وہ نفرت کا جواب نفرت سے نہیں دیتے تھے
مصنف: ڈاکٹر صائمہ علی
قسط:8
اونچے منصب پر فائز ہونے کی وجہ سے لوگ ان سے اپنے کام نکلوانے آتے تھے۔ سالک نے اس منصب سے کبھی اپنے لیے ناجائز فائدہ حاصل نہیں کیا تووہ دوسروں کے غلط کام کیسے کر سکتے تھے جن کے کام وہ نہیں کرتے تھے۔اس طبقے نے انھیں مغرور ‘ خود غرض اور بے وفا جیسے خطاب دیئے جو سالک کے لیے دکھ کا باعث بنتے سالک کی اس کشمکش کے متعلق ان کے دوست غلام ربانی آگرو لکھتے ہیں:
”سالک کے ساتھ سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ ایوان صدر میں اہم عہدے پر فائز ہونے کی وجہ سے لوگوں نے اس کو ذاتی مفاد حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ لیا تھا ہر وقت اس کو کوئی نہ کوئی کام کہتے رہتے تھے ۔یہی بات اسے سب سے زیادہ دکھ دیتی تھی خاص طور پر جب کوئی ادیب اور اہل قلم بھی اسے اسی طرح استعمال کرنے کی کوشش کرتا تو وہ بے حد غمگین ہو جاتا-“
اس قسم کے واقعے کی تصدیق معروف مزاح نگار عطا الحق قاسمی نے بھی کی ہے ان کا کہنا ہے:
”ہمارے کچھ دوستوں نے سالک سے کہا تھا کہ صدر ضیا ءالحق سے کہہ کر انھیں پلاٹ دلا دے لیکن سالک نے انھیں انکار کر دیا-“
صدیق سالک کے بارے میں لوگوں میں متضاد آراءپائی جاتی ہیں لیکن تحریر و تقریر میں کوئی ایسا شخص نہیں جس نے کہا ہو کہ سالک نے ناجائز پیسہ کمایا یہ ان کی زندگی کا سب سے مثبت پہلو ہے۔
صدیق سالک نے کبھی اپنی کرسی کا ناجائز استعمال نہیں کیا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کبھی لوگوں کا کوئی کام نہیں کیا۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ انہوں نے اپنے گاﺅں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا انتظام کیا لیکن وہ کسی کا غلط کام نہیں کرتے تھے الطاف حسن قریشی کے بقول:
”وہ اس بات کا پورا پورا خیال رکھتے تھے کہ سرکاری ذرائع اور وسائل اپنی ذات یا اپنے رشتے داروں پر خرچ نہ کیے جائیں جب 77ءکا مارشل لاءلگا تو ان کے رشتے دار اپنے رکے ہوئے کام کروانے سالک کے پاس آئے انہوں نے صاف کہہ دیا میرے پاس وقت ہے نہ اختیار ات البتہ اگر کوئی ایسا کام ہے جس سے پوری بستی کواجتماعی فائدہ پہنچتا ہے تو اس کے لیے کوشش کر سکتا ہوں-“
بطور انسان :
صدیق سالک کی شخصیت کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ نفرت کا جواب نفرت سے نہیں دیتے تھے یہ پہلو ان کی تحریروں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے کسی دشمن کا ذکر اس میں نہیں کیا حالانکہ زندگی میں انسان کئی لوگوں سے متصادم بھی رہتا ہے ۔معروف نقاد مرزا حامد یار بیگ نے ”ہمہ یاراں دوزخ“ پر ایک مضمون لکھا جس میں صدیق سالک پر بہت نکتہ چینی کی گئی تھی۔مرزا حامد بیگ اس کے متعلق فرماتے ہیں:
”جب یہ مضمون چھپاتو ان کے بعض دوستوں نے صدیق سالک سے کہا کہ ”اس مضمون نگار کا بندوبست ہونا چاہئے“ صدیق سالک اس وقت اس پوزیشن میں تھے کہ واقعی میرا بندوبست کر سکتے تھے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ کچھ عرصے بعد میری ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ میرا مضمون پڑھ چکے اور میرے ریمارکس کا انہوں نے برا نہیںمنایا۔ میں نے ہنستے ہوئے ان سے کہا کہ ”اب مجھے اپنی روٹی روزی کے لیے کوئی اور بندوبست کرلینا چاہیے تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا ”میں اتنا کمینہ آدمی نہیں ہوں-“ پھر یہ ملاقات دوستی میںبدل گئی۔“( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