کتاب کا کوہِ گراں
فرسٹ ائیر کی کلاس کا پہلا دِن تھا۔ سکول میں ”مولا بخش“ کی روح فرساء دہشت سے آزادی کا تصوّر اور کالج کی آزاداوررومانوی فضا کے خواب دلوں میں بسائے طلباء کلاس میں اٹکھیلیوں میں مصروف تھے،اچانک پتلون کوٹ پہنے، ماتھے پہ ہلکے سے بال گرائے، آنکھوں پر سیاہ چشمہ لگائے، ہاتھ میں سمارٹ سا سوٹ کیس پکڑے پروفیسر اقبال بخت صاحب کمرۂ جماعت میں داخل ہوئے، سوٹ کیس روسٹر م پر رکھا،چشمہ اتارا، السلام علیکم کہا اور طلباء سے مخاطب ہوئے”آپ میں سے کتنے لڑکے جانتے ہیں کہ اس سال سرگودھا بورڈ کاانٹرمیڈیٹ کا رزلٹ کتنے فیصد رہا“ سب طلباء پروفیسر صاحب کی جانب خالی نگاہوں سے تک رہے تھے۔انہوں نے پھر پوچھا ”آپ میں سے کسی کو معلوم ہے کہ پچھلے سال سرگودھا بورڈ کاانٹر میڈیٹ کا رزلٹ کتنے فیصد تھا“۔ طلباء کی نظریں اپنی لا علمی پر جھکی ہوئی تھیں۔ پروفیسر صاحب طلباء کی عدم آگاہی کو بھانپتے ہوئے بولے۔”اگر نہیں معلوم تو کوئی بات نہیں، مگر مجھے نہ صرف اس سال کے انٹرمیڈیٹ کے نتیجے کاعلم ہے،بلکہ گزشتہ سال کے نتیجے کا بھی اور پچھلے کئی سال کے نتائج کا،اور وہ بھی نہ صرف سرگودھا بورڈ کے نتائج کا،بلکہ دیگر تعلیمی بورڈز کے نتائج کا بھی علم ہے۔
میری آگاہی کے مطابق پنجاب کے کسی بھی تعلیمی بورڈ کا نتیجہ آج تک 25فیصد تک کبھی نہیں گیا۔ یہ 21فیصد سے 24فیصد کے درمیان کہیں نہ کہیں اٹکا رہتا ہے۔ آپ لوگ کامیابی کی ضمانت افلاک سے لے کر نہیں آئے کہ اس سال بورڈ کا نتیجہ سو فیصد آجائے گا۔ آپ کا نتیجہ بھی 21 فیصد سے 24فیصد کے اندر گرنا ہے، جنہوں نے اپنی عادات، ارادوں اور مشاغل کی بدولت فیل ہونے والی کثیر تعداد کا حصہ بننا ہے وہ آپ ہی میں موجود ہیں۔ میری انہیں نصیحت ہے وہ اپنے ماں باپ کا وقت اور پیسہ ضائع نہ کریں،جس نے فیل ہونے کے بعد رکشہ چلانا ہے، ریڑھی لگانی ہے، بس کنڈکٹر بننا ہے، کھیتی باڑی کرنی ہے یا ریچھ کُتے لڑانے ہیں،وہ دو سال کا انتظار کیوں کرتے ہیں، آج ہی شروع کر دیں، کیونکہ ان پچھلی تین دہائیوں سے مَیں نے نتائج میں کوئی معجزہ ہوتے نہیں دیکھا“۔
آج جب میں ا ستادِ محترم کی باتوں کو یاد کرتا ہوں تو بظاہر دل شکن اور طنز سے لبریزسی لگتی ہیں،مگر آپ کسی رکشہ ڈرائیور، ریڑھی بان،کوچوان، کھیت یا فیکٹری کے مزدور، یہاں تک کہ نشیء یا بھکاری سے پوچھ کر دیکھئے کہ ان کے والدین نے ان کے لئے کیا یہی دعائیں مانگی تھیں کہ ان کی اولادِ عزیز کے مستقبل کا معاشی انحصار اس طرح کی گزراوقات پر ہو۔ہرگز ایسا نہیں،سب نے ہی ان کے مستقبل کے سہانے خواب دیکھے جو پورے نہ ہوئے۔ ان خوابوں کی تعبیر نہ ملنے کی وجہ کتاب کابار گرِاں ہے جسے ان کی اولادیں اٹھانے کی سکّت نہیں رکھتی تھیں۔
