اپنے اندر ذرا جھانک میرے وطن!

اپنے اندر ذرا جھانک میرے وطن!
 اپنے اندر ذرا جھانک میرے وطن!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

افسوس ہمیں چا روں طرف کی خبر ہے مگر خود اپنی خبر نہیں۔وقت کے جن حا لات نے ہمیں چا روں طرف سے گھیرا ہوا ہے اس میں ہما ری قوم کے پاس زندگی گزارنے کے دو ہی را ستے ہیں ایک بے حسی کی زندگی گزا ریں جیسے گز شتہ 70 سال سے ہم گزا رتے آ ئے ہیں یا دوسرا صور تِ حا لات کے احسا س کی زند گی۔اس وقت ہما ری خا رجہ پا لیسی ہے کیا؟ کشمیر کے مسئلہ کو لے کر بھا رت سے مستقل دشمنی کا نظریہ ، امریکہ سے تعلقات کے اتار چڑ ھا ؤ کی لمبی داستان اور ایک کو نے میں پڑا ہوا سٹریٹیجک گہرا ئی کا بت جو اس وقت تقریباً اوندھے منہ گرا ہوا ہے۔ ملک میں اسوقت ان بنیا دی نکات پرشدید تنقید ہو رہی ہے جن پر ہما ری خا رجہ پالیسی کی بنیاد دھری ہو ئی ہے،اسٹیبلشمنٹ کی بر سوں کی کاوش جن الجھنوں کو نہیں سلجھا سکی وہاں خوا جہ آ صف کی سفارتکاری پر یہ بو جھ لا دنا انصاف نہیں۔


ہم تو ایک اور ہی خوا جہ آ صف سے واقف تھے جنکی شہرت کو ئی شرم اور حیا کے جملوں سے شروع ہو تی تھی اور ٹریکٹر ٹرا لی جیسے الفاظ کے استعمال پر ختم ہو تی تھی۔لیکن جب سے انہیں وزیر خا رجہ بنا یا گیا ہے مدتوں سے سو نے پڑے فا رن آ فس کی رو نق میں اضا فہ ہوا ہے اور جمود کا شکار اس کے افسروں کی نیند میں خلل ضرور وا قع ہوا ہے۔امریکہ میں جو مقدمہ خواجہ آ صف نے لڑا ہے اسے کئی زا ویوں سے پر کھنے کی کو شش ہو رہی ہے۔ مگر مجھے ہر بار ان کی اپروچ اور مو قف متوازن اورغور و فکر کی دعوت دیتا نظر آ یا ہے۔ لو گوں کو سمجھنا چا ہئے کہ جی ایچ کیو میں کھڑے ہو کر تو نو مور کی بات کی جا سکتی ہے مگر وزیرخار جہ کی حیثیت سے وا شنگٹن کے سفارتی حلقوں میں اس بات کوبا لکل پذیر ائی نہیں مل سکتی ۔ جہاں یہ تا ثر اسا مہ بن لا دن کی پاکستان میں مو جو دگی، یا ملا منصورپر ڈرون حملہ کے بعد پختہ ہو چکا ہے کہ پا کستان افغانستان میں انکی کو ششوں کے متضاد پا لیسی پر عمل پیرا ہے، جب اچھے اور برے طا لبان کا اعتراف سا بق مشیر خارجہ سر تاج کر چکے ہوں اور ڈان لیکس کی صورت میں ہم اپنے پیٹ سے کپڑا پہلے ہی ہٹا چکے ہوں تو حقا نی نیٹ ورک کا سوال تو ہو گا۔


