وزیراعظم کے خطاب پر بھارت کا ردعمل

وزیراعظم کے خطاب پر بھارت کا ردعمل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم نواز شریف کا خطاب بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھایا۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے جمعرات کو جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے نواز شریف کا پیش کردہ 4 نکاتی امن منصوبہ یکسرمسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں 4 نکات کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ایک ہی نکتہ کافی ہے کہ دہشت گردی چھوڑیئے، بیٹھئے اور مذاکرات کیجئے، یعنی اگر پاکستان دہشت گردی چھوڑ دے تو وہ مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ صرف دہشت گردی کے ایجنڈے پرہی گفتگو کریں گے۔ وہ اس بات پر ڈٹی رہیں کہ پاکستان سے مذاکرات صرف بھارت کی شرائط اورایجنڈے کے مطابق ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت گزشتہ 25 سال سے دہشت گردی کا سامنا کررہا ہے، دہشت گرد بھارت کو غیرمستحکم کرنا چاہتے ہیں۔انہیں سرحد پار دہشت گردی کا سامنا ہے اوربھارت نے تو امن کے لئے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔
ایک دن قبل بدھ کو وزیراعظم نواز شریف نے جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران عالمی برادری کے سامنے بھارتی جارحیت کی داستان کھول کر رکھ دی تھی، ان کا کہنا تھا کہ ہمارا اولین ہمسایہ ہی ہمارے مُلک میں امن قائم نہیں ہونے دیتا ساتھ ہی انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان تنازعات حل کرنے کا ایک راستہ بھی بتا دیا، اس چار نکاتی فارمولے کے مطابق لائن آف کنٹرول پر مکمل جنگ بندی کے لئے 2003ء کے معاہدے کا احترام کیا جائے، پاکستان اور بھارت کسی صورت ایک دوسرے کو طاقت کے استعمال کی دھمکی نہ دیں، بھارت کشمیر سے فوج کے انخلا کے اقدامات یقینی بنائے اور دونوں مُلک غیر مشروط طور پر سیاچن گلیشیر سے فوجیں ہٹا لیں۔ وزیراعظم کی تقریر سنتے ہی بھارت میں واویلا مچ گیا، ان کے مبصرین غم و غصے میں بھر گئے۔ بھارتی وزارت داخلہ کے ترجمان نے فوراً ٹویٹ کے ذریعے اپنا ردعمل ظاہر کر دیا، جس میں انہوں نے پاکستان کو دہشت گردی کابنیادی سپانسر قرار دے دیا اور کہا کہ وہ پاکستان کے زیر تسلط کشمیر کی جلد از جلد رہائی چاہتے ہیں۔بڑے اچنبھے کی بات ہے کہ ظلم و ستم تو بھارتی کشمیر میں جاری ہے،مقبوضہ کشمیر کے عوام کو پاکستانی جھنڈا بھی لہرانے کی اجازت نہیں ہے، کشمیریوں کو حقِ تعلیم سے بھی محروم کیا جا رہا ہے اور آزاد پاکستانی کشمیر کو ہونا چاہئے جو پہلے ہی آزاد اور اسم بامسمّیٰ ہے، وہاں کشمیریوں کی اپنی حکومت ہے۔ اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل مندوب نے اس تقریر کاجواب دیتے ہوئے کہاکہ پاکستان نے ایک دفعہ پھرجنرل اسمبلی کے پلیٹ فارم کا غلط استعمال کیا، حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور اس خطے کی جھوٹی تصویر دُنیا کو دکھائی۔ گزشتہ برس بھی جب نواز شریف نے جنرل اسمبلی میں کشمیر کی بات کی تھی تو بھارت نے ایسے ہی ردعمل کا اظہار کیا تھا۔
بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی طرف سے ’صاف جواب ‘کے بعد پاکستان نے بھارتی مداخلت کے ثبوت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو پیش کر دیئے۔پاکستان کی اقوام متحدہ میں مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے جمعرات کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون سے ملاقات کی اورپاکستان میں دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت انہیں فراہم کئے۔ وزیراعظم کے مشیر خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز کے مطابق ڈوزیئر میں بلوچستان، فاٹا اور کراچی میں بھارتی مداخلت کے مصدقہ ثبوت ہیں۔امید کی جا رہی ہے کہ بان کی مون ان ڈوزےئر کو اپنی رپورٹ کا حصہ بنائیں گے اور سلامتی کونسل کے مستقل اراکین سے بھی اس بارے میں بات کریں گے۔اگر نیویارک میں نواز شریف اور نریندر مودی کی ملاقات ہو جاتی، تو یہ ثبوت ان ہی کے حوالے کئے جاتے،چونکہ ملاقات نہیں ہوئی، اِس لئے ثبوت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے حوالے کئے گئے۔بہتر تو یہ ہوتا کہ بھارتی حکام وزیراعظم کے دیئے گئے امن فارمولے پر غور و خوض کرتے، مل بیٹھنے کی بات کرتے اور اگر ان کے پاس اس سے بہتر کوئی تجویز تھی تو وہ پیش کر دیتے،لیکن انہوں نے تو اس کی زحمت ہی نہیں کی اور الزام تراشی کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا۔دونوں ممالک کے وزرائے اعظم جب اوفا میں ملے تھے تو انہوں نے مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنے پر اتفاق کیا تھا اور تمام حل طلب امور بشمول کشمیر زیر بحث لانے کا عندیہ بھی دیا تھا۔لیکن جب قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات کا وقت آیا تو بھارت ڈٹ گیا کہ مسئلہ کشمیر ایجنڈے میں شامل نہیں ہو گا، بلکہ صرف دہشت گردی پر بات ہو گی جس کی وجہ سے چند گھنٹے پہلے مذاکرات منسوخ کرنے پڑے۔بھارت پاکستان پر دہشت گردی کا الزام تو عائد کرتا ہے، لیکن آج تک اس سے متعلق کوئی بھی ثبوت فراہم نہیں کرسکا، جبب بھی بھارت نے اپنے مُلک میں ہونے والی دہشت گردی کا ملبہ پاکستان پر ڈالا ہے اس کو مُنہ کی کھانی پڑی ہے۔ لیکن پھر بھی وہ اپنی رو ش بدلنے کو تیار نہیں ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی تو خود تقسیم پاکستان میں اپنے مُلک کے کردار کا برملا اعتراف کر چکے ہیں، ان کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں گجرات میں جس طرح مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی اس سے دُنیا واقف ہے۔ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت موجود ہیں، بھارت افغانستان کے ذریعے پاکستان میں بدامنی پھیلا رہا ہے، بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے شواہد بھی ہیں۔لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر اشتعال انگیز ی کر کے2003ء میں ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی بھی بھارت کر رہا ہے۔

