پوری کائنات کے لئے امن کا پیغام

پوری کائنات کے لئے امن کا پیغام
پوری کائنات کے لئے امن کا پیغام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


3؍ جون 1967ء کا دن کرہ ارض پر رہنے والوں کے لئے اس لئے اہم قرار دیا جائے گا کہ اس روز دنیا کی اقوام میں امن قائم کرنے کے لئے ہی نہیں ، دوسرے سیاروں کی مخلوقات کے ساتھ بھی امن و سلامتی سے رہنے او ر جنگ کی بجائے تعاون بڑھانے کی طرف ایک انتہائی اہم اقدام کینیڈا کی طرف سے کیا گیا۔ اس روز کینیڈا کے وزیر برائے قومی دفاع پال ہیلیئربذریعہ ہیلی کاپٹر صوبہ البرٹا کے قصبہ سینٹ پال میں پہنچے ، جہاں انہوں نے دوسرے سیاروں سے آنے والی اڑن طشتریوں کے لئے لینڈنگ یپڈ کا افتتاح کیا۔ یہ لینڈنگ پیڈ( ائیر پورٹ کا رن وے) کینیڈا کی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر انسان کی طرف سے جنگ سے فری زون کی علامت کے طور پر تعمیر کیا گیا۔ یہاں نصب کئے گئے یادگاری پتھر پر یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیں:’’خلائی طشتریوں کے لینڈنگ پیڈ کے طور پر اس علاقے کو سینٹ پال ٹاؤن کی طرف سے سارے عالم کے لئے مخصوص کیا گیا ہے۔یہ ہمارے اس یقین و اعتماد کی علامت ہے کہ انسان کرہ ارض سے باہر کی کائنات کو اپنی قومی جنگوں اور چپقلش سے پاک رکھے گا، اور یہ کہ مستقبل میں تمام سیاروں کی مخلوقات کے لئے خلاء کا سفر محفوظ رہے گا۔ کرہ ارض سے باہر جانے یا باہر سے کرہ ارض پر آنے والوں کا اس لینڈنگ پیڈ اور سینٹ پال کے قصبے میں خیر مقدم کیا جاتا ہے‘‘۔
اس سے قبل کینیڈا کے وزیر دفاع مسٹر پال ہیلیئر ستمبر2006ء میں یہ بیان دے کر دنیا بھر کو حیران کرچکے تھے کہ انہیں پورا یقین ہے کہ دوسرے سیاروں سے اڑن طشتریاں زمین پر آ رہی ہیں۔ 25 ؍ستمبر 2005ء کو انہیں ٹورانٹو کی ایک کانفرنس میں مدعو کیا گیاجہاں انہوں نے حاضرین کو بتایا کہ ایک رات انہوں نے اپنی بیگم اور چند دوستوں کے ساتھ اڑن طشتری کا خود مشاہدہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے اس مشاہدے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے رہے انہوں نے اس مشاہدے کے متعلق اپنے ذہن کو کھلا رکھا، تاہم انہوں نے فروری 2005ء میں اے بی سی ٹیلی وژن کے پیٹر جننگزکا اڑن طشتریوں کے متعلق خصوصی پروگرام دیکھ کر اس مسئلے کو زیادہ سنجیدگی سے لینا شروع کیا ۔ انہوں نے یہ پروگرام دیکھ کر کرنل فلپ جے کورسو کی کتاب۔۔۔The Day After Rosewell ۔۔۔ پڑھی جو کہ روز ویل کے اڑن طشتریوں کے واقعہ سے متعلق ہے۔ یہ کتاب اس سے قبل کچھ عرصہ سے ان کی ذاتی لائبریری میں موجود تھی۔ کتاب کے مطالعہ کے بعد انہوں نے ایک ریٹائرڈ امریکی جنرل سے بات کی جس نے اس کتاب میں دی گئی تمام باتوں کے حقیقی ہونے کی تصدیق کی۔
ہیلیئر کو دنیا کے چند باکمال انسانوں میں سے جانا جاتا ہے وہ کینیڈا کے دو سال تک وزیر ٹرانسپورٹ اور چار سال تک قومی دفاع کے وزیر رہے۔وہ ایک انجینئر، ماہر اقتصادیات اور فزیالوجسٹ بھی ہیں۔ انہوں نے نومبر 2005ء میں امریکی صدر بش پر الزام عائد کیا کہ وہ سٹار وارز کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ امریکی فوج ایسے ہتھیار تیار کررہی ہے جو خلائی مخلوق کے خلاف استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ایسا کرنے سے ہم خود کو کسی وارننگ کے بغیر سٹار وارز میں دھکیل رہے ہیں۔ اس تنقید کے بعد بش انتظامیہ بالآخر چاند پر ایک فارورڈ اڈہ تعمیر کرنے پر رضامند ہوگئی جہاں سے خلا سے آنے جانے والی مخلوقات اور ان کے سپیس شپس پر نظر رکھی جاسکے گی اور انہیں شوٹ کرنا بھی ممکن ہوگا۔ الاسکا کے بہت بڑے تحقیقی مرکز HARRP میں انسانی ذہن اورموسموں پر کنٹرول کرنے اور دنیا بھر کی کمیونیکیشن فریز کر دینے کی تحقیق پر تنقید کرنے والے مشہور ڈاکٹر نک بھی یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ امریکی حکومت کے پاس سٹار وارز کے لئے ایک زمینی ہتھیار موجود ہے جو ایلاسکا کی بش کاؤنٹی میں ٹیسٹ کیا جارہا ہے۔
