’’پیغام رساں کو قتل کر دو‘‘

’’پیغام رساں کو قتل کر دو‘‘
’’پیغام رساں کو قتل کر دو‘‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دُنیا بھر میں اہم ممالک کے انٹیلی جنس اداروں کے کردار اور ان کی ریاستوں کے لئے ان اداروں کی اہمیت مسلمہ ہے۔ ریاستوں یا ان کے حکمرانوں کی جانب سے جاسوسی یا انٹیلی جنس کا نظام کو ئی جدید تصور بھی نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ قرون وسطیٰ میں بھی بڑی بڑی سلطنتیں اپنے استحکام کے لئے جا سوسوں پر باقاعدہ انحصار کیا کرتی تھیں، بلکہ قرون وسطیٰ سے پہلے قدیم دور میں بھی کسی سلطنت کو اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لئے انٹیلی جنس کی ضرورت رہتی تھی، اِس حوالے سے قدیم ہند کے مفکر کوٹلیہ چانکیہ کی کتاب ’’ارتھ شاستر‘‘ کی مثال ہمارے سامنے ہے اس کتاب میں چانکیہ نے جاسوسی نظام کو وضع کرنے کے طریقے بھی بتائے ہیں۔جدید دور میں ٹیکنالوجی کی ترقی نے جہاں معیشت ، سیاست ، سماجی رویوں پر اپنے اثرات مرتب کئے تو وہیں دوسری طرف ریاست اور ریاستی اداروں پر بھی ٹیکنالوجی اثر انداز ہوئی۔ ایسے میں جاسوسی کے اداروں کو بھی باقاعدہ طور پر فعال کیا گیا، بلکہ جدید دور میں انٹیلی جنس اداروں پر یہ الزاما ت بھی لگتے ہیں کہ ان کو ریاستوں نے اتنے زیادہ وسائل مہیا کر دیئے کہ بعض اوقات یہ انٹیلی جنس ادارے ریاست کے اندر ریاست کا کردار ادا کرنے لگتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر کی انٹیلی جنس ایجنسیوں ایبور،ایس ایس اور گسٹاپوکے نام کا پوری دُنیا میں ڈنکا بجا۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے ساتھ ہی جب دنیا سرد جنگ کے دور میں داخل ہوئی تو سوویت یونین کی انٹیلی جنس ایجنسیوں این کے جی بی، چیکا، ایم جی بی، اور بعد میں کے جی بی کی شہرت ہوئی ۔


سرد جنگ کے دور میں جس بھی مُلک میں کمیونسٹ تحریکیں فعال تھیں ان کے بارے میں یہی تصور کیا جاتا تھا کہ ان تحرکیوں کی معاونت سوویت ایجنسیاں کر رہی ہیں۔اِسی طرح امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد باقاعدہ طور پر سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) قائم کی۔سرد جنگ کے دور میں ’’آزاد دُنیا‘‘ کے علمبردار امریکہ اور مغربی یورپی ممالک کی جانب سے یہ موقف تواتر کے ساتھ اپنایا جاتا رہا کہ سوویت یونین، چین اور دیگر غیر جمہوری ممالک کی ایجنسیاں اپنے افعال کے لئے چونکہ جوابدہی کے تصور سے عاری ہیں، اِس لئے یہ ایجنسیاں اپنے عوام کے مفادات کو بھی اپنی پالیسیوں پر قربان کر دیتی ہیں، جبکہ اس کے بر خلاف امریکہ چونکہ جمہوری نظام کا حامل مُلک ہے،اس لئے اس کی انٹیلی جنس ایجنسی نہ صرف جمہوری اداروں کو جوابدہ ہے،بلکہ یہ اپنی پالیسیوں کی تشکیل میں بھی امریکی عوام کے مفادات کو قربان نہیں کرتیں۔ امریکی حکمران طبقات کے اس دعویٰ کی صداقت کو جھٹلانا کسی بھی ایسے شخص کے لئے بہت آسان ہے جس نے امریکی سی آئی اے کے آپریشنز اور پالیسیوں پر تھوڑی بہت نظر رکھی ہو۔ آمرانہ نظام کے حامل ممالک کی ایجنسیوں کی ہی طرح سی آئی اے نے بھی اپنی تاریخ میں بعض ایسی پالیسیاں اپنائیں یا بعض ایسے آپریشنز کئے جن سے براہ راست نہ صرف امریکی عوام کے مفادات پر کاری ضرب پڑی، بلکہ امریکی عوام کو ان پالیسیوں کا خمیا زہ بھی بھگتنا پڑا۔


