نظام نہیں بدلا جاسکتا۔
پاکستان عوامی تحریک 1989ءمیں قائم ہوئی تھی، اپنے قیام کے ایک ہی برس بعد اس نے 90ءکے انتخابات میں حصہ لیا لیکن اس کا کوئی بھی امیدوار کامیاب نہ ہوسکا، اس کے بعد بھی پارٹی متحرک رہی، دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بھی بناتی رہی، الیکشن بھی لڑتی رہی اور جب ضروری سمجھا الیکشن کا بائیکاٹ بھی کرتی رہی، پارٹی کو پہلی انتخابی کامیابی اکتوبر 2002ءکے انتخابات میں اس وقت حاصل ہوئی جب ڈاکٹر طاہر القادری لاہور کی ایک نشست سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے، یہ انتخابات کے میدان میں اس پارٹی اور خود ڈاکٹر طاہرالقادری کی اکلوتی کامیابی ہے جو انہیں حاصل ہوئی، لیکن قومی اسمبلی کارکن منتخب ہونے کے باوجود جب اُن کی توقعات پوری نہ ہوئیں تو انہوں نے 29 نومبر 2004ءکو قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفا دیدیا، اُن کا خیال تھا کہ اُنہیں حکومت میں حصہ ملے گا جس کے گاڑ فادر اس وقت جنرل پرویز مشرف تھے اور جنہوں نے اپنی نگرانی میں مسلم لیگ (ق) کی حکومت بنوائی تھی اور حکومت سازی کے لئے مطلوبہ اکثریت کا انتظام بھی کرکے دیا تھا، وہ ذاتی دلچسپی نہ لیتے اور اس مقصد کے لئے ریاستی اداروں کی قوت کو استعمال نہ کرتے تو پیپلزپارٹی کو دو ٹکڑے کرنا ممکن نہ ہوتا، اگرچہ اُن کی اولین ترجیح مخدوم امین فہیم کو وزیراعظم بنوانا تھا لیکن امین فہیم پارٹی چھوڑ کر اُن کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہ ہوئے تو انہوں نے راﺅ سکندر قبال کی قیادت میں ایک دھڑا پیپلزپارٹی سے الگ کردیا جس کا نام ”پیٹریاٹس“ رکھا گیا، پھر آزاد امیدواروں چھوٹے گروپوں اور فاٹا وغیرہ کو ساتھ ملا کر ایک ووٹ کی اکثریت سے میر ظفراللہ جمالی (مسلم لیگ ق) کو وزیراعظم بنوایا گیا، غالباً ڈاکٹر طاہرالقادری سے بھی کچھ وعدے کئے گئے تھے جن کا ایفا نہ ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے طویل استعفے میں جو انہوں نے سپیکر کے نام لکھا۔ ان ٹوٹے ہوئے وعدوں کا بھی تذکرہ کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ یہ اسمبلی اُن کے معیار پر پورا نہیں اترتی اس لئے وہ اسے خیر باد کہتے ہیں۔
ڈاکٹر طاہرالقادری استعفا دینے کے کچھ عرصہ بعد ملک بھی چھوڑ گئے اور اپنی جولا نئی طبع کی آزمائش کے لئے اب کی بار کینیڈا کا انتخاب کیا، اب بھی اُن کے پاس کینیڈا کی شہریت ہے اور وہ کینیڈین پاسپورٹ پر ویزہ لے کر پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب 2012ءکے آخر میں بھی پاکستان تشریف لائے تھے، اس وقت انہوں نے نعرہ لگایا تھا ”سیاست نہیں، ریاست بچاﺅ“ دسمبر 2012ءمیں انہوں نے لاہور میں مینار پاکستان کے سائے میں ایک عظیم الشان جلسہ کیا جو اُن کے بقول لاہور کی تاریخ کا سب سے برا جلسہ تھا اور مریدکے تک لوگ ان کی آواز سن رہے تھے۔ انہوں نے اس جلسے میں اس وقت کی حکومت کے سامنے بعض مطالبات رکھے اور حکومت کو ان مطالبات کو ماننے کے لئے تین ہفتے کی مہلت دی، بصورت دیگر اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان کیا، مطالبات منظور نہ ہوئے تو وہ مقررہ تاریخ کو لاہور سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوگئے اور وہاں دھرنا دے کر بیٹھ گئے، اُن کے کارکنون کو اس بات کی داد دینی چاہیے کہ وہ سخت سرد موسم میں کھلے آسمان تلے چار دن تک دھرنا دے کر بیٹھے رہے، پھر اُن کے مطالبے پر حکومت کا ایک وفد اُن کے کنٹینر میں اُن سے ملنے کے لئے آیا، اُن کے مطالبات کو سنا، معاہدہ ہوا، دھرنا اُٹھ گیا، لیکن غالباً اُن کے مطالبات پر عملدرآمد کی نوبت نہ آئی، اس دوران 11 مئی 2013ءکے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا تو وہ الیکشن ملتوی کرانے کے لئے سپریم کورٹ چلے گئے، جہاں ان کا موقف تسلیم نہ کیا گیا، ان کی درخواست مسترد ہوگئی تو وہ ایک دن خاموشی کے ساتھ کینیڈا واپس چلے گئے، جہاں سے ان کی واپسی اب جون کے مہینے میں ہوئی، جس کے بعد سے اب تک وہ متحرک ہیں اور 14 اگست کو انقلاب لانے کے لئے اسلام آباد کے دھرنے میں بیٹھے ہیں، انہوں نے وقتاً فوقتاً حکومت کے خاتمے کی جو تاریخیں دیں وہ سب کی سب گزرچکیں، لیکن حکومت اب تک موجود ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے اس دوران دھرنے کے شرکاءسے روزانہ تین چار بار خطاب کیا، جوشیلی تقریریں کیں، حکمرانوں کو للکارا، یہ ساری تقریریں جمع کی جائیں تو ان میں کچھ تضادات بھی نظر آجائیں گے جو ان تقریروں کا ایک لطیف پہلو بھی سامنے لاتی ہیں، لیکن خطابات کا لب و لہجہ آتشیں ہوتا تھا، سننے والے جوش و جذبے سے جھوم جھوم جاتے تھے اور مقرر کے واری صدقے بھی جاتے تھے لیکن اگر حکومت کی رخصتی کو منزل قرار دیا جائے تو اس منزل کے حصول میں کامیابی انہیں بہرحال نہیں ملی نذیر تبسم کا شعر یاد آیا
کتنی جان لیوا ہے اُن کی بدنصیبی جو
منزلیں تو رکھتے ہیں راستہ نہیں رکھتے
اب دھرنا اٹھانے کی قیاس آرائیوں کے درمیان ڈاکٹر طاہرالقادری نے ایک بار پھر اپنی جماعت کو ”انتخابی“ بنانے کا اعلان کیا، یہ جماعت 1989ءسے اب تک یعنی 25 برسوں میں قومی اسمبلی کی ایک نشست جیتنے کا ریکارڈ رکھتی ہے، اللہ کرے اب وہ زیادہ نشستیں حاصل کرلے اور اگر 342 کے ایوان میں 172 نشستیں حاصل کرلے تو حکومت بھی بناسکتی ہے، وہ اب پارلیمنٹ کے ذریعے نظام بدلنے کی بات کرتے ہیں یہ نظام تبھی بدلے گا جب وہ اکثریت حاصل کریں، دو چار دس یا چند نشستوں کے ساتھ کوئی نظام نہیں بدلا جاسکتا۔
بہرحال ایک بار پھر انتخابی میدان میں اُن کا خیر مقدم .... امید ہے اب وہ پہلے کی طرح بائیکاٹ کرکے سیاست کو پھر تیاگ نہیں دیں گے اور ”سیاست نہیں، ریاست بچاﺅ“ کے نعرے پر بھی نظر ثانی کریں گے کیونکہ سیاست کے بغیر ریاست بچانے کا تصور بھی کچھ عجیب لگتا ہے، دوسری اہم بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی کارکن منتخب ہونے کے لئے انہیں کینیڈا کی شہریت بھی چھوڑنا ہوگی۔ انتخابی ضوابط کے تحت کسی دوسرے ملک کا شہری قومی اسمبلی یا سینیٹ کا رکن منتخب نہیں ہوسکتا اور اگر ہوجائے تو رہ نہیں سکتا، نہ ریاست کا کوئی عہدہ رکھ سکتا ہے۔
نظام