منقسم امریکہ

منقسم امریکہ
 منقسم امریکہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ٹرمپ نے نعرۂ مستانہ بلند کیا، امریکہ امریکیوں کا ہے،درست کہا ----کچھ سیاسی حلقے خوش فہمی کا شکار ہو گئے۔اس نعرے سے انہوں نے سمجھا کہ امریکہ اپنے وسعت پذیر عالمی منصوبوں کو لپیٹ کر اپنی سرحدوں کے اندر واپس چلا جائے گا۔ٹرمپ نے سلسلہ وار سنسی خیز بیانات دے کر اس خوش فہمی کاپلاسٹر اکھاڑ دیا اور اس نعرے کی صحیح سمت واضح کر دی۔دنیا کی جاگیر آخر ہے توجاگیردار کی لیکن جاگیر دار کے وسائل سے کوئی دوسرافائدہ نہیں لے سکتا۔

اس وضاحت کے بعد ایک اور وضاحت بھی چاہیے تھی کہ ٹرمپ کون سے امریکہ کی بات کر رہا ہے اور مذکورہ امریکہ کن امریکیوں کا ہے کیو ں کہ امریکہ بھی دو ہیں اور امریکی بھی دو۔ایک ٹرمپ والا تجارتی مافیا کا امریکہ اور دوسرا عام امریکی کا امریکہ۔اول الذکر امریکہ تجارت میں خسارے کا مداوا کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے جب کہ عام امریکی، انسان دوست اور عالمی امن کا داعی ہے ۔

بہرحال اس امریکی فرمان کو پلے باندھ لینا چاہیے کیونکہ اس فرمان کی چھاؤں میں دنیا کی ہر ریاست پناہ لے سکتی ہے۔چاہے محض استدلالی سطح پر ہی کیوں نہ ہو۔خوش قسمتی سے امریکہ بھی دنیا کی ریاستوں میں سے ایک ریاست ہی کہلاتی ہے اور عام مشرقی لوگوں کو یقین نہیں آئے گا کہ امریکی ریاست کی سرحدیں بھی ہیں بالکل ویسی سرحدیں جیسے امریکہ سے باہر د یگر ریاستوں کی تسلیم شدہ سرحدیں ہیں۔