سی آئی اے کی جانب سے اس نو عیت کے تمام آپریشنز کا احاطہ ایک کالم میں کرنا ممکن نہیں تاہم سی آئی اے کی ذہنیت کو سمجھنے کے لئے یہاں ایک ایسی کتاب کو مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جس کا چوتھا ایڈیشن ابھی حال ہی میں سامنے آیا ہے۔ اس کتاب کا نام ہےKill the Messenger: How the CIA's Crack-cocaine Controversy Destroyed Journalist Gary Webb اس کتاب کونک سکونے تصنیف کیا ہے۔یہ کتاب دراصل امریکی ریاست کیلی فورنیا سے شائع ہونے والے ایک اخبار San Jose Mercury Newsکے صحا فی گیری ویب کی سوانح عمری اور خاص طور پر اس کی ان تحقیقاتی رپورٹس پر مشتمل ہے جن میں اس نے تحقیقات کے بعد ایسی رپورٹس لکھیں، جن میں ثابت کیا گیا کہ سی آئی اے نے 1980ء کی دہائی میں نکارا گوا میں Sandinista Junta of National Reconstruction کی حکومت کے خلاف کانٹرا (حکومت مخالف مسلح گروپس) کو عسکری امداد فراہم کرنے کے لئے کیا پالیسی اختیار کی۔ سینڈنسٹا حکومت براعظم جنوبی امریکہ کے وسطی علاقوں میں سوشلسٹ قوتوں کی حمایت کر تی تھی ،ظاہر ہے ایسی حکومت کے خلاف لڑنے والے گروپس امریکہ کے منظورِ نظر ٹھہرے۔ ان کو معاونت فراہم کرنے کے لئے سی آئی اے نے ’’کانٹراس ‘‘کے لیڈروں کو 6سال تک کوکین اور دوسری منشیات امریکہ بھیجنے کی اجازت دی یہ کو کین ڈرگ ڈ یلرز کی مدد سے لاس اینجلس سمیت امریکہ کے بڑے شہروں میں بکتی رہی اور منشیات سے حاصل ہونے والی کروڑوں ڈالرز کی رقم سے سے ’’نکارا گوا‘‘ میں حکومت مخالف مسلح گروپس کو اسلحہ سمیت عسکری امداد فراہم کی جاتی تھی ۔

گیری ویب نے سی آئی اے کے اندر اپنے رسوخ استعمال کر کے اور ’’نکارا گوا‘‘ کا دورہ کرنے کے بعد یہ دیکھا کہ کیسے جہازوں میں بھر بھر کر منشیات کو امریکہ میں بھیجا جا رہا ہے اور پھر انہی جہازوں میں باغیوں کے لئے اسلحہ اور ڈالرز سے بھرے ہوئے صندوق واپس ’’نکارا گوا ‘‘ آ رہے ہیں۔ اخبار San Jose Mercury Newsمیں ایسی تحقیقی رپورٹس شائع ہو نے کے بعد گیری ویب پر سی آئی اے کی جانب سے عرصہ حیات تنگ ہونے لگا۔اس کا معاشی قتل کر نے کے ساتھ ساتھ اس کے خاندان کے لئے بھی زندگی گزارنا دوبھر کر دیا گیا، مگر گیری ویب نے مزید جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحقیقاتی رپورٹس کو 1998ء میں ایک کتاب Dark Allianceکی صورت میں بھی چھاپ دیا۔اس نے تحقیق کے ساتھ ثابت کیا کہ کیسے نیشنل سیکیورٹی کے نام پر سی آئی اے اپنے ہی عوام اور نوجوانوں کی رگو ں میں منشیات کا زہر انڈیل کر بھاری رقم بنا کر ’’نکارا گوا‘‘ کے باغیوں کی مدد کر رہی ہے۔ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی سی آئی اے کی جانب سے گیری ویب پر تو عرصہ حیا ت تنگ کر دیا گیا، مگر امریکہ کے بڑے شہروں میں سی آئی اے کے اس انتہائی شرمناک کردار پر مظاہرے بھی ہوئے ۔ ان منشیات کا بڑا حصہ چونکہ لاس اینجلس کے ایسے علاقوں میں بیچا گیا تھا جہاں پر سیاہ فام افراد کی اکثریت تھی، اِس لئے سیاہ فام افراد کی جانب سے زیادہ شدید مظاہرے اور احتجا ج کئے گئے کہ سی آئی اے ’’نیشنل سیکیورٹی‘‘ کے نام پر ان کے بچوں میں منشیات کا زہر پھیلا رہی ہے اِس سارے معاملے پر ڈیموکریٹ سینیٹر جان کیری کی سربراہی میں بننے والی کانگرس کی ایک کمیٹی نے بھی گیری ویب کے موقف کو بالکل درست قرار دیتے ہوئے فیصلہ دیا کہ ریگن دور میں سی آئی اے نے ’’نکارا گوا‘‘ کے باغیوں کی مدد کر نے کے لئے ڈرگ ڈیلرز کو منشیات امریکہ لا کر بیچنے اور پھر اس کا پیسہ باغیوں کو دینے میں پوری طرح مدد فراہم کی۔


