اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 48

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط ...
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 48

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں دبے پاؤں چل کر بادشاہ کے سرہانے کی طرف آگیا۔ اب پلک جھپکنے میں سب کچھ کرنا تھا۔ میں نے بیک وقت ایک ہاتھ بادشاہ کے منہ پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے خنجر کے ایک ہی وار سے اس کی گردن آدھی سے زیادہ کاٹ کر رکھ دی۔ مگر بادشاہ کے کٹے ہوئے گلے سے ایسی بھیانک آواز نکلی کہ قلو بطرس کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے بادشاہ کو خون میں لت پت ٹرپتے دیکھا تو پلنگ پر سے اچھل کر میری طرف لپکی۔ اس کی موت کا وقت آن پہنچا تھا جو اس نے ایسی حرکت کی۔ اس نے ایک ہاتھ سے میرے چہرے کا نقاب نوچ لیا اور میری شکل دیکھ کر اس کے منہ سے صرف اتنا نکل سکا۔ ’’ بطلیموس تم ؟‘‘
اگر وہ میرا نقاب نہ نوچتی اور میری شکل نہ دیکھتی تو میرا ارادہ اسے کوئی گزند پہنچانے کا نہیں تھا لیکن اب وہ ایک خطرناک گواہ بن گئی تھی اور میں اسے کسی طور بھی زندہ نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ میرے خنجر کا دوسرا وار قلوبطرس کے سینے پر پڑا۔ وہ دہری ہو کر سکڑ گئی۔ میں نے اسے بھی وہیں ختم کر دیا اور خنجر لبادے میں چھپا کر سرنگ کے خفیہ راستے سے ہوتا ہوا واپس اپنی خواب گاہ میں آگیا۔