مصیبت یہ ہے کہ قانون کی نگاہ میں ہر ریاست کو اپنی سرحدوں کے اندر اپنے فیصلے کرنے کا حق ہے۔جب تک ریاست کا ادارہ معدوم نہیں ہوجاتا اور جب تک قوم کا تصور بھی باقی رہتاہے۔ اُس وقت تک کسی سپر پاور کو دوسری چھوٹی ریاستوں کی سرحدوں کی لکیروں کا احترام کرنا ہی ہو گا۔فی ا لحال انسانی تہذیب ریاستوں کی اکائیوں پر اُستوار ہے۔اقوام متحدہ کا دکھاوے کا ادارہ بھی غنیمت ہے کبھی کبھی چھوٹی ریاستوں کے سربراہوں کو جنرل اسمبلی میں خطاب کرنے کا اعزاز بھی بخشا جاتا ہے۔کٹھ پتلیوں کا تماشا ہی سہی اپنے تماشے کو خود اجاڑ دینا بس ٹرمپ کا ہی کمال ہے ۔اگرکبھی کوئی ریاستی ادارہ خود مختاری کی کتابی شرائط کا تذکرہ کر بیٹھے تو ایسے سادہ لوح ادارے کو سمجھایا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ کی دنیا اور 1648ء کے ویسٹ فالیا کے معاہدے کے زمانے میں بہت زیادہ زمانی فاصلہ ہے اس لیے اس معاہدے کے اس فرسودہ معاہدے کا تذکرہ ہی آج بے محل ہے۔ ویسٹ فالیا کے معاہدے کے اس تصور کو متروک یامنسوخ مان لینا ہی حقیقت پسندی ہوگی آج یہ تصور مضحکہ خیز لگتا ہے کہ خود مختار ریاستوں کے اندرونی معاملات میں دخل دینا جارحیت سمجھی جائے گی۔آج ٹرمپ کی دنیا میں 1648ء کے ویسٹ فالیا کے فیصلوں کا حوالہ بڑوں کی ناراضگی کا باعث بن جائے گا۔مشرقی معاشرے میں بڑوں کی غلط باتوں پر احتراماً خاموش رہنا چاہیے ۔
البتہ بڑی طاقتیں1815ء کے ویانا بندوبست کا بھرم رکھنے کیلئے کافی نمائشی انتظام کرتی ہیں۔ویاناکانفرنس میں جنگوں میں تمیز اور تخصیص پیدا کی گئی تھی۔اچھی جنگ اور بری جنگ کی تفریق پیدا کر کے قومی جذبے کے تحت یا حق خود ارادیت کیلئے کی جانے والی جنگ کو تحفظ دیا گیا تھا۔لہذا امریکہ بری جنگ کا اپنے اوپر الزام نہیں لگنے دیتا۔بین الاقوامی قانون کا احترام کر کے اس قانون کو سلیقے سے توڑنازیادہ "مہذب" لگتا ہے۔ مختلف ممالک اندرونی معاملات میں اپنی سرگرمیوں کے لیے قانونی جواز پیدا کرنے میں ترقی یافتہ ممالک بڑی احتیاط برتتے ہیں۔ ایران اور عراق میں جنگ ہو یا کویت اور عراق کے درمیان اختلافات پیدا ہو جائیں امریکہ دنیا کے ہر محاذ پر ایک ایسا فریق ہوتا ہے۔ جو ثالثی بھی کرتا ہے۔ایران، عراق،شام، لیبیا، افغانستان،-------ہر اُس ملک میں امریکہ کی دلچسپی ہوتی ہے جو معدنی دولت سے مالامال ہو ۔امریکہ کا حقِ دخل اندازی اس کی تباہ کن جنگی ٹیکنالوجی میں مضمر ہے،ڈرون کو سادہ دیہاتی لوگ یہاں "ڈراؤن" کہتے ہیں ۔لیکن امریکہ کی قانون پسندی قابل تحسین ہے کہ ہر جگہ اس نے پہلے جواز بنایا پھر کسی علاقے میں دخیل ہوا ۔کہیں بیالوجیکل ہتھیاروں کی تلاش کے عذر کے ساتھ گھُسا کہیں نیوکلیر تجربوں کی تفتیش کرنے گیا ،کہیں کمیونزم کے مقابلے میں آزادی کا پھریرا لے کر پھیرا لگایا، کہیں معاہدوں کی پاسداری کے لیے ایک محافظ دوست کا کردار ادا کرنا اس کی مجبوری بنا ۔

کہیں مذہبی جنونیت اور دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کا خود ساختہ مشن لے کر وسیع علاقوں میں موجود رہنے کا جواز بنایا لیکن توجہ طلب امریہ ہے کہ عالمی خطرات کے نجات دہندہ کے طور پر سرمایہ کاری کی اور اس سرمایہ کاری کے عوض خوب منافع کمایا۔

دہشت گردی جدید ترین عالمی خطرہ قرار دیا گیا ہے مگر عجیب بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر آج تک دہشت گردی کوDefine نہیں کیا گیا ۔ نہ ہی انفرادی، گروہی، علاقائی، نظریاتی یا بین الاقوامی دہشت گردی کو علیحدہ علیحدہ سمجھنے کی کوشش کی گئی۔جب ہر علاقے میں دہشت گردی کی تصریح مختلف ہو گی تو دہشت گردی کا انسداد بھی علاقائی ہو گا حالانکہ دہشت گردی اب عالمی مسئلہ بن چکا ہے اس لیے دہشت گردی کا حل بھی عالمی ہو گا اورعالمی تعریف اور تحدید کرناچاہیے تھی۔علمی سطح پر ایسی چالبازی کی مثال نہیں ملتی کہ جان بوجھ کر دہشت گردی کی مستقل اور عالمی تعریف نہیں کی گئی تاکہ اس ابہام سے وقتاََ فوقتاََ مختلف حالات میں فائدہ اٹھایا جا سکے۔استحصال کے کچلے ہوئے لوگوں کا یہ حق ہے کہ وہ دہشت گردی جہاد ،حق خود ارادیت اور قومی اور آزادی کی تحاریک کو علیحدہ علیحدہ کرکے چھان پھٹک کا مطالبہ کریں اور پوچھیں کہ دہشت گردی کی وضاحت اور صراحت سے اجتناب کیوں برتا جا رہا ہے۔

حق خود ارادیت اور آزادی کیلئے جدوجہد ،جائز قانونی اور تسلیم شدہ حق ہے۔کشمیر اور فلسطین کی آزادی کی تحریکوں کو بھارت اور اسرائیل دہشتگردی کہہ کر اپنے مجرمانہ تسلط کو چھپاتے ہیں۔جب کہ دہشت گردی ایک گھناؤنا جرم اور انسانی تہذیب کے خلاف سازش ہے۔دہشت گردی کی واضح پہچان ہی جائز اور ناجائز کے درمیان خط امتیاز کھینچتی ہے۔دہشتگردی کی تعریف کے نہ ہونے سے جرم اور حق کے درمیان حد بندی نہیں ہو سکتی۔بڑی طاقتیں جرم اور حق کو آپس میں خلط ملط کر کے اپنے قو می فائدے لیتی رہی ہیں ۔


حتیٰ کہ اقوام متحدہ عالمی سطح پر جرم کو روکتا ہے اور حق کا تحفظ کرنے کی بجائے، دہشت گردی کی مختلف تعریفوں کے ذریعے بڑی طاقتوں کی مدد کرتا ہے اقوامِ متحدہ پر سیکیورٹی کونسل کا تسلط پوری دنیا کی بے بسی ہے۔دہشت گردی کے مجرم اور سہولت کاردہشت گردی کواپنے اپنے نقطہ ہائے نظر بلکہ اپنے مفادات کے معانی پہناتے ہیں اس فکری ابہام کے خلا میں طاقت جب چاہے کسی جائز عمل کو دہشت گردی قرار دے کر کچل دے اور کھلی دہشت گردی کو انسانیت کی خدمت کہہ کر قابل توقیر منوالے۔ ہر دہشت گرد کو جہادی کہنا کس قدر تجاہل عارفانہ ہے۔

حالانکہ دنیا بھر کی دہشت گردی جہاد کے نظریے سے وابستہ نہیں ہے۔برما میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ جہاد کی بنیاد پر نہیں ہو رہا غیر مسلم ، انتظامیہ جہادی مسلمانوں پر ناقابل یقین تشدد کر رہی ہے اور امن پسند مسلمان محض اپیلوں پر اکتفا کر رہے ہیں جس کا صرف ایک مطلب نکلتا ہے کہ مسلمان، بطورمسلمان امن پسند ہیں، جنگ پسند نہیں۔ جنگ پسند وہ ہیں جن کی معیشت کا انحصارجنگی اسلحہ کی فروخت پر ہے۔


یہی وجہ ہے کہ ایک اقلیتی رائے ،دہشت گردی کو سامراج کا ہتھیار سمجھتی ہے۔کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ فرقہ واریت نے دہشت گردی کو فروغ دیا۔حالانکہ فرقہ ورایت تو دہشت گردی کی نئی لہر سے بہت پہلے کی موجود تھی اس طویل ترین درمیانی عرصے کے دوران اختلافی تشریحات اور فقہی دلائل، محض مباحث تک محدود رہے۔