اگرچہ گیری ویب کو اس سچائی کو سامنے لانے کی پاداش میں بہت سے مسائل سے دوچار ہونا پڑا اور 2004ء میں وہ اپنے کمرے میں مردہ پایا گیا۔اس کی موت کو خود کشی قرار دیا گیا، مگر امریکہ کے غیرجانب دار صحافیوں نے گیری ویب کی موت کو قتل قرار دیا۔ نک سکو نے2006ء میں Kill the Messenger نام کی کتاب لکھ کر گیری ویب کی پوری جدوجہد کو محفوظ کر دیا۔اس کتاب کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ اب تک اس کے تین ایڈیشنز تو سامنے آ چکے ہیں اور چوتھا ایڈیشن بھی حال ہی میں سامنے آ چکا ہے۔ گزشتہ سال نک سکو کی اِس کتاب پر فلم بھی منظر عام پر آ چکی ہے، جس کا نا م بھی Kill the Messenger ہے۔ڈاریکٹر مائیکل کاؤسٹاکی اس فلم میں جیریمی رنرنے گیری ویب کا کر دار بڑی خوبصورتی سے نبھایا ہے، اور سب سے بڑھ کر اس فلم میں گیری ویب کی جدوجہد کہ کیسے اس نے شدید دباؤ کے باوجود یہ بھانڈا پھوڑا کہ سی آئی اے اپنی پالیسیوں کے عوض امریکہ کی نوجوان نسل کو منشیات سے ناکارہ بنانے سے بھی نہیں چوکی۔شاہد یہ اِسی فلم کی کامیابی ہے کہ فلم کے رہلیز ہونے کے ساتھ ہی اس کتاب کا چوتھا ایڈیشن بھی سامنے آ رہا ہے۔جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ سی آئی اے کی ایسی سینکڑوں پالیسیوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے کہ جن سے خود امریکی عوام کو نقصانات اُٹھانے پڑے۔ منشیات سے حاصل ہو نے والی رقم سے اپنے حامیوں کی عسکری امداد کی مثالیں بھی موجود ہیں جیسے افغانستان میں 1980ء کی دہائی میں سوویت جنگ کے دوران امریکہ نے افغانستان میں پوست کے ذریعے بنائی جانے والی ہیروئن کا پیسہ بھی استعمال کرنے کی پشت پناہی کی، جس سے پاکستان سمیت خطے کے دوسرے ممالک میں منشیات کی لعنت پھیل گئی، مگر یہ امر واقعی باعث حیرت ہے کہ سی آئی اے اپنے سامراجی مقاصد کے لئے دُنیا کے دوسرے ممالک ہی نہیں، بلکہ خود امریکی عوام کو بھی منشیات کا زہر پھلانے سے نہیں چوکتی،جو افراد اس حیرت کو خود محسوس کرنا چاہیں انہیں چاہئے کہ وہ Kill the messanger کتاب کا مطالعہ کریں یا کم از کم فلم ہی دیکھ لیں۔

مزید :

کالم -