2007ء میں کینیڈا کے اخبار ’’اوٹاوہ سٹیزن‘‘ نے پال ہیلیئیر کا یہ بیان شائع کیا کہ دنیا کی حکومتوں کو خلائی مخلوق سے حاصل کردہ ایسی ٹیکنالوجی کا راز فاش کردینا چاہیے جس کے استعمال سے ہم موسموں کی تبدیلی کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں ، انہوں نے اپنے بیان میں کہا ’’ میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ (خلائی مخلوق کی) کونسی ٹیکنالوجی ہے جو ہمیں ایک نسل کی عمر کے دوران دھواں دینے والے ایندھن سے نجات دلا سکتی ہے۔۔۔ یہی ایک طریقہ ہے جس سے ہم اپنے کرہ ارض کو بچا سکتے ہیں۔۔۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حکومتوں کو مجبور کریں کہ وہ اس (خلائی مخلوق) کے متعلق وہ سب کچھ واضح طور پر بتائیں جو وہ جانتی ہیں۔ ہماری زمین کو بچانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنے علم پر جلد از جلد عمل پیرا ہوں۔ اس کے علاوہ پال ہیلئیر نے 2014ء میں روسی اخبار ’’رشیا ٹوڈے‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ دوسرے سیاروں کی مخلوقات میں سے کم از کم چار ایسی ہیں جو گذشتہ ہزاروں برس سے ہماری زمین پر آ جارہی ہیں۔ ان سے اکثر دوسرے نظام ہائے شمسی سے ہمارے ہاں آتی ہیں۔ ان میں سے بعض چاند، مریخ، مشتری اور وینس پر رہنے والی بھی ہیں۔
ان مخلوقات کا خیال ہے کہ ہم لوگ اپنے اس کرہ ارض کی بہتر نگہداشت نہیں کررہے۔ پال ہیلیئر نے مئی 2013ء کو اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ عشروں پہلے اپنی زمین پر آنے والی غیر ملکی مخلوق کے سلسلے میں ہم حیران تھے کہ ان کا کیا کریں۔ان کی وجہ سے ہمارے کئی جہاز تباہ ہوئے لیکن ہمیںیہ بھی نہیں معلوم تھا کہ ان کا جواب کیسے دیا جائے۔ ان کی اڑن طشتریاں ہمارے جہازوں سے گریز کرنے کو تیار نہیں تھیں۔ میں نے وزیر کی حیثیت سے دفاع کے ذمہ داروں سے اڑن طشتریوں کے متعلق بات کی تو ان کا جواب تھا کہ ان کی توجہ اپنے جہازوں سے دوسری طرف رکھی جانی چاہیے ۔ کشش اور وقت کا فرق پیدا کیا جانا چاہیے ۔ یہ اڑن طشتریاں بظاہر زیادہ مضبوط نہیں تھیں ، ان پر وزن بھی زیادہ لایا جارہا تھا جسے وہ زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرسکتی تھیں۔ تاہم دوسرے سیاروں سے آنے والی مخلوق سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہم سے بہت آگے ہے۔
امریکیوں کو چاہیے کہ وہ خلائی حملے سے کرہ ارض کو محفوظ کرنے کے لئے ٹیکنالوجی حاصل کریں۔ ہمیں اڑن طشتریوں میں اپنی زمین پر آنے والی مخلوق سے بات چیت کرکے اپنی حدود کا تعین کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں کچھ کیا جانا ضروری ہے۔ تاہم امریکہ کی سرکاری اور ظاہری پالیسی یہ ہے کہ اڑن طشتریوں کا کوئی وجود نہیں۔ اس سے قبل کہ اس کام میں بہت تاخیر ہوجائے ہمیں اخفاء کے پردے ہٹا دینے چاہئیں۔یہ مضحکہ خیز بات ہے کہ امریکہ افغانستان اور عراق میں بہت مہنگی جنگ لڑ رہا ہے اور اس سلسلے میں کچھ نہیں کررہا۔ ہزاروں ملین ڈالر ایسے کاموں پر خرچ کئے جارہے ہیں جن کی افواج کے کمانڈرانچیف کو بھی خبر نہیں۔ امریکہ کے پڑھے لکھے اور با ہوش عوام کے اذہان میں یہ سوال موجود ہے کہ آخر ساٹھ سال کی ان ہیجان خیز کارروائیوں سے امریکہ کو کیا حاصل ہوا ہے؟