یہ توجدید تاریخ کے ایک خاص موڑ پر فیصلہ کیا گیا کہ فرقہ واریت کو مذہبی جنونیت میں تبدیل کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد ایک منظم میکانکی عمل کے ذریعے تشریح کے ہاتھ میں بندوق اور تفسیر کوبمبوں سے سجادیا گیا۔یہاں تک کہ خود انسان کو خود کار اسلحے میں بدل دیا۔ (جاری ہے)


امریکہ کے نائب صدر نے پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے کہا کہ پاکستان امریکہ کا پارٹنر ہے۔اتحادی یا دوست نہیں کہا۔پارٹنر کا دائرہ کار ایک مخصوص کاروبار یا پراجیکٹ تک محدود ہو تا ہے۔ پارٹنر نفع نقصان میں شریک ہوتا ہے۔نہیں معلوم امریکہ کس نفع نقصان میں شراکت کی بات کرتا ہے۔

اگر پاک امریکہ تعلقات پارٹنرشپ ہے تو فی الحال تو پاکستان اس سودے میں سراسر گھاٹے میں رہا۔البتہ عام پاکستانی عزت مندانہ دوستی کو آسانی سے سمجھتے ہیں۔اور اس کیلئے قربانی دینا بھی جانتے ہیں۔ایک ستم ظریف نے تو موجودہ منظم دہشت گردی کو دو تہذیبوں کا تصادم قرار دے دیا۔ حالانکہ کوئی تہذیب از خود دہشت گردی کوقابلِ قبول نہیں سمجھتی۔ کیونکہ ہر دہشت گردی تہذیب کو منہدم کرتی ہے۔اس لئے ہر زبان میں تہذیب کا لفظ ہی، دہشت، انتشار اور بلا تخصیص قتل عام کے خلاف مذمتی لفظ ہے۔ تہذیب، امن اور تنظیم میں پھلتی پھولتی ہے۔ دہشت زدگی ترقی اور تخلیق کی دشمن ہے۔ المختصر یہ کہ جب تک دہشت گردی کی عالمی سطح پر متفقہ صراحت اور تحدید نہیں کی جائے گی دہشت گردی علاقائی سطح پر مختلف خوشنما لبادوں اور دلفریب نعروں میں لپٹی رہے گی۔
بعض اوقات آزادی اور قومی خود ارایت کی تحریکوں پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر کچلنا آسان ہو جاتا ہے۔

اس لئے دنیا میں امن قائم کرنے میں ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کو قانونی سطح پر قابل امتیاز اور قابل شناحت کر دیا جائے تاکہ نہ تو دہشت گرد، دہشت گردی کو کوئی پسندیدہ عنوان دے کر قابل قبول بنا سکیں اور نہ ہی کوئی عالمی طاقت اس فکری اُلجھاؤ ، شعوری ابتری اور علمی خلاء میں اپنے سامراجی عزائم کو چھپا سکے۔


افغانستان اور جنوبی ایشیا کیلئے امریکی نمائندے، رچرڈ ہالبروک نے دسمبر 2008ء میں شاید پہلی بار "دہشت گردی کی حکمت عملی"کی اصطلاح استعمال کی۔ یعنی دہشت گردی کو عملی جامہ پہنانے سے بہت پہلے ایسی دہشت گردی کے مقاصد کا تعین کیا جاتا ہے۔ حکمت عملی تیار کی جاتی ہے۔ ایسی دہشت گردی نہ اتفاقی اور ناگہانی ہوتی ہے اور نہ ہی بے مقصد اور خود رو ہوتی ہے۔دہشت گردی پاگل پن بھی نہیں ہے۔

موجودہ دہشت گردی ایک عالمی فکر کی پیداوار ہے جس کی آبیاری عالمی سرمائے سے کی گئی ہے۔پھر اس سوچ کے پیدا ہونے یا پیدا کر نے کے مربوط عوامل ہیں۔جب تک یہ سوچ ختم نہیں ہوگی، دہشت گردی کا تخلیقی تسلسل قائم رہے گا۔ چند دہشت گردوں کو مار دینے سے یا اندھا دھند بمباری کرنے سے دہشت گردی کا قلع قمع نہیں ہو سکتا۔بے پائیلٹ ڈرون قتل کرنے کی موثر مشین سہی پھر بھی ڈرون سوچ کو نشانہ بنانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔

بلکہ ڈرون سے بے گناہ عام شہریوں کے قتل عام کا احتمال زیادہ ہے۔ اس کا مقامی سطح پرمتشددمگر خفیہ ردِعمل ہوتا ہے۔قاتل کو قتل کیا جا سکتا ہے مگر خود قتل کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔علم جُرمیات میں ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ قاتل کے قتل کرنے سے قتل کا عمل ختم نہیں ہوتا۔یہ بھی ذہن میں رہے دہشت گردی مایوسی کی پیداوار ہے اورایک مسخ شدہ سوچ ہے۔ٹرمپ کا حکم ہے کہ دہشت گردی کے ٹھکانے ختم کئے جائیں۔اور اگر یہ ٹھکانے افغانستان میں ہوں تو یہی بات ٹرمپ سے کہی جاسکتی ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کی پناہ گاہیں ختم کی جائیں۔

کل کی بات ہے افغانستان سے دہشت گردوں نے پاکستان کے راجگال چیک پوسٹ پر حملہ کر کے ۲۲ سالہ لیفٹیننٹ ارسلان کو شہید کر دیا۔ اس کی شکایت افغان حکومت سے کی جائے یا نیٹو کے شریک ممالک سے یا صرف ٹرمپ سے کہ اس سوچ کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ دہشت گردی کی قوت محرکہ کیا ہے۔ انفرادی ہے یا اجتماعی۔گروہی ہے ریاستی۔پھر یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے مقاصد کیاہیں۔ کبھی دوممالک کو دہشت گردی کے ذریعے جنگ میں دھکیلنا مقصود ہوتا ہے۔کبھی کسی ریاست کو عدم استحکام کا شکار کرنے کیلئے دہشت گردی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کی جاتا ہے۔

یا دہشت گردی کے ذریعے مرکز گریز قوتوں کو ابھار دیا جاتا ہے۔ دہشت گردی سے ریاست کے عوامی تشخص اور اس کی یک جہتی کو منقسم کرنے میں مدد ملتی ہے اور عوام میں مایوسی پید ا ہوتی ہے ۔ ادارے غیر موثر کر دیے جاتے ہیں ۔پاکستان اسی منظم حکمت عملی کے ذریعہ سزا وار ٹھہرایا گیا ہے۔ چونکہ مسلم قیادت نے متحدہ ھند کی مستقل اکثریت کے شکنجے سے بچانے کیلئے مسلمانوں کیلئے نئی مملکت بنائی تھی۔اسی وجہ سے دہشت گردی کی سٹریٹیجی بنانے والوں نے اپنی دہشت گردی کا ہدف مسلم وحدت کو بنایا۔عمومی اور فرقہ وارانہ شرعی اختلافات کو شدید مسلح نفرت میں بدلا گیا۔ان کو قوی امید تھی کہ جس تصور پر پاکستان وجود میں آیا اسی مرکزیت پیدا کرنے والے نظریہ کو فرقہ بندی کے انتشارکے ذریعے پارہ پارہ کیا جاسکے گا۔

ایک ریاست کے انہدام کیلئے یہ گروہی تصادم صرف خانہ جنگی تک محدود نہیں رہتا۔بلکہ کسی منتظرخارجی ملک کو اندرون ملک میں داخل ہو کر دخل دینے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ یہی ان کی حکمت عملی ہے ۔مگر یہ بھی نہیں ہوگا۔دہشت گردی فکری سطح پر بھی پسپا ہو رہی ہے۔ ہر سچا پاکستانی دہشت گردی سے نفرت کرتا ہے۔

یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔کیونکہ پاک فوج اس فتنہ کے خلاف صف آرا ہو گئی۔ دنیا بھر کی افواج اپنے آپ کو سیکولر رکھتی ہیں تا کہ مذہبی اختلافات سے فوج تقسیم نہ ہو۔اسی لئے پاک فوج فرقہ واریت سے پاک ہے۔دوسری جانب سیاسی قیادت کے سیاسی فیصلوں کی وجہ سے پاکستان کی قومیتوں کے اختلافات کی شدت کم ہو گئی۔ پاکستان میں علاقہ غیر اب غیر نہیں رہا۔یہ ایک بہت عظیم سیاسی فیصلہ تھا۔ پاکستان کا ہر علاقہ پاکستان ہے۔


دہشت گردی کی حکمت عملی واقعات کی زنجیر سے واضح ہوتی ہے۔ جی ایچ کیو کے علاقے پر حملہ، مناواں پولیس سکول پر حملہ، لاہور کے لبرٹی چوک میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ، سابقہ وزیراعظم بے نظیر کا قتل، کوئٹہ میں وکلاء کا قتل عام اور اس قسم کے سینکڑوں واقعات پاکستان میں دہشت گردی کی حکمت عملی کے خدوخال واضح کرتے ہیں ان حملوں میں قانون نافذ کرنے والے ہدف بنائے گئے اور بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر ابھارا گیا کہ پاکستا نی حکومتی ادارے انتظامی سطح پر ناکام ہو چکے ہیں۔ پاکستانی ریاست قومی تحریکوں میں کئے گئے و عدوں کو پورا کرنے کی اہلیت کھو چکی ہے۔دہشت گردی نے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ پاکستان فرقوں اور ذاتوں میں تقسیم ہے۔ قومی یک جہتی کا فقدان ہے۔

قومی اور ریاستی ادارے آپس میں دست بگریباں ہیں۔یہ مشترکہ اور مجموعی ماحول پیدا ہو چکا ہے۔ مگر یہ سب کچھ مصنوعی اور عبوری ہے۔ پاکستان تاریخ کی پیداوار ہے۔ پاکستان کو جغرافیئے نے لاکھوں سال میں فطرت کے ہاتھوں سے متشکل کیا۔ ہزاروں ہجرتوں کی پناہ گاہ یہی سرزمیں ہے جو بھی آیا،جہاں سے بھی آیا اس دھرتی نے اسے امان دی۔ وہ آج پاکستانی ہے۔ ویسٹ فالیا اور ویانا کانفرنس کے اصولوں کا مذاق نہ اُڑایا جائے۔

بلکہ ان اصولوں کی فتح سے عالمی امن قائم ہو سکتا ہے ۔سامراجی تسلط امن دشمنی ہے۔ بے حس عالمی ضمیر اور دکھاوے کے عالمی اور ریاستی ادارے امن قائم نہیں کر سکتے۔ دہشت گردی اور جنگ نظام کو توڑ سکتی ہے جوڑ نہیں سکتی نفرت، تشدد، تعصب اوربلا امتیاز قتل عام کبھی گلو بلائیزیشن کے تصور کو کامیاب نہیں کر سکتا۔انسانیت، اشتراک فکروعمل سے نئی دنیا تحلیق کر سکتی ہے۔

دلیل کی فتحیابی اور مکالمے کے کلچر کے قیام سے یہ آگ اور خون میں پھنسی ہوئی دنیا امن کا گہواراہ بن سکتی۔نہ پاکستان کو ختم کیا جا سکتا ہے نہ بھارت کو۔دونوں تاریخ کی پیداوار ہیں بلکہ ہرطبقاتی ریاست میں دو ریاستیں آپس میں بر سرپیکار ہیں۔ اس ریاستی دوئی کا تصادم امریکہ میں ٹرمپ کے انتخابات نے ثابت کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے امریکہ کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے پوری دنیا کو دومتحارب حصوں میں تقسیم کر دیا ۔ ایک لوٹنے والی حکمران اقلیت اور دوسری لٹنے والی بے بس دنیا۔

مزید :

کالم -