بجلی کے صارفین سے53ارب روپے وصول کرنے کا منصوبہ
حکومت نے بجلی کی تمام تقسیم کار کمپنیوں کے لئے بجلی کے نرخوں میں 53پیسے فی یونٹ کا اضافہ کر دیا ہے،اس اضافے کا اطلاق یکم اکتوبر سے ہو گا اور اگلے سال30ستمبر تک جاری رہے گا،اس عرصے میں صارفین سے53ارب 52 کروڑ روپے جمع کئے جائیں گے،تاہم اس نئے اضافے کا اطلاق کے الیکٹرک اور300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں پر نہیں ہو گا،اس وقت بجلی کے مختلف ٹیرف نافذہیں، گھریلو صارفین اور کمرشل صارفین کے لئے نرخ الگ الگ ہیں،اسی طرح صنعتی صارفین سے بھی مختلف قسم کے ٹیرف کے تحت رقم وصول کی جاتی ہے،300 یونٹ سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین 700یونٹ تک17.60روپے اور اس سے اوپر20.70 روپے ادا کرتے ہیں، زیادہ بجلی خرچ کرنے کی صورت میں نرخ اور بھی زیادہ ہوتے ہیں،ان سب صارفین کو الیکٹریسٹی ڈیوٹی، ٹی وی فیس، جی ایس ٹی، نیلم جہلم سرچارج اور ایف سی سرچارج کی شکل میں بھی مختلف ٹیکس ادا کرنے پڑتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ نیلم جہلم سرچارج اب تک وصول کیا جا رہا ہے،حالانکہ اس ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تعمیر کے لئے سرچارج لگایا گیا تھا، اب جبکہ یہاں سے بھی بجلی کی پیداوار شروع ہو چکی ہے، تو بھی یہ سرچارج وصول کیا جا رہا ہے اور اسے مستقل آمدنی کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے،حالانکہ اب اسے بند ہو جانا چاہئے،اِس لئے خدشہ ہے کہ53 پیسے یونٹ کے حساب سے بجلی کا جو ٹیرف اب ایک سال کے لئے بڑھایا گیا ہے یہ بھی مستقل ہو جائے گا۔
ایک ہزار یا 1200 یونٹ ماہوار استعمال کرنے والے صارفین کو اِس وقت 30 ہزار سے زیادہ بل ادا کرنا پڑتا ہے،جس میں ٹیکسز بھی شامل ہوتے ہیں یہ صارفین وہ ہیں،جو گرمیوں کے موسم میں ایک یا دو ائر کنڈیشنرز مختلف اوقات میں استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، کیونکہ گرمی کا موسم اس حد تک شدید ہو جاتا ہے کہ ائر کنڈیشنر کے بغیر گزارا نہیں،اِس لئے عام صارفین کی آمدن کا بڑا حصہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی پر خرچ ہو جاتا ہے، اب جبکہ قیمتیں مزید بڑھی ہیں تو اُن پرمزید بوجھ پڑے گا،یہی اضافہ شدہ بل چھوٹے یا بڑے دکاندار یا کارخانہ دار بھی ادا کریں گے تو اُن کی کوشش ہو گی کہ وہ یہ اضافہ اپنے گاہکوں سے وصول کریں۔ دوسرے الفاظ میں صنعتی اداروں کی تیار کردہ مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا اور اسی طرح دکاندار بھی اضافہ شدہ بل گاہکوں سے وصول کرنے کے لئے اشیاء مہنگی کر دیں گے۔ابھی گزشتہ روز ہی وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آٹے اور روٹی کی قیمتوں میں اضافے پر ناراضگی کا اظہار کیا گیا،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا محض ناراض ہو جانے سے قیمتیں کم یا زیادہ ہو سکتی ہیں،قیمتوں کا تو ایک میکنزم ہے وہ اس کے تحت ہی بڑھتی یا کم ہوتی ہیں یا پھر تاجر کبھی کبھار ذخیرہ اندوزی کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں،لیکن بجلی کی قیمتوں کی کمی بیشی بھی قیمتوں پر اثر انداز ہوتی ہے،مثال کے طور پرگندم پیسنے والی فلور ملوں کو اگر بجلی مہنگی ملے گی تو وہ آٹا اور دوسری مصنوعات مہنگی کر دیں گی، آٹا صرف کابینہ کی خوشی یا ناراضی کے لئے تو سستا یا مہنگا نہیں کیا جا سکتایہ مارکیٹ فورسز کے دباؤ کے تحت ہی کم یا زیادہ ہو گا۔
