زندہ معجزہ
علامہ اقبال برصغیر کے مسلمانوں کے ایک ملّی رہنما ہونے کے علاوہ ایک فلسفی، سیاستدان اور عظیم فکری قائد بھی تھے۔ اقبال نے اپنے خیالات لوگوں تک پہنچانے کے لیے شاعری کے ذریعے کو اختیار کیا۔ انہیں شاعری پر اس قدر عبور تھا کہ لطیف انسانی جذبوں سے لے کر فلسفیانہ مضامین تک اور ملی جذبات سے لے کر ایمانی احساسات تک ان کی شاعری میں یکساں خوبی کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ دیگر حیثیتوں کے ساتھ ساتھ انہیں ایک عظیم شاعر کے طورپر بھی یاد کیا جاتا ہے۔
علامہ اقبال کی شاعری کے مختلف ادوار ہیں۔ ان کی مشہور کتاب بانگ درا میں شاعری کے یہ ادوار سنین کے تعین کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ ان ادوار کی شاعری کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ اقبال کے خیالات میں بتدریج ارتقا ہوا۔ اسی طرح ان کی شاعری، اسلوب اور ان کا انداز بیان بھی ایک ارتقائی عمل سے گزر کر بتدریج بہتر ہوئے اور ان کی اگلی کتابوں بال جبریل وغیر ہ میں نقطہ عروج پر پہنچ گئے۔
یہ تنہا اقبال کا معاملہ نہیں۔ اس دنیا میں ہر بڑا یا چھوٹا تخلیق کار، مصنف، مفکر، شاعر، ادیب ارتقا کے اسی عمل سے گزرتا ہے۔ وہ سیکھتا ہے ، آغاز کرتا ہے ، غلطیاں کرتا ہے ، اصلاح کرتا ہے اور بتدریج اپنے کام میں بہتری لاتا ہے۔ پھر کہیں جا کر وہ آسمانِ فن و ادب پر ایک تابندہ ستارے کی طرح چمکتا ہے۔ یہ تو ممکن ہے تخلیق کار اپنے ابتدائی کام کو لوگوں میں لانے کے بجائے بعد میں کیے ہوئے اپنے بہتر کام کو پبلک میں لائے۔ لیکن دنیا کے بڑے سے بڑے تخلیق کار کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے تخلیقی کام کا آغاز کرے اور پہلے ہی دن آخری درجے کا کام کرگزرے۔ یہ ایک عالم گیر اصول ہے۔ معلوم تاریخ میں اس اصول سے صرف ایک شخصیت کا استثنا ملتا ہے۔ یہ شخصیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ہے اور اس کا زندہ ثبوت آپ کا پیش کردہ کلام قرآن پاک ہے۔
کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا آخری پیغمبر مانے یا نہ مانے وہ اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتا کہ آپ کا پیش کیا ہوا کلام عربی ادب کا شاہکار تھا۔ قرآن کی ادبی حیثیت کیا تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں مخالفین کو جگہ جگہ یہ چیلنج دیا گیا ہے کہ وہ اس کے جواب میں اس جیسی ایک سورہ ہی بنا کر لے آئیں۔ مگر زبان و ادب میں اپنی تمام تر مہارت کے باوجود اہل عرب اس جیسا کلام نہ لا سکے۔
یہ اس کلام کی عظمت ہے ، مگر دوسری طرف یہ بھی ایک معجزانہ حقیقت ہے کہ اس کلام کو ایک ایسے شخص نے لوگوں کے سامنے پیش کیا جسے پڑھنا لکھنا نہیں آتا تھا۔ جسے زندگی بھر شعر و ادب کا کوئی ذوق و شوق نہیں رہا۔ مگر جب اس ہستی نے یہ کلام پیش کیا تو پہلے دن ہی سے یہ کلام اپنی زبان، بیان، اسالیب اور مضامین کے لحاظ سے آخری درجہ کا کلام تھا۔ یہ کلام 23 برس تک اترتا رہا، مگر اس میں پیش کردہ افکار و خیالات میں کوئی تبدیلی یا زبان و بیان میں کسی ارتقا کا کوئی معمولی سا شائبہ بھی نہیں ملتا۔
اس معجزے کا سبب یہ ہے کہ یہ کلام انسانی کلام نہیں بلکہ خدائی کلام ہے۔ یہ اْس پروردگارِ کائنات کا کلام ہے جو سیکھتا نہیں سکھاتا ہے۔ جو ہر علم کا منبع اور ہر فن کا موجد ہے۔ جو ہر طرح کی غلطی، بھول، نسیان اور ارتقا سے پاک ہے۔ جس کا کوئی آغاز نہیں۔ جس کا کوئی اختتام نہیں۔ ایسا لامحدود رب، ایسا عظیم رب جب کلام کرے گا تو یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کے کلام میں کوئی غلطی، ارتقا یاتضاد پایا جائے۔قرآن پاک پروردگار عالم کا کلام ہے۔ یہ سر تا سر ہدایت ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ سر تاسر ایک معجزہ بھی ہے۔ ایک زندہ جاوید خدائی معجزہ۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