میری نظر میں دُنیا کا مشکل ترین کام کتابوں میں اور کتابوں سے دِل لگانا ہے۔ کتاب دُنیا کا سب سے وزنی پتھر ہے، اسے اٹھانا ہر کس و ناکس کے بس کا روگ نہیں، مگر جو اسے اٹھا لیتا ہے یہ اسے عزّت، دولت اور شہرت کی قابل ِ رشک بلندیوں تک پہنچا دیتی ہے اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں، جنہیں کتاب کا کوہِ گراں خوف زدہ کر دیتا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنے سرپر ریت اور سیمنٹ کی تگار اٹھا لیتا ہے، کوئی ریڑھی بان بن جاتا ہے، کوئی کوچوان، کوئی رکشہ ڈرائیور، کوئی بس کنڈکٹر، کوئی چھابڑی والا اور یہاں تک کہ کوئی نشے کا عادی یا بھکاری بن جاتا ہے، کیونکہ سب کو کتاب کے وزن تلے اپنی سانسیں گھُٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں، اور ہر سال بورڈ کے نتائج پروفیسر اقبال بخت صاحب کے تجربے اور تجزیے کی روشنی میں آتے رہتے ہیں۔
فی زمانہ کتاب سے فاصلے بڑھانے میں جہاں سوشل میڈیا نے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں، وہاں سرکار کا بھی طلباو طالبات کو کتاب گریزی کی طرف مائل کرنے میں برابر کا حصہ ہے۔ نوجوان طلباو طالبات کے ہاتھوں میں لیپ ٹاپ پکڑا کر یہ آس رکھنا کہ وہ ان سے استفادہ کر کے کئی کتابوں کی کمی کو پورا کر لیں گے بالکل اس طرح ہے جیسے شیر کے آگے گوشت کے ساتھ گھاس ڈال دینا کہ وہ آہستہ آہستہ اسے بھی کھانا سیکھ جائے گا۔ عالمی سطح پر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے منفی استعمال پر ہونے والے تحقیقی جائزوں کی رو سے پاکستان دنیا کا نمبر ایک ملک ایسے ہی نہیں بن گیا۔ اس کا سبب انٹرنیٹ تک آسان، سستی اور بلا روک ٹوک رسائی ہے۔
جدید مواصلاتی مشینیں کتابوں کا نعم البدل کبھی بھی نہیں ہو سکتیں۔ آپ تجربہ کر لیجئے۔ایک بچے کوسیلیبس اور اسکی معاون کتابیں اور دوسرے بچے کو سیلیبس اور انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کر دیں، آپ کو بہتر نتیجہ پہلے بچے سے ہی ملے گا،کیونکہ اس کی توجہ کو آپ نے مرکوز کر دیا،جبکہ دوسرے بچے کے سامنے آپ نے کتابوں کے علاوہ اور بہت سی مشغولیات پیش کر دیں،جو اسے اپنی طرف زیادہ متوجہ کرنے کا وصف رکھتی ہیں۔
کتاب پڑھتے ہوئے آپ کو اونگھ آنے لگتی ہے، کیونکہ اس کا وزن آپ کے ا عصاب پر گراں گزرتا ہے۔ ایک پڑھا لکھا شخص اس کو نیند کی خوراک کے طور پر بھی استعمال کرتا ہے،جبکہ دوسری جانب موبائل اور انٹرنیٹ پر بیٹھا ہوا طالب علم رات کے تیزی سے گزرتے لمحات سے بے خبر ہوتا ہے۔ اس کے شب و روز لاحاصل معلومات کے تعاقب میں ریت کے ذرّوں کی طرح گرِتے چلے جاتے ہیں،اورہر گزرتا لمحہ اس کی ناکامی پر مہر ثبت کرتا چلا جاتا ہے، مگر وہ اپنی ناکامی کو اپنے مشاغل اور عادات کا حاصل ماننے کی بجائے کبھی نظام کو کوستا ہے، کبھی والدین کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے توکبھی حالات کے ناسازگارہونے کا رونا روتا ہے، مگر کتاب کی طرف رجوع پھر بھی نہیں کرتا،کیونکہ اسے یہ کوہِ گرِاں دِکھائی دیتا ہے۔نتیجتاً کوئی ریڑھی بان بن جاتا ہے، کوئی بس کنڈکٹر،کوئی چھابڑی والا، کوئی کھیت یا فیکٹری کا مزدور اور کوئی نشی یا بھکاری بن کر گلیوں میں دریُوزہ گری کرتاہے۔