طالبان سے مذاکرات:ثمرات و مضمرات؟
ہماری نظر میں وطنِ عزیز کو اس وقت جو مسائل درپیش ہیں، ان میں سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی اور قتل و غارت گری کا ہے۔ بلاشبہ معاشی بدحالی کا سلسلہ اس سے بھی بدتر ہے، جس کا لازمی نتیجہ غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کی صورت میں ہر عام پاکستانی کے لئے وبالِ جان بنا ہوا ہے، لیکن یہ مسئلہ ملک میں امن و سلامتی کے خوش گوار ماحول سے جُڑا ہوا ہے۔ وطنِ عزیز میں اگر امن و امان کی صورت حال درست نہیں ہوتی تو معاشی خوشحالی کا خواب، چاہے نواز شریف دیکھے یا کوئی اور محض ایک خواب ہی رہے گا۔ ایسی فضا میں بیرونی سرمایہ کار چھوڑ اندرونی سرمایہ کار بھی اپنی جمع پونجی لگاتے ہوئے ایک سو ایک بار سوچیں گے۔
ہمارے یہاں مغرب کی ترقی کو بطور مثال بہت پیش کیا جاتا ہے، لیکن اس سلسلے میں دیگر عوامل کے علاوہ دو باتوں کو کما حقہ فوکس نہیں کیا جاتا۔ ایک فکری آزادی اور دوسرے صنعتی ترقی، دونوں کا بظاہرآپس میں کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن فی الحقیقت یہ دونوں باہم اس طرح مربوط ہیں کہ جیسے گاڑی کے دو پہیے، غربت اور بے روزگاری کو ختم کرنے کے لئے معاشی خوشحالی چاہئے تو معاشی ترقی و خوشحالی کے لئے ہمارے جیسے ملک میں صنعتی ترقی ناگزیر ہے، لیکن جب سرمایہ لگانے والے کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوں تو وہ ایسا رسک کیسے لے سکتا ہے، لہٰذا ہماری نئی حکومت کا اولین فریضہ یہ ہے کہ ملک سے دہشت گردی و قتل و غارت گری کا خاتمہ کرنے کے لئے جو تدبیر بھی ہو سکتی ہے اُسے اختیار کرے۔
نواز شریف حکومت ہنوز جو کچھ طے کر سکی ہے وہ یہ ہے کہ حکومت دہشت گردوں سے مذاکرات کے لئے بھی تیار ہے اور لڑائی کا آپشن بھی ناممکنات میں نہیں ہے۔ انگریزی محاورے کے مطابق پہلے گاجر پھر سٹک والی پالیسی اپنائی جائے گی۔
حکومت کو اس حوالے سے نہ صرف یہ کہ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کا غیر مشروط تعاون حاصل ہے، بلکہ تقریباً تمام ہی قابلِ ذکر سیاسی پارٹیاں اس حوالے سے نو منتخب جمہوری حکومت کی پشت پر ہیں۔ اب اگلا مرحلہ یہ درپیش ہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کے لئے حکومتی سٹریٹجی کیا ہوگی؟.... کیا اُن سے یہ کہا جا جائے گا کہ پہلے ہتھیار پھینک دیں اور مذاکرات کی میز پر آجائیں یا ہتھیاروں کو اپنے پاس محفوظ رکھتے ہوئے سیز فائر کریں اور اپنے قابلِ اعتماد نمائندوں کو بالواسطہ یا براہ راست مذاکرات کے لئے بھیج دیں۔ تیسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی مسلح کارروائیوں پر تین حروف بھیجیں اور اپنی تمام سابقہ گھناو¿نی کارروائیوں کو بخشواتے ہوئے نرم شرائط کے ساتھ مذاکرات پر آجائیں۔
ہماری نظر میں اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ مسلح جتھوں کی نمائندگی کیسے ہوگی؟.... دہشت کے سمبل کی حیثیت سے سب سے پہلے جو نام ذہن میں آتا ہے وہ ”القاعدہ“ ہے، لیکن یہ ایسی زبردست تنظیم ہے جس کا نیٹ ورک چاہے جتنا بھی وسیع یا منظم ہو عامة الناس کو دکھائی نہیں دیتا ہے۔ اسی لئے بہت سے خواتین و حضرات کا یہ استدلال ہوتا ہے کہ القاعدہ تو محض ایک ”واہمہ“ ہے جو امریکیوں نے اپنے مخصوص مفادات کے حصول کی خاطر مشتہر کررکھا ہے فی الحقیقت تو یہ کہیں موجود ہی نہیں ہے، اگر کہیں ہے بھی تو یہ امریکہ کی اپنی ہی پیدا کردہ بلا ہے۔ جب امریکہ کے اپنے مقاصد یا مفادات پورے ہو جائیں گے۔ تب القاعدہ بھی ختم ہو جائے گی۔ جب پوچھا جاتا ہے کہ بن لادن، ایمن الظواہری یا عمر شیخ محمد کون ہیں یا کون تھے تو جواب ملتا ہے کہ یہ بھی شاید امریکہ ہی کے گماشتے تھے یا ہیں، اس کے بعد بات ختم کر دی جاتی ہے حالانکہ اس بحث کو آگے پھیلایا جانا چاہئے۔ بہرحال ہمارے موضوع کے حوالے سے پاکستانی حکومت کو مذاکرات کے لئے جن دہشت گرد گروہوں سے معاملہ کرنا ہے۔ ان میں الحمدللہ القاعدہ شامل نہیں ہے۔ ہمارے یہاں اس حوالے سے جو نامِ نامی اسمِ گرامی فوری طور پر سماعت کی لہروں سے ٹکراتا ہے وہ ہیں ہمارے طالبان بھائی جن کے شاید ڈیڑھ سے دو درجن تک دھڑوں کا ذکر ہوتا رہتا ہے جو بظاہر اپنے اعلیٰ مقاصد کے لئے تو ایک ہی منزل کے راہی ہیں، لیکن ترجیحات و مفادات کے ٹکراو¿ میں ماشاءاللہ بڑی ورائٹی ہے۔
ایک طرف تو وہ طالبان ہیں جو کسی بھی برائی کو اپنے ہاتھوں سے روکنا اپنا مضبوط ایمانی تقاضا خیال کرتے ہیں ایسے طالبان تو ہمارے گلی، محلوں، مساجد اور مارکیٹوں ہر جگہ ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔ اگرچہ وہ اپنے لئے مخصوص اصطلاح استعمال کرنے کے خلاف ہیں، لیکن اصل طالبان وہ قرار پاتے ہیں جو غیر ملکی تسلط سے نبرد آزما ہونا اپنے جہاد کی بنیاد خیال کرتے ہیں یہ امیر المومنین ملا عمر کے وہ طالبان ہیں جو افغانستان میں امریکی فوجوں سے برسرِپیکار ہیں خود کش حملوں کے حوالے سے بھی ان طالبان کا نقطہءنظر یہ ہے کہ غیر ملکیوں اور ان کے حلیفوں پر تو یہ حملے جائز ہیں، لیکن جو خطہ غیر ملکی قبضے میں نہیں ہے، جیسے پاکستان وہاں خود کش حملوں کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ ہماری روایتی صحافت، دانش اور بالخصوص علمائے کمیونٹی ان طالبان کی کارروائیوں کو نہ صرف یہ کہ جائز قرار دیتے ہیں، بلکہ بالعموم ان کی مدح سرائی کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب غیروں کو مارتے مارتے بعض اوقات وہ اپنوں کو بھی مارنے لگتے ہیں یا وطنِ عزیز کے آزاد خطوں میں اپنی جہادی کارروائی کرتے ہیں تو ہمارے یہ روایتی طبقات اس کا بُرا مناتے ہوئے ان کارروائیوں کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ اس نوع کے طالبان پاکستان میں نہیں افغانستان میں پائے جاتے ہیں بلکہ ہم بضد ہیں کہ حضرت ملا عمر کی پاکستان میں موجودگی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، وہ جہاں غیر ملکی فورسز کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں، وہیں کہیں موجود بھی ہیں۔
اب 2014ءمیں جب امریکی افواج خطے سے رخصت ہو رہی ہیں تو افغان حکومت کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ وہ اپنے ان مخالفین سے کوئی معاملہ طے کر لیں چونکہ ان کا اصل مطالبہ یہی تھا کہ ان کے ملک سے نیٹو کی کمان تلے موجود تمام غیر ملکی فورسز واپس چلی جائیں۔ اب جب وہ بڑی حد تک جا رہی ہیں تو مسلح کارروائیوں کا جواز ختم ہو جاتا ہے، لہٰذا کرزئی صاحب اُن سے مذاکرات کرتے ہوئے معاملات طے کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ افغان آئین کو تسلیم کرتے ہوئے امن و سلامتی کی جدوجہد میں شامل ہو جائیں۔ افغان صدر کا حالیہ دورئہ پاکستان بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا، جس میں اگرچہ ان کو بوجوہ کامیابی نہیں مل سکی۔ ہمارا مسئلہ قدرے مختلف ہے ہمارے طالبان بڑی حد تک افغان مہاجرین کے وہ بچے ہیں، جنہوں نے بالعموم پختون پٹی اور بالخصوص فاٹا کے روایتی علماءاور مذہبی نوجوانوں کو بھی اپنا ہمنوا پایا ہے۔ مابعد ان کے اثرات اتنے بڑھے کہ اسلام آباد کی لال مسجد سے ہوتے ہوئے کوئٹہ اور کراچی جیسے شہروں میں بھی ان کی طاقت کے مظاہر ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں اور اب تو ”پنجابی طالبان“ کی اصطلاح بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے۔
