امریکی سفیر کی سرگرمیاں، کسی غیر آئینی اقدام کے حق میں نہیں
تجزیہ چودھری خادم حسین
پاکستان میں امریکی سفارت کار یکایک سرگرم ہو گئے۔سفیر رچرڈ اولسن نے یہاں وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف سے ملاقات کی، اس سے قبل وہ وزیردفاع اور وزیرداخلہ سے بھی مل چکے، بعض دوسری سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے بھی مذاکرات کئے ہیں۔ سفیر محترم رچرڈ اولسن نے ان ملاقاتوں کو روائتی اور باہمی دلچسپی کے امور والی بات چیت سے موسوم کیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کاقائل نہیں، تاہم ہم پاکستان میں کسی غیر آئینی اقدام اور تبدیلی کے حق میں نہیں ہیں۔امریکی سفیر کا یہ بیان ان کی حکومتی پالیسی کا مظہر ہے کہ وائٹ ہاﺅس کی ترجمان بھی ایک سے زیادہ بار غیر آئینی تبدیلی کی مخالفت کر چکیں، بلکہ ایک بیان تو بحران کے عروج پر ہونے کے دنوں میں آیا تھا۔
واقف حال حضرات کے خیال میں یہ ملاقاتیں پاکستان کے سیاسی حالات کے تناظر میں ہوں یہ اپنی جگہ، لیکن خطے میں پاکستان کی اہمیت کے پیش نظر افغانستان میں اقتدار کا مسئلہ حل ہو جانے کے بعد افغانستان امریکہ معاہدے کی روشنی میں بھی بات چیت ہو رہی ہے۔ افغان امریکہ معاہدے کی رو سے امریکہ کی فوج کے دس ہزار افراد افغانستان میں رہیں گے۔اس سلسلے میں پاکستان کی اہمیت کو دنیا بھر کے ممالک تسلیم کرتے ہیں اور ہمیں بھی خود اپنے مفادات کا احساس ہونا چاہیے۔پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے طور پر یکسو ہیں کہ افغانستان میں بھارتی اثرورسوخ کے مقابلے میں پاکستان کو اپنا کردار بڑھانا ہوگا۔ایک سلسلہ قبائلی علاقوں میں افغان سرحد کے ساتھ چل رہا ہے اور ضرب عضب آپریشن کے ذریعے دہشت گردی کا قلع قمع کیا جا رہا ہے تاہم یہاں یہ مشکل بھی در پیش ہے کہ طویل سرحد کا سہارا لے کر دہشت گرد دوسری طرف بھی چلے جاتے ہیں، ان حالات میں ضرورت اس امرکی ہے کہ ملک کے اندر قومی معاملات کے حوالے سے خارجی امور، ہمسایوں سے تعلقات اور بین الاقوامی معاملات میں بھی سب کو اعتماد میں لیا جائے۔وزیراعظم اس سلسلے میں ملک کی اہم ترین سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کے لئے اجلاس بلا سکتے ہیں،جس میں حکومتی پالیسی کی وضاحت کی جائے اس سلسلے میں جب مذاکرات ہوں اور رائے لی جائے گی تو مفید تجاویز بھی سامنے آ سکتی ہیں۔
یہ آج کے دور کی بات نہیں، پرانی اور ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے کہ ملک خطرے میں ہے اور اب بھی ایسا ہی کہا جا رہا ہے ،لیکن سب کہتے ضرور ہیں ، لیکن احساس کا یہ عالم ہے کہ محاذ آرائی ترک نہیںکی جا رہی ، اس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ بار نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے تعاون سے جو کل جماعتی مذاکرہ منعقد کیا، اس میں تمام فریقوں نے جو ایک دوسرے کے حریف بھی ہیں، امن اور استحکام پر اتفاق کیا، اس کل جماعتی مجلس مذاکرہ میں زور دیا گیا کہ عید سے قبل مذاکرات کے ذریعے دھرنے ختم کرائے جائیں، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی عہد کیا گیا کہ کسی ماوراءآئین اقدام کی حمائت نہیں کی جائے گی یہ خوش آئند ہے۔
ملک میں جو حالات ہیں ان کی وجہ سے معاشی اور اقتصادی صورت حال خراب ہو رہی ہے۔ دھرنے والے اور سرکاری اپنے اپنے کام سے لگے ہوئے ہیں، کسی کو ادھر کا دھیان نہیں، محاذ آرائی کی وجہ سے برسراقتدار پارٹی کی توجہ بھی اسی طرف ہے اور جوڑ توڑ جاری ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے سرکاری ملازم اور اہل کار اپنے فرائض سے غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں، عیدالاضحی کی آڑ لے کر بکرے اور قربانی کے دوسرے جانور تو مہنگے ہونا ہی تھے یہاں روائت کے مطابق پھل اور سبزیاں بھی پہنچ سے دور ہو گئی ہیں، خصوصاً ٹماٹر،پیاز، لہسن اور ادرک کے ساتھ ساتھ آلو بھی مہنگے کر دیئے گئے ہیں، یوں عوام کو پریشان کیا جا رہا ہے۔سیاسی عناصر کو اس کا خیال کرنا چاہیے۔بحران کو ختم کریں ، مذاکرات سے مسائل حل کریں اور اسمبلیوں کو عوامی خدمت کے لئے کارآمد بنائیں۔
سرگرمیاں