متبادل
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافہ ایک مشکل فیصلہ ہے، لیکن اس کی وجہ عالمی منڈی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں۔ پاکستان میں اضافہ عالمی منڈی کے مقابلہ میں کم کیا گیا ہے۔ آج بھی اکثر ممالک سے پاکستان میں تیل کی قیمت کم ہے۔ جناب حماد اظہر کے کئے اس تازہ ترین ٹویٹ پر لندن بیٹھے پی ٹی آئی کے سپورٹر میرے کلاس فیلوز کا شدید ردعمل آیا کہ جناب پاکستانیوں کی آمدن بھی بیرون ملک کے رہائشیوں کی طرح کر دیں پھر جناب عمران خان اور وزرا کرام بیرون ملک بڑھتی مہنگائی کے تقابلی ٹویٹ کریں، کسی کو برا محسوس نہیں ہو گا۔
حالت یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں مر مر کر تین سال بعد معمولی اضافہ کیا گیا اور تو اور کروڑوں نوکریاں اور لاکھوں گھر بنانے کے دعویداروں نے نئی نوکریاں دینے کے بجائے پکی نوکری والے 17000 افراد کی فراغت پر لڈیاں ڈالیں کہ خس کم جہاں پاک، صرف اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا جا رہا، پی ٹی آئی کے جادوگر سرکاری ملازمین کی پنشن ختم کرنے کی لوریاں سنا رہے ہیں،اس سارے جھمیلے میں پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ ووٹ دینے والی مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی تو جیسے قل خوانی ہو گئی۔ اخبارات، الیکٹرانک و سوشل میڈیا حتی کہ پی ٹی آئی کے حمایتی بھی چیخ اٹھے کہ ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے اور نہ ہی ہم حکومتی نااہلی کا دفاع کر سکتے ہیں، مہنگائی کے سونامی کو کنٹرول کریں یہ پی ٹی آئی کو ہڑپ کر جائے گی۔جناب عمران خان ملکی تاریخ کی بدترین مہنگائی کو سابق حکمرانوں کی کرپشن سے جوڑ کر بری الذمہ ہو رہے ہیں۔
وزیراعظم اپنی ہر تقریر میں چوروں کو نہیں چھوڑوں گا، این آر او نہیں دوں گا کے رٹے رٹائے جملے بولنے کے علاوہ کچھ نہیں کہتے، ستم ظریفی کی انتہا، گھر کی بات گھر میں رہنے دینے کے بجائے، عالمی میڈیا میں جناب نواز شریف اور جناب زرداری کو چور ثابت کرنے پر تلے ہوئے۔جناب عمران خان کی تین سالہ کارکردگی پر ہر شخص ہی بات کر رہا ہے کہ، اربوں ڈالر آئے وہ کہاں گئے؟ قرضہ ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے، کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ نظر نہیں آرہا، ہاں تقریروں سے عوام کا پیٹ بھرا جا رہا ہے۔اس سارے بکھیڑے میں سب سے مطمئن شخص جناب عمران خان، ان کی پارٹی پر گرفت صفر/صفر، ہر ممبر احسان جتلا کر پارٹی پر بھاری بھرکم بوجھ بنا ہوا ہے، بلیک میلر ٹولہ الگ سے پارٹی پر آلو، اردگرد چوری کھانے والے میاں مٹھو، امریکی شہریت کے مالک، وقت آنے پر موسمی پرندے کی طرح اڑ کر اپنے دیس چلے جائیں گے، پارٹی بدل کر لوٹا کہلوانا جن کا طرہ امتیاز ہے، نچلی سطح پر پارٹی کی تنظیم سازی سے کسی کو سروکار نہیں، چاروں طرف مالشیوں، پالشیوں کی فوج ظفر موج ہے۔ لطیفہ گوئی، مدح سرائی، ٹوئیٹر پر کپتان کی تعریفوں کے پل باندھنا، نوکری برقرار رکھنے کا سپر فارمولہ انہی کے پاس ہے۔
اس کے برعکس حکومت کی نیک نامی، اچھی شہرت، آئینہ دکھانے والے مخلصین کو دشمن نمبر1، اپوزیشن کا ایجنٹ قرار دینا پی ٹی آئی مشیران کا اصل کام یہی ہے۔ ان کے دیئے گئے مشورہ جات پر شعبہ صحت میڈیکل کالجز میں داخلہ کے لئے انٹری ٹیسٹ ایم ڈی ایٹ کیٹ ٹھیکے پر دینا، پی ایم سی کا ایم بی بی ایس کے بعد این ایل ای امتحان، سرکاری ہسپتالوں میں ایم ٹی آئی ایکٹ کے نامعقول فیصلے کرنا ہے۔……پنجاب میں ڈینگی کے سیزن سے پہلے سپرے نہ کرنا، سرویلنس ٹیموں کا لاروا کی تلاش میں شکاریوں کی طرح ہر گلی محلے میں نہ پھرنا اور وزیر صحت پنجاب کی طرف سے سی ایم کو سب اچھا کی رپورٹ دینا، کورونا اور ویکسین بارے عوام الناس کو آگاہی فراہم نہ کرنا، وزرا کا فوٹو سیشن کے بعد ٹوئیٹر پر واویلا کرنا، پی ٹی آئی حکومت کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔
جناب عمران خان کا عوامی مسائل و مہنگائی سے دور دور کا واسطہ نہیں، آج کل سوشل میڈیا پر ان کی پرانی تقاریر چلا چلا کر بھد اڑائی جا رہی ہے، ان کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں، وہ عالمی لیول پر صف اول کے لیڈر بننے کے لئے سرگرداں ہیں،افغانستان کے حوالہ سے امریکیوں کو موٹویشنل سپیکر کی طرح لیکچر دینا ان کا فرض اولین بن گیا، حضرت کی انتہا، ایف اے ٹی ایف، آئی ایم ایف، 20 امریکی سینٹرز کی پاکستان مخالف لٹکتی تلوار کے باوجود کپتان سپر پاور امریکہ کے خلاف جارحانہ انداز اپنائے ارتغل غازی بنتے جا رہے ہیں۔اسی بنا پر ہوا کے دوش پر سفر کرتے جناب عمران خان کو 14.4ملین ٹوئیٹر فالورز، صحت انصاف کارڈ، احساس پروگرام، پناہ گاہوں اور اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹوں سے اگلے پانچ سال کے لئے اپنی حکومت پکی ہونے کا یقین ہو چکا ہے اور ان کے بقول ان کا کوئی متبادل بھی نہیں جبھی تو آئے روز پٹرول، بجلی، گیس، آٹا، چینی، گھی کے بم گرا کر عوام کا ستیاناس کرنا ان کا انتخابی نشان بن چکا ہے۔
خاکسار نے جناب عمران خان کی صادق و امین کی فلاسفی، باقی سب چور اور میرا کوئی متبادل نہیں کا ذکر امریکہ میں مقیم پی ٹی آئی لور سے کیا تو انہوں نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہ ملک پاکستان میں ہر گلی محلہ میں جناب عمران خان کا متبادل پھر رہا ہے،وہ آنکھیں کھولیں، قصیدہ گو، طبلچیوں سے جان چھڑائیں، خوش فہمی میں لکھے گئے اس اسٹامپ پیپر کے چنگل سے آزادی پائیں کہ کپتان جی ٹھوک کر مہنگائی کریں، ڈالر 200 روپے تک جانے دیں، میڈیا کا خوب گلا دبائیں، روزانہ نیا تماشہ لگائیں، آپ بے فکری کی نیند سوئیں، اگلے الیکشن میں آپ ہی قائد اقتدار ہوں گے۔