اپنے پاکستانی طالبان سے مذاکرات میں دو اُلجھنیں حائل ہیں۔ اول ان کی نمائندگی کا مسئلہ دوسرے ان کا ایجنڈا....نائن الیون کے بعد امریکی صدر نے کہا تھا کہ مجھے نادیدہ دشمنوں کا سامنا ہے جو سائے کی طرح چلتے ہیں اور چھپ کر وار کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان اہل ایمان دوستوں نے امریکیوں کے ایسے چھکے چھڑائے کہ انہیں ماسکو کے بے ایمان دشمن بھلے معلوم ہونے لگے۔ ان کے سینے چاک کر کے کوئی دیکھتا تو وہاں لکھا پاتا”مزدکیت فتنہءفردا نہیں اسلام ہے“۔ بہرحال اس وقت ہماری جمہوری پاکستانی حکومت کو سب سے پہلے یہ طے کرنا ہے کہ طالبان کے حقیقی نمائندے کون ہیں اور وہ مذاکرات کے لئے انہیں کہاں اور کیسے بھیجتے ہیں۔ اس سلسلے میں پہلا بالواسطہ وسیلہ مولانا سمیع الحق بنتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن یا سید منور حسن۔ کیا اس سلسلے میں عمران خان کی خدمات بھی مستعار لی جاسکتی ہیں کہ وہ بھی بے داڑھی کے مردِ مجاہد ہیں اورآج کل پختون خطے کے حکمران ہیں۔ وطن عزیز کے دیگر کن دینی مدارس کے طالبان سے روابط ہیں۔ شاید وہ بھی سامنے آجائیں اور اس نیک مقصد میں حصہ بقدرِ جثہ ڈالنا پسند فرمائیں۔ بہرحال پاکستانی حکومت کے لئے یہ جیسا بھی اُلجھا ہوا مسئلہ ہے، سو ہے، لیکن اس کے بعد ان طالبان نمائندوں کا ایجنڈا تو بہت سے نئے الجھاو¿ لے کر سامنے آئے گا۔
ان کے عمومی فلسفے کے مطابق تو جمہوریت ویسے ہی نظامِ کُفر ہے جیسے کہ حضرت صوفی محمد صاحب نے بلا حیل و حجت بَر ملا اس کا اظہار کر دیا تھا، لہٰذا ایجنڈے میں سرِ فہرست نقطہ تو نام کی اسلامی جمہوریہ کو حقیقی معنوں میں اسلامی دولة قرار دینے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کا مطالبہ ہوگا۔ جسے اپنے سیاسی علماءکے تعاون سے کافی حد تک حل کیا جاسکتا ہے، الحمد للہ، اسلام کی بالادستی سے تو کسی کو بھی انکار کی جرا¿ت نہیں ہے۔ اگلا مطالبہ ان گروہوں سے منسلک حضرات کی اپنی بقا کا ہوگا، جسے ہم ہنگامی طور پر ہی سہی ایک حد تک پہلے ہی قبول کر چکے ہیں ۔ اب تک کی کارروائیوں کو معافیءعام کے تحت پھانسی کی سزاو¿ں تک پہنچنے والے بھی اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ بدلے میں وہ اپنی تنظیموں کو تحلیل کرتے ہوئے دہشت گردی کو ہمیشہ کے لئے ترک کرنے کا عہد نامہ دے سکتے ہیں۔
اس کے بعد وطنِ عزیز میں راوی امن کے سوا کیا لکھ سکتا ہے پھر خوشحالی ہی خوشحالی ہے اور ترقی ہی ترقی ہے۔ مابعد نواز شریف کا ہاتھ اپنے چاروں ہمسائیوں سے اعلیٰ ہمسائیگی کے روابط قائم کرنے سے کون روک سکے گا۔ انفراسٹرکچر کا جال بچھے گا۔ وطنِ عزیز میں صنعتی انقلاب آئے گا۔ غربت، بے روزگاری کے ساتھ ساتھ ناجائز مہنگائی کا بھی خاتمہ ہوگا، لیکن سوال صرف اتنا ہے کہ ان کامیاب مذاکرات کے بعد کیا تمام شدت پسند مذہبی گروہ فکرِ آخرت میں تسبیح لے کر بیٹھ جائیں گے۔یہ بحث ہم اگلے کالم کے لئے چھوڑے دیتے ہیں۔ ٭