وزیراعظم نے صوبائی حکومتوں سے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ آٹا اور روٹی مہنگی نہ ہونے دیں، لیکن اب جبکہ بجلی مہنگی ہو گئی ہے تو سوال یہ ہے کہ آٹا اور روٹی کیسے سستی رہ سکتی ہے، اور صرف آٹے اور روٹی کا معاملہ ہی نہیں ہے جو اشیا بھی تیاری کے لئے بجلی کی مرہونِ منت ہیں ان سب کی قیمتوں میں تھوڑا بہت اضافہ ہو گا، اور یہ فطری امر ہے،حکومت اگر مہنگائی کے اس سرکل سے نکلنا چاہتی ہے تو بجلی سستی کرے، صنعتوں کو بجلی سستی ملے گی تو اشیا بھی سستی تیار ہوں گی،محض نیک خواہشات سے نہ توکوئی چیز سستی ہو سکتی ہے اور نہ مہنگی،اشیا اپنی لاگت کی بنیاد پر اپنی قیمت کا تعین خود کرتی ہیں اگر تیاری کے مراحل میں استعمال ہونے والی اشیا یعنی بجلی گیس وغیرہ سستی ہوں گی تو اشیا بھی سستی تیار ہوں گی اور مارکیٹ میں سستی دستیاب ہوں گی،جوں جوں پیداواری لاگت بڑھتی جائے گی اشیائے صرف بھی مہنگی ہوں گی اور صارف کو مہنگے داموں ہی خریدنی ہوں گی،محض احکامات جاری کرنے سے چیزیں اگر سستی یا مہنگی ہوتی ہوں تو چند انتظامی احکامات کے ذریعے مہنگائی ختم کی جا سکتی ہے،لیکن ایسا ممکن نہیں، وزیراعلیٰ پنجاب تقریباً روزانہ ایک بیان مہنگائی کم کرنے کے لئے دیتے ہیں اور اپنے افسروں کو بھی کہتے ہیں کہ وہ دفتروں سے باہر نکل کراشیا کی قیمتیں کنٹرول کریں،لیکن آج تک کسی ایسی چیز کی قیمت کم نہیں ہوئی،جو اپنے دوسرے عوامل کی وجہ سے بڑھ چکی ہیں،اِس لئے کسی صوبائی حکومت یا کسی وزیراعلیٰ کے حکم سے آٹا سستا ہو سکتا ہے نہ روٹی، اس کا بہترین حل تو یہ ہے کہ حکومت پہلے سے مہنگی بجلی کی قیمت میں مزید اضافہ نہ کرے اور عوام کی جیبوں سے53ارب روپے نکالنے کا یہ سنگدلانہ فیصلہ منسوخ کر دے۔اگر بجلی کی قیمت بڑھے گی تو مہنگائی کے نئے طوفان کو روکنا مشکل ہو جائے گا۔
پچھلے دِنوں انتظامیہ نے روٹی سستی کرانے کی بڑی ترکیبیں شروع کیں، کبھی گیس پر سبسڈی دینے کا اعلان کیا اور کبھی آٹے کے تھیلے پر سیلز ٹیکس ختم کرنے کے لئے کہا اور نانبائیوں کو خبردار کر دیا کہ روٹی 8 روپے سے زیادہ فروخت نہ کریں،لیکن پشاور میں روٹی اور نان آج بھی15روپے میں فروخت ہو رہے ہیں۔البتہ لاہور کی روٹی چونکہ اتنی ہلکی ہوتی ہے کہ پھونک مارنے سے اُڑ جاتی ہے، اِس لئے جہاں کہیں یہ آٹھ روپے میں فروخت ہو رہی ہے وہاں اس کا وزن اور بھی کم کر دیا گیا ہے،اِس لئے بجلی کی قیمتیں بڑھنے کے بعد روٹی نان وغیرہ کی قیمت بھی بڑھ جائے گی۔
حکومت اگر بجلی کی قیمتیں بڑھائے گی تو پھر اسے مہنگائی کی لہر میں اضافے کی توقع بھی رکھنی چاہئے، اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ مہنگی بجلی بنانے کی بجائے یا بجلی بنانے والے اداروں سے مہنگی خریدنے کی بجائے پانی سے سستی بجلی تیار کی جائے،جو آج بھی سستا ترین ذریعہ ہے اسی طرح شمسی توانائی سے بھی سستی بجلی حاصل ہو سکتی ہے،اس طریقے کو رواج دینے کے لئے کئی ممالک نے صارفین کو قرضے دینے شروع کئے ہیں تاکہ ان قرضوں سے وہ شمسی توانائی کے پینل لگا سکیں۔یہ ون ٹائم انوسٹمنٹ ہے اور ایک ہی بار اخراجات کر کے بعد میں سال ہا سال مفت بجلی حاصل کی جاسکتی ہے،ایسی کوئی سکیمیں شروع کی جائیں تو سستی بجلی میسر آ سکتی ہے،مہنگی بجلی مہنگائی کا ہی چکر چلائے گی ایسے چکر سے محض خوشنما بیانات کے ذریعے بچنا مشکل ہے۔