وزیرداخلہ کا بھی داخلہ بند!سازش،ڈرامہ یابدانتظامی،معمہ حل نہ ہوسکا

وزیرداخلہ کا بھی داخلہ بند!سازش،ڈرامہ یابدانتظامی،معمہ حل نہ ہوسکا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ :۔سہیل چوہدری

وفاقی دارالحکومت میں گزشتہ روز صبح سویرے ہی ایک نا خوش گوار تنازعہ کے مناظر دیکھنے کو ملے ، نیب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی پیشی کے موقع پر سیکورٹی پر مامور رینجرز نے نہ صرف پاکستان مسلم لیگ ن کے حامیوں ، کارکنوں بلکہ وفاقی وزراء اور صحافیوں کو بھی عدالت کے احاطہ میں بھی جانیکی اجازت نہ دی ، تاہم معاملہ کی شدت اس وقت عروج پر پہنچ گئی جب وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کے ماتحت رینجرز نے انہیں بھی اندر جانے سے روک لیا، اس واقعہ پر پاکستان مسلم لیگ ن سمیت بہت سے دیگر سیاسی حلقوں میں تشویش اور اضطراب کی لہر دوڑگئی ، وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے اپنے ماتحت ادارے کی جانب سے کئے جانے والے حسن سلوک پر استعفیٰ کی ٹھان لی لیکن لندن سے مریم نوازشریف نے انہیں اس سے روک دیا اگرچہ کپتان عمران خان نے اس واقعہ کو وزیرداخلہ احسن اقبال کا ڈرامہ قرار دیا ، لیکن ان سطور کے تحریر کرتے وقت تک یہ گھتی نہیں سلجھ سکی کہ بالآخر رینجرز کو یہ ذمہ داری کس نے تفویض کی تھی اور میڈیا سمیت وزیرداخلہ کا داخلہ کیوں بند کیا گیا جبکہ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ نیب اوپن ٹرائل عدالت ہے ، اگر سیکورٹی کی بنیاد پر کچھ اقدامات ضروری بھی تھے تو اس کیلئے سول حکام کے ساتھ مل کر ایک طریقہ کار وضع کیا جاتا ، یہ واقعہ سول اور پیرا ملٹری فورس کے حکام کے مابین کوآرڈینیشن کے انحطاط بلکہ مکمل بد انتظامی کی ایک تلخ مثال کے طورپر تعبیر کیا جاسکتاہے ، تاہم یہ بد انتظامی ہے سازش ہے یا پھر ڈرامہ ہے یہ تاحال ایک معمہ ہے ،پاکستان تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے حامی حلقوں کے خیال میں وفاقی وزراء اور پاکستان مسلم لیگ ن کے حامیوں کو اپنے رہنما سابق وزیراعظم نوازشریف کی پیشی کے موقع پر عدالت نہیں جانا چاہئے تھا جبکہ رینجرز کی جانب سے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کو بھی روکنے کو دارالحکومت میں ایک ’’خاص پیغام‘‘کے طورپر قرار دیا جارہاہے ان حلقوں کے مابین یہ ’’خاص پیغا م ‘‘آئندہ آنے والے سیاسی منظر نامے کا صرف ایک ’’ٹریلر‘‘ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا !ایک طرف گزشتہ صبح سے لے کر رات تک اس تنازعہ سے پیدا ہونے والی موجیں دارالحکومت کے سیاسی درو بام سے ٹکراتی رہیں تو دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن نے معزول وزیراعظم محمدنوازشریف کے دوبارہ پارٹی سربراہ بننے میں رکاوٹ بننے والی نااہلی کی شق کو پارٹی آئین سے نکال دیا ، جبکہ نوازشریف کی سیاست میں واپسی کو قانونی تحفظ دینے کیلئے اسمبلی سے بھی اس متنازعہ ترمیم کو منظور کروایا لیا گیا پاکستان تحریک انصاف اوران کے حلیف شیخ رشید احمد نے ایک جذبات انگیز تقریر کرتے ہوئے اس ترمیم کو جمہوریت کے خاتمہ سے تعبیر کیا ، تاہم اسمبلی میں شور و غوغا میں یہ بل منظور ہوگیا ،درحقیقت اراکین اسمبلی صبح نیب عدالت میں پیش آنے والے ایک تنازعہ پر پہلے سے ہی غصہ میں تھے انہوں نے بھی ایوان میں پارلیمانی اور غیر پارلیمانی اسلوب میں اپنے ردعمل کا اظہار کیا ، جبکہ قدرے عجلت میں گزشتہ رات ہی صدرمملکت ممنون حسین نے بھی اس بل پر دستخط کرکے نوازشریف کیلئے دوبارہ پارٹی صدربننے کے راستے کھول دیے،وفاقی دارالحکومت میں گزشتہ روز پیش آنے والے تمام واقعات سیاسی و اخلاقی لحاظ سے قابل تحسین نہ تھے ، اسلام آباد میں محاذ آرائی کے ماحول میں اضافہ ہورہاہے جبکہ عدالت کی جانب سے نااہل ہونے والے وزیراعظم محمد نوازشریف کو پارٹی صدارت دوبارہ سونپنے کے تمام انتظامات کو تیزی کیساتھ حتمی شکل د ی گئی ، ایک ہی دن میں تمام قانونی رکاوٹیں ہٹادی گئیں اگرچہ عالمی جمہوری اقدار کے حوالے سے اس اقدام کی اخلاقی حیثیت کمزور ہے اوراس پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں،لیکن حکمران جماعت کے اکابرین حامی اور کارکنوں میں یہ پختہ تاثر ہے کہ انہیں سیاسی طورپر دیوار سے لگانے کی کوششیں ہورہی ہیں اوران کی قیادت کا فیئر ٹرائل ہورہاہے نہ فئیر پلے ہورہاہے دارالحکومت میں عمل اور ردعمل کے مسلسل جاری ایک چین ردعمل سے اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کی ایک ایسی فضا گرم ہورہی ہے جس سے ملک پر سیاسی بے یقینی کے سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں ، اس تناظر میں آج کور کمانڈر ز کی غیر معمولی کانفرنس بھی منعقد ہونے جارہی ہے آج کور کمانڈرز کانفرنس کا اعلامیہ اور سابق وزیراعظم نوازشریف کے پارٹی صدر بننے کے بعد ان کا خطاب ملک کے ائندہ سیاسی نقشہ کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہونگے ، اگرچہ کور کمانڈر کانفرنس کے انعقاد کا ممکنہ ایجنڈا پاکستان کو در پیش تذویراتی خارجہ چیلنجز سے متعلق ہوگا کیونکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ افغانستان کے اہم ترین کامیاب دورے کے بعد وطن واپس لوٹے ہیں لیکن اس موقع پر ملک کی بنتی بگڑتی سیاسی صورتحال پر غور بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔

مزید :

تجزیہ -