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 47پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
صبح محل میں شور مچ گیا کہ کسی نے بادشاہ فیلقوس اور اس کی بیوی قلوبطرس کو قتل کر دیا ہے۔ سکندر اپنے باپ کی لاش پر سوگوار کھڑا تھا اور میں اسے حوصلہ دے رہا تھا اور اس کی دل جوئی کر رہا تھا۔ سلطنتوں کی سیاست اور شاہی محلات کی سازشی فضاؤں نے مجھے یہی کچھ سکھایا تھا اور اس وقت تو مجھ پر سکندر کی والدہ کے سحر کا اثر بھی تھا۔ جب میں اس سحر سے نکلا تو مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا لیکن اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔ اس روز اولمپیاس ایک ملکہ کی طرح شاہ محل میں واپس آگئی اور اس نے اپنے بیٹے سکندر کے بادشاہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ دربار کے سبھی امراء اس حسین ساحرہ کے ساتھ ملے ہوئے تھے اور اس نے شاہی محل کے چپے چپے میں اپنی ساحرانہ سازشوں کا جال پھیلا رکھا تھا۔ سکندر اب سکندر اعظم تھا۔ دیکھتے دیکھتے اس نے پورے یونان کو فتح کر لیا اور پھر مصر پر چڑھائی کردی اور اسے بھی زیر نگین کرلیا۔ اب وہ ایران اور اس کے بعد ہندوستان پر پر چڑھائی کرنے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ میں اس کے گہرے اور قریبی دوست اور مشیر خاص کی حیثیت سے اس کے ساتھ ساتھ رہتا تھا۔
سکندر ہی کے ساتھ میں نے پہلی بار یونان کے عظیم الشان اور گمنام فلسفی دیوجانس کلبی کو دیکھا۔ اس کے بارے میں عجیب عجیب باتیں درس گاہ اور مقدونیہ میں مشہور تھیں کہ وہ جنگلوں میں روپوش ہو کر رہتا ہے اور کسی سے نہیں ملتا۔ استاد زماں ارسطو بھی اس کا بڑا احترام کرتا تھا مگر وہ ارسطو کے ہمراہ شاہی محل کی طرف جاتے ہوئے زیتون کے باغ کے قریب سے گزرا تو ایک مضبوط تن و توش کا آدمی بوسیدہ لبادہ اوڑھے باغ کے باہر زمین پر آلتی پالتی مارے بیٹھا انگلی سے اقلیدس کی اشکال بنا رہا تھا۔ سکندر علما اور فلسفیوں کا بے حد احترام کرتا تھا۔ وہ اس فلسفی کو پہچان گیا اور چلتے چلتے گھوڑے کی باگ کھینچ کر بولا۔
’’ بطلیموس ! جانتے ہو یہ کون بیٹھا ہے یہ دیو جانس کلبی ہے۔‘‘
میں پہلی بار اس یگانہ روزگار اور تاریخ فلاسفہ کی منفرد شخصیت کو دیکھ رہا تھا۔ جس کے بال کافی حد تک سفید ہوچکے تھے۔ وہ انگلی سے زمین پر اقلیدس کی شکلیں بنانے میں اس قدر محو تھا کہ اسے احساس ہی نہ ہوا کہ سکندر اعظم گھوڑے سے اتر کر اس کے قریب آکر کھڑا ہوگیا ہے۔ موسم سرد تھا اور دھوپ نکلی ہوئی تھی مگر سکندر کا سایہ دیوجانس پر پڑنے لگا تھا۔ اس کے دل میں اپنی برتری کا ایک شدید احساس بیدار ہو چکا تھا۔ اصحاب علم و دانش کی تکریم و تعظیم کے باوجود وہ چاہتا تھا کہ اس کی بھی تعظیم و تکریم کی جائے مگر میں خاموش کھڑا تھا۔ سکندر نے کہا۔
’’ دیو جانس ! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں سکندر اعظم ہوں۔‘‘
دیو جانس کلبی نے سراوپر اٹھائے بغیر کہا۔ ’’ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں دیو جانس کلبی ہوں ؟‘‘
سکندر دیو جانس کی اس شان بے نیازی اور احساس خودی سے بے حد متاثر ہوا۔ اس نے کہا۔ ’’ دیو جانس ! تم اس وقت جو مانگو میں تمہیں دے دوں گا۔‘‘
دیو جانس نے اب بھی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔ سکندر کا سایہ اس پر پڑرہا تھا۔ اس نے صرف اتنا کہا۔ ’’ دھوپ چھوڑ دو۔‘‘
سکندر ایک لمحے کے لئے گویا سناٹے میں آگیا۔ اس نے ابھی تک ارسطو ایسے فلسفی دیکھے تھے جن پر شاہی نوازشات کی ہر وقت بارش ہوتی تھی اور جو اپنی درسگاہ کے باغ میں رہتے ہوئے بھی ایک شاہی امیر کی طرح زندگی بسر کر رہا تھا اور اب اس کے سامنے زمین پر ایک ایسا فلسفی بیٹھا تھا جو علم و حکمت میں ارسطو سے دو قدم آگے تھا مگر شان بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ اس نے سکندر اعظم ایسے بلند مرتبت شہنشاہ کی پیش کش کو ٹھکڑا دیا تھا۔ سکندر نے میری طرف دیکھا اور کہا۔
’’ دیوتا زیوس کی قسم ! اگر میں سکندر نہ ہوتا تو دیو جانس کلبی ہوتا اور اگر دیو جانس کلبی فلسفی نہ ہوتا تو سکندر اعظم ہوتا۔ ‘‘
سکندر اعظم نے بڑی بلیغ بات کہہ دی تھی۔ ہم شاہی محل کی طرف چل پڑے۔ یونانی علم و حکمت نے ارسطو کی وساطت سے سکندر کے گردار کو ایک خاص سانچے میں ڈھال دیا تھا۔ اگرچہ اسے اپنے ایک عظیم و برتر بادشاہ ہونے کا احساس تھا مگر اس نے خود کو کوئی خطاب نہیں دے رکھا تھا۔ سکندر اعظم کا خطاب بھی دوسرے مفتوحہ ممالک کے امراء وزراء نے اسے دیا تھا۔ سکندر اعظم کے ہر معرکے اور فتوحات میں میں اس کے ہم رکاب رہا۔ اس نے جتنے بھی ملک فتح کئے وہاں کے لوگوں کے ساتھ اس نے حسن سلوک کا مظاہرہ کیا اور لوٹ مار ہونے دی نہ عورتوں کو ذلیل و رسوا ہونے دیا اور نہ بستیوں کو آگ لگائی بلکہ اس نے نئی بستیاں تعمیر کروائیں اور جنگلوں میں رہنے والے لوگوں کو وہاں آباد کیا۔ ہاں جب اس نے ایران فتح کیا تو اس پر ایرانی دربار کی سطوت اور جاہ و جلال کا بڑا گہرا اثر ہوا۔ مفتوح ایرانی شہنشاہ دارا کے دربار میں آکر اس نے پہلی بار دیکھا کہ بادشاہ کی ایک دیوتا کی طرح پرستش ہوتی ہے اور اسے خدا کا اوتار سمجھا جاتا ہے ہندوستان پر حملے اور پنجابی راجاؤں کے ملک فتح کرنے کے بعد سکندر کے دل میں یہ احساس اور زیادہ شدت اختیار کر گیا اور اس نے اپنے دیوتا ہونے کا اعلان کر دیا۔ (جاری ہے)

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 49 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں