چونیاں!بچوں کا مبینہ قاتل گرفتار! مگر؟
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے انسپکٹر جنرل پولیس عارف نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ چونیاں میں چار معصوم بچوں کے مبینہ قاتل کو گرفتار کر لیا گیا ہے، ملزم کا نام سہیل شہزاد اور وہ تنور پر کام کرتا اور رانا ٹاؤن میں رہتا ہے۔وزیراعلیٰ نے اس کارروائی پر پولیس اور جے آئی ٹی کی کاوشوں کی تعریف کی اور بتایا کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی مبارکباد دی ہے، پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ ملزم کی شناخت ڈی این اے ٹیسٹ سے ہوئی اور اس نے اعتراف جرم بھی کر لیا ہے،اس کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 بھی لگائی گئی ہے اور مقدمہ کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہو گی، مقتولین کے وارثان کو پورا انصاف مہیا کیا جائے گا۔وزیراعلیٰ نے جرائم کی روک تھام کے لئے مزید اعلان بھی کیا اور بتایا کہ ضلع قصور میں بھی سیف سٹی پروگرام شروع کیا جائے گا۔ان چار معصوم بچوں کی بے حرمتی اور قتل کے حوالے سے کی جانے والی تفتیش سے جلد ہی ملزم کا سراغ لگا کر اُسے گرفتار کر لیا گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ ملزم پہلے بھی بے حرمتی کے الزام میں پانچ سال قید کی سزا کا اہل قرار پایا اور ڈیڑھ سال بعد جیل سے رہا ہو کر آ گیا تھا۔دوسرے معنوں میں عادی مجرم ہے تاہم اس سے پہلے اس کے ذمہ قتل کی کوئی واردات نہیں۔ملزم کی گرفتاری اور انسپکٹر جنرل پولیس کے بقول اعتراف جرم سے یہ باب بند ہو گیا تاہم بعض حلقوں کے نزدیک ابھی کئی سوال باقی ہیں،اول یہ کہ پہلے تین بچے وقفہ وقفہ سے اغوا ہوئے اور ان کے ڈھانچے ملے تھے، جبکہ ایک مقتول تھوڑے روز پہلے گم ہوا اور اس کی نعش ملنے پر تفتیش کا آغاز ہوا اور ڈھانچے ملے،ان سب کی شناخت بھی ڈی این اے ٹیسٹ سے ہوئی، پھر یہ بھی بتایا گیا ہے موقع واردات پر ٹریکٹر ٹرالی اور رکشا کے ٹائروں کے نشان ملے اور رکشا ٹائروں کی مدد سے بھی ملزم تک رسائی ہوئی۔یوں یہ جرم طشت ازبام ہو گیا، ہم اس پر مبارک دیتے ہیں، تاہم یہ ضرور دریافت کریں گے کہ جن حالات میں اور جیسے جیسے بچے اغوا ہوئے ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملزم ان کو صرف ویرانے میں لے جا کر ہی جرم کا ارتکاب نہیں کرتا رہا، بلکہ اس کے پاس کوئی ایسی جگہ تھی، جہاں مغوی کو رکھتا،ہوس پوری کرتا اور پھر قتل کر کے ویرانے میں پھینک دیتا۔ گزارش صرف یہ ہے کہ اتنی تیزی اور صرف ایک ہی فرد کے ارتکاب جرم کی کہانی میں بعض ماہرین جھول تلاش کر رہے ہیں،اِس لئے بہتر ہو گا کہ بہت تیزی دکھانے کی بجائے تفتیش کا دائرہ بڑھایا جائے۔ ملزم کے معاون بھی تلاش کئے جائیں اور اس پہلو پر بھی تفتیش کر لی جائے کہ ایسے سنگین جرائم ضلع قصور میں زیادہ ہوئے اور اسی ضلع سے ویڈیو بنانے والے بھی پکڑے گئے،اِس لئے معصوم زینب اور اس سے بچوں کی گمشدگی، قتل اور ویڈیو والے واقعات کو بھی تفتیش کا حصہ بنایا جائے، شاید مکمل اور بڑے گروہ کا انکشاف ہو۔