جیسا کہ کہا جاتا ہے ،کیا ان اڑن طشتریوں کے مقابلے میں امریکہ نے کوئی اڑن طشتریاں تیار کرلی ہیں ؟ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کلین انرجی ریسورسز کے سلسلے میں امریکہ نے کیا پیش رفت کی ہے۔ دھوئیں اور زہریلی گیسوں سے کرہ ارض کو محفوظ کرنا سب سے اہم کام ہے۔ لیکن اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ اگر کسی کے پاس اس سوال کا جواب ہے تو وہ امریکہ کے صدر یا سیکرٹری ڈیفنس نہیں ہیں۔ صدر کلنٹن سے ایک موقع پر سوال کیا گیا تھا کہ وہ اس راز سے پردہ کیوں نہیں اٹھاتے؟ انہوں نے کہا تھا کہ حکومت کے اندر حکومت موجود ہے جو معاملات کو کنٹرول کررہی ہے، جنہیں میں کنٹرول نہیں کررہا۔ آخر امریکی کمانڈرانچیف جس کی نیوکلیئر بٹن پر انگلیاں ہیں ،اسے بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ملک میں کیا ہورہا ہے۔ ٹیکس دینے والے امریکی عوام کا بھی حق ہے کہ انہیں ہر طرح کے حقائق سے باخبر رکھا جائے۔ دنیا کے تمام عوام کا بھی یہ حق ہے کہ انہیں معلوم ہو کہ اس کرہ ارض کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لئے کیا کچھ کیا جارہا ہے۔
ایک انٹرویو میں کینیڈا کے سابق وزیر خارجہ پال نے بتایا کہ سرد جنگ کے دنوں میں 1961ء کے دوران روس کی طرف سے کوئی پچاس کے قریب اڑن طشتریاں یورپ کی طرف آئیں۔ جس پر دفاعی حکام کو بہت تشویش لاحق ہوئی۔ کئی سال تک اس پر تحقیق ہوتی رہی جس کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ دوسرے سیاروں سے آنے والی کم از کم چار مخلوقا ت گذشتہ ہزاروں سال سے ہماری زمین پر آجا رہی ہیں۔ ہمارے ایٹم بم بنا لینے کے بعد ان خلائی مخلوقات کو تشویش لاحق ہوئی ہے۔ ہمارا تمام فلکی نظام ایک وحدت ہے ۔ اگر ہم نے ایٹم بم چلانے کی حماقت کی تو اس سے تمام نظام شمسی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ نظام شمسی سے باہر کے نظام بھی اس کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ کرہ ارض پر آنے والی غیر سیاروں کی مختلف مخلوقات کے مقاصد امریکہ، روس اور چین میں مختلف ہوسکتے ہیں۔ امریکہ میں نویدا کے علاقے میں خلائی مخلوق امریکہ کے ساتھ مل کر tolvys ٹیکنالوجی پر کام کررہی ہے۔ امریکی صدر ٹرومین سے خلائی مخلوق کی ٹیکنالوجی کے تبادلہ کے لئے ڈیل ہوئی تھی اوریہ طے پایا تھا کہ وہ کچھ ٹیکنالوجی امریکہ کو دیں گے اور اس کے عوض اپنے تجربات کے لئے کچھ انسانوں کو اغوا کریں گے۔ اس وقت امریکہ خلائی مخلوق کے متعلق رازداری سے کام لے رہا ہے جبکہ یورپ ،روس ، میکسیکو، برازیل ، فرانس اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک نے اب اس سلسلے میں اپنے خفیہ ریکارڈز عوامی بحث کے لئے عام کر دئیے ہیں۔ اس سوال کا جواب مشکل ہے کہ کوئی خلائی مخلوق ہماری زمین پر حملہ کرنے والی ہے یا نہیں۔ ان کے مقاصد واضح نہیں لیکن یہ بات مسلمہ ہے کہ ان کی ٹیکنالوجی ہم سے بہت بہتر ہے۔ان کی ہماری زمین پر موجودگی یقیناًخطرناک ہے۔ ہمیں ان سے مل کر کام کرنا چاہیے۔ اسی طرح خلانورد ایڈگر مچل نے بھی کہا تھا کہ اس بات کے واضح ثبوت موجودہیں کہ ہمارے علاوہ دوسرے سیاروں پر بھی مختلف مخلوق موجود ہے۔ ہمیں اب اس بات کو راز نہیں رکھنا چاہیے ۔

مزید :

کالم -