یزید نہیں مگر یزیدیت ہے
ایک عمومی رواج چل نکلا ہے کہ آپ جس حکمران سے اختلاف کرتے ہیں، اس کی حکمرانی کو ناپسند کرتے ہیں، اس کے نام کے ساتھ فوری طور پراپنے وقت کا یزید ہونے کی پٹی چپکا دیتے ہیں، کیا یزید اوراس کے ساتھیوں نے جو ظلم نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل بیت پر کیا ، اس ظلم کی نسبت کسی بھی حکمران سے جوڑی جا سکتی ہے، میرا یقین ہے کہ ہرگز نہیں۔ کوئی بھی حکمران غیر آئینی اور غیر قانونی ہو سکتا ہے، ظالم اور جابر ہو سکتا ہے، فاسق اور فاجر ہو سکتا ہے مگر کوئی بھی کلمہ گو کسی بھی نوعیت کی سیاسی اور اخلاقی وجوہات کی بنیاد پراپنی ذات میں یزید قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے نواسے اور جنت کے نوجوانوں کے سردار پر جو ظلم وستم کیا گیا اس کی کوئی دو سری نظیر، کوئی مثال ہو ہی نہیں سکتی۔میں مسلمان ہونے کے ناطے یزیدیت کو جائز اور اچھی حکمرانی کے تین بنیادی اصولوں اور تصورات کی نفی سمجھتا ہوں۔ یہاںیزید کے ظلم کا شکار ہونے والوں میںآل رسولؐ کی موجودگی اس ظلم کو تاریخ کے باقی تمام مظالم سے الگ کرتی ہے۔ اب دنیا کا کوئی بھی حکمران کسی بھی شخص پر کسی بھی حد تک ظلم ڈھا لے اس میں مظلوم اللہ رب العزت کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا لاڈلا نواسہ نہیں ہو گا۔ ظلم کی اس انفرادیت کو ایمان اور محبت کی روشنی میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔میری طرح آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ جس رب اللعالمین کے محض’ کُن‘ کہنے سے قیامت برپا ہو سکتی ہے ،اس نے اپنے محبوب کے پیاروں کو کرب و بلا کے میدان میں یوں مظلومانہ شہادت کے لئے کیوں چھوڑا، اسی وقت زمین کی سب سے نچلی تہوں نے اوپر والی تہوں پر غالب آتے ہوئے معلوم اور نامعلوم تاریخ کا سب سے بڑا زلزلہ کیوں برپا نہیں کر دیا۔ پھر سوچتا ہوں کہ شعب ابی طالب میں پیٹ پر پتھر باندھ لینے اور حضرت خدیجہؓ سمیت اپنے پیاروں کو بھوک اور بیماری کے عالم میں جاں بحق ہوتے ہوئے دیکھنے والوں کی آل سے ایسی ہی مشکل اور بڑی قربانی کی توقع کی جا سکتی تھی، یہ پیغام ا ن کے لئے ہے جو اسلام کو محض اقتدار، مناصب اور اموال کے حصول کا آسان ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یقین کر لیجئے کہ مسلمان ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ میں قائل ہوں کہ نہ تو مظلوموں میں کوئی دوسرا امام حسینؓ اور اہل بیت جیسا مظلوم ہو سکتا ہے اور نہ ہی ظالموں میں کوئی یزید اور اس کے ساتھیوں جیسا ظالم ہو سکتا ہے۔
یہاں دوسرا اصول اور تصور آجاتا ہے،سیاست عمل کا نام ہے اور سیاسیات اس کا علم ہے،یونانیوں سے لے کرآج تک حکومت اور معاشرت کے حوالے سے اس علم نے بہت ترقی کر لی ہے۔ یہ علم ہمیں بتاتا ہے کہ حکومت عوام کی ہوتی ہے، عوام کے لئے ہوتی ہے اور عوام کے ذریعے ہوتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ جمہوریت میں اکاون فیصد کی’ آمریت ‘قائم ہو سکتی ہے مگر دوسری طرف عمومی طور پر دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت آئین کو تشکیل دیتی ہے ۔یہ دستاویزچیک اینڈ بیلنس قائم کرتی اور اس امر کو روکتی ہے کہ اکاون افراد کوے کو فاختہ قرار نہ دے دیں اور دوسری ریاستوں کے مقابلے میں ہم مسلمانوں کے پاس قرآن پاک کی صورت ایک اعلیٰ اور برتر آئین بھی موجود ہے۔ میں جب اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے خلیفہ کے چناو کے لئے مشاورت اور عوامی رائے کا اہتمام ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں تو جمہوریت کو اسلامی حکمرانی کے اصولوں سے بہت زیادہ مختلف نہیں پاتا۔ یہ اس لئے بھی ہے کہ جمہوریت اکثریت کو اختیار دیتی ہے کہ وہ ایک اسلامی ریاست میں اسلامی نظام لاگو کر دے۔دوسرے بنیادی اصول اور تصور کے تحت اسلام اختلاف کرنے والوں کو تہ تیغ کرنے کی اجازت نہیں دیتا اگر وہ امن اور دلیل کے ساتھ آپ سے عدم اتفاق کی راہ پر ہوں۔مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ حضرت اما م حسینؓ اختلاف کی حالت میں ضرور تھے مگر وہ جنگ اور فسادکی حالت میں نہیں تھے۔ حکمرانی کوظلم اور جبر نہیں، انصاف اور احترام کے ذریعے ہی برقرار رکھا جا سکتاہے۔ یزید کے حکم پر اس کی حکمرانی کو ظلم اور جبر کے ذریعے برقرار رکھا گیا لہذا اگر میں کسی حکمران کو یزید نہ بھی کہوں تو یہ ضرور کہہ سکتا ہو ں کہ مشاورت اور رائے کے بغیرظلم اور جبر کے ذریعے حکومت میں یزیدیت موجود ہے۔
تیسرا اہم ترین اصول اور تصور حکمران کے کردار کا ہے جس کے بغیر اچھی حکمرانی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔تاریخ کا مطالعہ کیجئے، یزید اور اس کے حامیوں کا ذاتی کردار شراب نوشی، قمار بازی، زنا اوردولت کے ناجائز حصول و ارتکاز جیسی آلائشوں سے بھرا نظر آتا ہے، وہ اس آئینے میں قرآن و سنت کے احکامات میں ترمیم اوران کی تردید کرتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں ۔بد کرداروں کی اتباع کسی بھی مذہبی یا غیر مذہبی سیاسی نظام میں بہتر قرار نہیں دی جاتی اوراس کی بنیادی وجہ یہی بیان کی جاتی ہے کہ جو شخص اپنے معاملات میں باکردار نہیں ہو سکتا وہ قومی اور ریاستی معاملات میں بھی بااعتماد نہیں سمجھا جا سکتا۔ یوں ایک حکمران جو غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر اقتدار پر قابض ہو، عوام کی رائے اور منشا کا احترام کرنے والا نہ ہو اور سب سے بڑھ کے اپنے ذاتی کردار میں بھی خامیاں رکھتا ہو تو اسے یزید نہیں کہا جا سکتا مگر اس کے اعمال اور افعال میں یزیدیت کا استعارہ ضرور دیکھاجا سکتا ہے۔
یزید نے جو ظلم کیا وہ تاریخ کا بدترین ظلم ہے، اس موقعے پر وہ تما م لوگ جو ’غیر جانبدار ‘رہے وہ میری نظر میں یزیدیت میں حصے دار بنے یوں میں حق اور باطل کے سوال پر غیر جانبدار ہونے والوں کو بدترین منافق اور ظالم کامدد گار سمجھتا ہوں۔مجھے یہ گواہی دینے میں کوئی عار نہیں کہ یزید جیسا برا اور ظالم حکمران کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا ۔ آج کے دور میں کسی کو یزید کہنا بھی درست نہیں مگردوسری طرف ہر وہ سیاست اور حکمرانی اپنے اندر یزید ی صفات لیے ہوئے ہیں جس کا مقصد رب العزت کے دئیے ہوئے نظام کے نفاذ اور اس کی مخلوق کی بھلائی سے ہٹ کر اپنے ذاتی اقتدار کو قائم اور مضبوط کرنا ہے، جس میں خود کو حکمرانی کے لئے پیش کرنے والے کااپنا کردار قابل اعتراض ہے ۔اس کے مقابلے میں حسینیت ہے جو ظالم ، بدکردار اور مشکوک حکمرانی سے اختلاف رکھنے کا نام ہے۔ حضرت امام حسینؓ نے جان قربان کر دی مگر فساد کا راستہ اختیار نہیں کیا تو آج کے دور میں اصلاح کے نام پر ہنگامے برپا کرنے والے ہمارے امام کا نام کیوں استعمال کرتے ہیں۔ امام حسینؓ تاریخ کے سب سے بڑے مظلوم کا نام ہے، یہ نام کسی ظالم اور فسادی کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئے اورجان لینا چاہئے کہ حسینؓ نے کامیابی اور ناکامی ہی نہیں بلکہ زندگی اور موت تک کے استعارے تبدیل کر کے رکھ دئیے ہیں۔