جنرل راحیل شریف دورۂ امریکہ کے دوران یہ شواہد امریکی حکام کو بھی دے کر آئے تھے پھربھی اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مترادف بھارت پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔یہی نہیں بھارتی وزیر دفاع منوہر پیکر نے تو کھلے عام پاکستان کو دھمکی بھی دے ڈالی تھی کہ کانٹا کانٹے سے ہی نکالا جائے گا، یعنی وہ دہشت گردی کا جواب دہشت گردی سے ہی دیں گے۔کسی بھی منتخب حکومت کے نمائندے کو ایسی گفتگو قطعاً زیب نہیں دیتی، بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج بھی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی میں پیش پیش رہتی ہیں۔انہیں تو پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ بھی ایک آنکھ نہیں بھایا تھا، بلکہ نریندر مودی نے تو چینی صدر کومنصوبہ ختم کرنے پر منانے کا ہر حربہ استعمال کر لیا تھا، مگر چینی صدر کے روبرو ان کی دال نہ گلی۔اب پاکستان نے ثبوت اقوام متحدہ کے حوالے تو کر دیئے ہیں،اسے اب اِس سلسلے میں جلد از جلد اقدامات کرنے چاہئیں اور بھارت کو بھی ٹھنڈے دماغ سے غور کرنا چاہئے۔یہ درست ہے کہ پاکستان کو بھارت سے شکایات ہیں،تو بھارت کو بھی اپنے تئیں پاکستان سے شکوے ہیں تو ان کو دور کئے جانے کا اہتمام کیا جانا چاہئے۔پاکستان اور بھارت ہمسایہ مُلک ہیں، دوست تو بدلے جا سکتے ہیں، لیکن ہمسائے بدلنا ہرگز ممکن نہیں ہے ،پاکستان قیام لڑائی جھگڑا بڑھانے کے لئے نہیں،بلکہ مسائل ختم کرنے کے لئے عمل میں آیا تھا۔ دونوں ممالک گلے دور کرنے کے لئے ایک میز پر بیٹھ جائیں، بات چیت کریں اور کوئی درمیانی راستہ اختیار کریں۔ہٹ دھرمی اور ضد سے توکچھ حاصل نہیں ہو گا۔

مزید :

اداریہ -