قندوز میں طالبان کا قبضہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی آپسی لڑائی کا نتیجہ ہے: حامد میر
اسلام آباد (ویب ڈیسک) قندوز اور شمالی افغانستان کے دیگر حصوں میں پائی جانے والی افراتفری نہ صرف تاجکستان اور ازبکستان بلکہ پاکستان اور چین کیلئے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ افغان طالبان نے اپنی لڑائی کا گھیرا قندوز سے آگے تک پھیلا دیا ہے اور بدخشاں صوبے کے وردوج ضلع پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ یہ صوبہ واخان راہداری سے جڑا ہے۔ افغانستان کا یہ شمال مشرقی حصہ چین تک پھیلا ہوا ہے اور تاجکستان کو پاکستان سے الگ کرتا ہے۔ طالبان نے 28 ستمبر کو قندوز پر قبضہ کیا لیکن نیٹو نے طالبان کو شہر کے مرکز سے چھڑا لیا۔ مقامی سیکورٹی فورسز میں اتحاد کی کمی کی وجہ سے قندوز شہر میں لڑائی ابھی بھی جاری ہے۔ طالبان نے 10 بینک لوٹنے کے بعد جمعہ کو قندوز شہر کے کچھ حصے خالی کر دیئے۔ مقامی اخبار جنگ کے مطابق انہوں نے ضلع امام صاحب اور قلعہ زل ضلعہ پر بھی قبضہ کر لیا۔ وہ تخار صوبہ میں بھی داخل ہوگئے اور ضلع خواجہ گھر پر بھی قبضہ کرلیا۔ افغان سیکورٹی فورسز سے چھینی ہوئی گاڑیاں استعمال کرتے ہوئے طالبان ایک اور شمالی صوبے بغلان میں داخل ہوگئے جہاں انہوں نے ضلع تالہ و برفک پر قبضہ کر لیا۔ اس ضلع میں اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ طالبان نے شمالی افغانستان کے متعدد اضلاع پر اسلئے قبضہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے کہ مقامی آبادی میں وہ بہت مقبول ہیں، بلکہ وہ افغان متحدہ حکومت میں جاری اندرونی لڑائیوں کی وجہ سے ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ حکومت اب متحد نہیں رہی۔ افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے حال ہی میں پاکستان پر ملک میں بڑھتے عدم استحکام کا الزام عائد کیا تھا لیکن شمالی افغانستان میں زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو کچھ اور ہی تصویر نظر آتی ہے۔ آج کل افغان چیف ایگزیکٹو اور افغان صدر پاکستان کے خلاف تو بول رہے ہیں لیکن وہ 28 ستمبر کو قندوز پر ہونے والے قبضے کے حقائق سامنے نہیں لا رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صدر اشرف غنی نے انتہائی قابل رسک مینجمنٹ کے ماہر عمر صافی کو قندوز کا گزشتہ سال دسمبر میں گورنر مقرر کیا تھا لیکن کابل سے قندوز تک چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے اتحادیوں نے ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔ عمر صافی کئی برسوں تک اقوام متحدہ کے ساتھ سیکورٹی افسر کے طور پر کام کرتے رہے ہیں اور آخر میں انہوں نے کابل میں اپنی سیکورٹی کمپنی کھول لی۔ انہوں نے صدارتی انتخاب میں ڈاکٹر اشرف غنی کی حمایت کی اور عبداللہ عبداللہ کی مخالفت کی۔ اشرف غنی نے عبداللہ عبداللہ سے مشورہ کیے بغیر انہیں قندوز کا گورنر مقرر کیا۔ صدر اشرف غنی نے متعدد مرتبہ ویڈیو کانفرنسوں کے ذریعے گورنر قندوز اور صوبے کے عہدید ار و ں سے خطاب کیا۔ انہوں نے ایک ساتھی پشتون کے ذریعے صوبے کے معاملات چلانے کی کوشش کی جو مقامی نہیں تھا۔ عمر صافی نے کئی مرتبہ اشرف غنی سے تحریری طور پر شکایات کی کہ این ڈی ایس اور افغان وزارت داخلہ قندوز کی صوبائی پولیس میں جرائم پیشہ عناصر کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ وہ نہ صرف ایسے عناصر کو برطرف کرنا چاہتے تھے بلکہ انہیں گرفتار کرنے پر بھی اصرار کیا۔ انہوں نے کابل میں اعلیٰ عہدیداروں کو آگاہ کیا کہ غیر پشتون مقامی افراد کی بڑی تعداد طالبان میں شمولیت اختیار کر رہی ہے اور اس کی وجہ صرف ہتھیاروں کا حصول ہے کیونکہ وہ اپنے اہل خانہ کی مقامی پولیس سے حفاظت کرنا چاہتے ہیں، مقامی پولیس معصوم شہریوں کے خلاف جرائم میں ملوث ہے۔ لیکن، صدر اشرف غنی نے ان کے تحریری انتباہ کو نظر انداز کردیا۔ چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کی پارٹی جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے مقامی تاجک ملیشیا کمانڈر میر عالم قندوز کے پشتون گورنر کیلئے ایک بڑا چیلنج بن گئے۔ میر عالم 2012ءمیں لوئے کنم گاﺅں میں پشتونوں کے قتل عام میں ملوث تھے۔ ان کی ملیشیا نے حال ہی میں حاجی عزیز کی زیر قیادت ایک اور غیر پشتون ملیشیا سے لڑائی کی تھی۔ یہ دونوں ملیشیا صوبے کے مختلف حصوں میں پولیس کا کام انجام دینے کی ذمہ دار تھیں لیکن پولیس کا کام کرنے کی بجائے منشیات کی اسمگلنگ جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہوگئیں۔ گورنر صافی نے متعدد مرتبہ کابل میں حکومتی عہد یدا روں کو پولیس کی وردی میں ملبوس ان جرائم پیشہ افراد کیخلاف شکایت کی لیکن ان کی بات کسی نے نہ سنی۔ بالآخر انہوں نے ایک مقامی خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو دیا اور بتایا کہ ان دونوں ملیشیا سے تعلق رکھنے والے 7000 افراد مجرم ہیں۔ میر عالم گورنر صافی سے ناراض ہوگئے۔ انہوں نے صافی کو دھمکی دی کہ وہ صوبہ چھوڑ کر چلے جائیں اور خوفزدہ گورنر اپنے محل سے نکل گئے۔ اس صورتحا ل کی وجہ سے قندوز شہر میں صافی کے متعین کردہ مقامی پولیس والوں اور عہدیداروں کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ انہوں نے اپنی چو کیا ں بھی خالی کر دیں اور اس انتظامی ناکامی کا فائدہ آخر کار طالبان نے اٹھایا۔ میں نے کابل اور قندوز میں کئی لوگوں سے بات کی اور ان کا کہنا ہے کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے لوگوں کی آپسی لڑائی کی وجہ سے ملک کے شمالی حصے میں طالبان کا بہت بڑا فائدہ ہوا ہے۔ افغانستان حکومت نے ماضی میں بڑھتے حملوں کی وجہ سے ملک کے مشرقی، جنوبی اور مغربی حصوں میں اضافی ریگولر فورسز تعینات کیں۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران شمالی افغانستان نسبتاً پرامن تھا اور یہی وجہ تھی کہ تاجکستان، ازبکستان اور چین کی سرحدوں سے ملنے والے اس صوبے کا کنٹرول مقامی ملیشیا کے حوالے کیا گیا تھا لیکن یہ پالیسی ناکام ہوگئی۔ طالبان مذہب کے نام پر یہاں غیر پشتون مقامی لوگوں کو بھرتی کر رہے ہیں اور ”عشر“ کے نام پر مقامی کسانوں سے جبراً ٹیکس بھی وصول کر رہے ہیں لیکن وہ سرکاری حمایت یافتہ مقامی ملیشیا کے مقامی افراد کے خلاف جرائم سے انہیں بچانے کا وعدہ بھی کر رہے ہیں۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ طالبان اور مقامی پولیس میں کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔ عدم تحفظ اور افراتفری کی صورتحال نے قندوز سے بدخشاں تک ہزاروں لوگوں کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