خوا جہ آ صف پر تنقید کر نے وا لوں سے پو چھنا چا ہئے کہ اسٹیبلشمنٹ کا بل میں اشرف غنی انتظا میہ سے مل کر کام کر نے اور دہشت گر دی پر مشتر کہ کو ششوں سے اتفاق کو نو مور کی پا لیسی تو نہیں کہا جا سکتا ہے ظاہر ہے دونوں فریق اس باب میں ڈو مور کی پا لیسی پر گامزن ہیں۔ اپنے اپنے گھروں کو صا ف کر نے کی بات بھی ہوگی مگر مجال ہے خوا جہ آ صف پر تھو تھو کر نے والے کسی شیر کے بچے میں دم ہو اور سوال اٹھا ئے کہ حضور ہم تو آپریشن راہِ راست ، راہِ نجات، ضرب عضب اور ردالفساد کے ذریعے اب تک ڈھیروں رنز بنا اور بے شماروکٹیں گراچکے ہیں تو اب گھر کی صفا ئی اور ڈو مورکا کیا سوال؟ اب پاکستان اور افغا نستان کے مشرکہ اقدا مات خوا جہ آصف کے مو قف کو صحیح ثابت کر دیں گے۔ وزیر خارجہ نے بھارت کو پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا اور ببانگ دہل اس خطرے سے نمٹنے کے لیے جو ہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دی ، اس پر ہر گز بات کر نے کو کو ئی تیار نہیں کیو نکہ ہم تو اس غم میں گھلے جا رہے ہیں خواجہ نے اپنے شریف دوست کی اقتدار سے بید خلی کو ہندوستان سے امن کی خواہش کا نتیجہ قرار دے دیا،مان لیا نہا یت مذ موم نظریہ پیش کیا مگر ما ضی میں جھا نکنے کی اجازت ہو تو کس نے1962 میں بھا رت کو مشتر کہ دفاع کی پیش کش تھی؟مرد آ ہن ایوب خان کی یہ پیش کش لال بہادر شا ستری نے مسترد کر دی تھی، مگر اسوقت نہ تو کو ئی تنقید کر سکتا تھا اور نہ ہی دفا عی تجزیہ نگا ری کے شہسوار ابھی میدان میںآ ئے تھے، خواجہ آ صف امن کی بات کررہا ہے اسے غداری کا سرٹیفیکٹ بے شک تھما دیجئے مگر ضیا الحق سے راجیو گاندھی ملاقات کا قصہ اور جنرل مشرف کی آ گرہ یا ترا کا ورقہ ہم نے تا ریخ سے پھاڑ ڈالا ہے ۔

مگر جمہوریت کا کمال ملاحظہ کیجئے جو منتخب وزیر اعظم ہو وہ محض امن کی خواہش بھی نہیں پال سکتا ۔نان سٹیٹ ایکٹرز کے خا رجہ پا لیسی میں بطور ہتھیار استعمال نے پہلے کشمیر پر ہما رے مو قف کودھند لا دیا اور اب اسکا غیر متوقع دبا ؤ افغانستان کی سر حد پرہما رے لیے ڈرا ؤ نا خواب بن چکا ہے۔


ڈان لیکس اور اب گھر کی صفا ئی کے نظریے میں قدرِ مشترک ان عنا صر کا خا رجہ پا لیسی میں مزید استعمال کاآ پشن ختم ہو نے کی کہا نی بیان کر رہا ہے۔ پہلے نواز شریف سے اس مد عے پر اقتدار چھن گیا اور اب ان کی حکو مت سے مزید مطا لبہ ہے کہ خار جہ پا لیسی کے اس شجرِ ممنو عہ کا بو جھ بھی اٹھا ئے ۔امریکی بچے نہیں وہ جن سے مخا طب ہیں وہاں سے اٹھنے وا لا دھواں اصل کہا نی بتا رہا ہے دنیا آ نکھیں بند کر کے تو نہیں بیٹھی ، ایشیا سو سا ئٹی میں صحیح سوالات پو چھے گئے اور انکا جواب بھی حا لتِ انکار کی بجا ئے معقول اور مناسب پیرا ئے میں دیا گیا ہے ۔

ہاں البتہ گھر کی صفا ئی اور ڈو مور کے خیا لات سے پا کستان میں اُ ن عنا صر کو بند گلی میں دھکیلنے کی کو شش ضرور کی ہے جنہوں نے این اے 120- میں اپنا نیا سیا سی اثا ثہ ٹیسٹ کر نے کی کا میاب کو شش کی۔ اس مو قع پر پو رے پاکستان میں وسیع تر اتفاق رائے کے لیے اس بحث کا آ غاز ہو نا چا ہئے تھا ، ا پنے اند ر جھا نکنے کی ریت اب وطن میں عام ہو نی چا ہئے تھی مگر نا دیدہ قوتوں نے اس فر سودہ نظریا تی بوجھ کو سیا سی اثا ثہ بنا تے ہو ئے انتخا بی سیا ست میں بھی اتار دیا ۔دنیا میں اتنی تبدیلیاں رو نما ہو رہی ہیں جب اپنے ملک کو دیکھتے ہیں تو یہاں دوسرا ہی عا لم ہے۔قدر ت تما م قو موں پر امکانات کا نقاب الٹی ہے سب کو یکساں نظارہ حسن کی دعوت دیتی ہے۔ ہمارے یہاں بہار کی آمد ہو یا خزاں کے مو سم کی تبدیلیاں کو ئی معنی نہیں رکھتیں

مزید :

کالم -