اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63اے نظرثانی کیس میں چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ 63اے کا فیصلہ صرف ایک جج کے مارجن سے اکثریتی فیصلہ ہے ،کیا ایک شخص کی رائے پوری منتخب پارلیمان پر حاوی ہے؟
سما ٹی وی کے مطابق بیرسٹرعلی ظفر نے کہاکہ پارلیمان کو اگر یہ تشریح پسند نہ ہو تو وہ کوئی دوسری قانون سازی کر سکتی ہے؟چیف جسٹس نے کہاکہ جمہوریت اس لئے ڈی ریل ہوتی رہی کہ یہ عدالت غلط اقدامات کی توثیق کرتی رہی،جسٹس نعیم اختر افغان نے کہاکہ کل یہاں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کیخلاف فیصلہ دے کر دیکھیں،کیا ایسے ڈرا دھمکا کر فیصلہ لیں گے؟سوشل میڈیا پر چل رہا ہوتا ہے فلاں جج نے ایک ٹھا ہ کردیا، فلاں نے وہ ٹھا کر دیا،اداروں کو اہم بنائیں، شخصیات کو نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کیا مجھے آپ گارنٹی دے سکتے ہیں کہ میں کل زندہ رہوں گا؟ہو سکتا ہے یہ میری آخری سانس ہو، علی ظفر نے کہاکہ جو کچھ باہر چل رہا ہے اس پر میں آنکھیں بند نہیں کر سکتا، چیف جسٹس نے کہاکہ میں اندر کی بات بتا رہا ہوں، اندر کچھ نہیں چل رہا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کچھ ترامیم پر بات چل رہی ہے تو آپ بھی بیٹھ کر اپنا ڈرافٹ دیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ پھر کہہ دیا جائے گا آپ نے مشورہ دیا ہے،ہم صرف ساتھ بیٹھنے کا کہہ رہے ہیں، بیٹھ کر جو مرضی کریں،علی ظفر نے کہاکہ میں صرف یہ کہہ رہاہوں آپ بھی آپس میں ججز رولز بنا لیں، سکون ہو جائے گا، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے ایک مشورہ لینا چاہا، ہم نے آپ کو دے دیا ہے،علی ظفر نے کہاکہ میں نے ساڑھے 11بجے کے بعد جو بھی گفتگو کی وہ بطور عدالتی معاون کی،بطور وکیل بانی پی ٹی آئی میں کیس کی کارروائی کا حصہ نہیں ہوں۔