شامتِ اعمالِ ما صورتِ نادر گرفت
بعض لوگ جن میں ہمارے برصغیر کے بزرگ اور دانشور پیش پیش رہے، اس خیالِ خام میں مبتلا رہے کہ جنگ خدا کی طرف سے نازل ہونے والا ایک عذاب ہوتی ہے۔ یہ ”نظریہ“ بھی عام رہا ہے کہ کسی قوم پر کسی جنگ کا مسلط ہونا قوم کی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ وہ مصرع تو آپ نے بارہا پڑھا اور سنا ہوگا کہ جب نادر شاہ درانی نے دہلی میں قتل عام کیا تو وہاں کے مذہبی رہنماو¿ں نے بجائے اس کے کہ نادر کی فوج کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونے کا درس دیتے، انہوں نے مسجدوں میں جمعہ کے خطبات میں یہ وعظ فرمایا کہ نادر کا یہ حملہ اور اس سے سینکڑوں برس پہلے چنگیز اور ہلاکو کے ایران اور عراق پر حملے سب کے سب مسلم اُمہ کے گناہوں کی سزا تھے۔ ان آئمہ کرام کی آواز میں شعرائے دہلی و لکھنﺅ نے بھی اپنی آواز شامل کی اور لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ نادر شاہ نے دہلی کے گلی کوچوں میں جو لہو کی ندیاں بہا دی تھیں، وہ ہمارے کردارِ بد کا خمیازہ تھا، چنانچہ یہ مصرع بچے بچے کی زبان پر چڑھ گیا:
شامتِ اعمالِ ما صورتِ نادر گرفت
سوال یہ ہے کہ کیا جنگ واقعی ہمارے گناہوں اور بداعمالیوں کی سزا کے طور پر وارد ہوتی ہے؟ تاریخِ عالم اُٹھا کر دیکھیں تو زوال آمادہ مسلمانانِ برصغیر کا جرم وہی تھا جسے جرمِ ضعیفی کا نام دیتے ہیں۔ اپنے دورِ عروج میں مسلمان مرنے سے کبھی نہیں ڈرتے تھے۔ جہاد کی فرضیت یا عدم فرضیت کی تفسیریں تو بعد میں ہمارے مذہبی علمائے کرام نے عام کیں۔ خودنبی پاکﷺ کا زمانہ دیکھئے۔ پھر خلافت راشدہ کا دور اور پھر بنو اُمیہ کا دور.... ان ادوار میں اسلام کا پھیلاو¿ جانیں بچانے کے سبب نہیں، جانیں گنوانے کا مرہونِ منت تھا۔ موت کو شہادت کا درجہ سب سے پہلے کس قوم نے دیا؟.... اور شہید کے مقام و مرتبے کی عظمت کا نقارہ سب سے پہلے کس قوم نے پیٹا؟.... اسلام کے فلسفہءمرگ و حیات کی آسان ترین لیکن مکمل ترین وضاحت اقبال نے اس ایک مصرع میں کر دی ہے:
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی
مطلب یہ ہے کہ کبھی جان کی حفاظت زندگی ہوتی ہے اور کبھی جان قربان کرنے کو زندگی کہاجاتا ہے۔ حیاتِ بعدِ ممات کی جو تفصیل قرآن مجید میں مرقوم ہے اور جس وضاحت و صراحت کے ساتھ مرقوم ہے، اس کی مثال کسی اور آسمانی کتاب میں نہیں ملتی۔
مَیں نے قارئین کو یہ بات اس لئے یاد دلائی ہے کہ ہم برصغیر کے باسی موت سے بہت ڈرتے ہیں۔ ہند کے مسلمان حکمران جب تک میدانِ جنگ میں ڈٹ جانے اور اپنی فوج کے جانی نقصانات کی پروا نہ کرنے کی روایت پر عمل پیرا رہے، تب تک تاجِ خسروی ان کے سر پر رہا اور جب خوفِ مرگ نے ان کو آلیا اور تحفظِ زندگی ان کی پہلی ترجیح بن گئی تو پھر سات سمندر پار سے آکر مٹھی بھر گوری چمڑی والوں نے ہندوستان کی کروڑوں کی آبادی کو بھیڑ بکریوں کی طرح آگے لگا لیا۔
زیادہ پیچھے جانے کی ضرورت نہیں۔ صرف ایک صدی پہلے کا زمانہ یاد کیجئے۔ جب 1901ءکی صبح نمودار ہوئی تو سارا برصغیر قبضہءافرنگ میں تھا۔ 1901ءسے 2000ءتک کے ایک سو سالہ عرصے میں ساری دُنیا میں جو جنگیں ہوئیں، ان کا عشرِ عشیر بھی اہلِ ہند کا مقدر نہ بن سکا۔ گزشتہ صدی کی تاریخِ جنگ اُٹھا کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اہلِ برصغیر نے کسی بھی بڑی جنگ کے فال آو¿ٹ کا تجربہ نہیں کیا۔ بیسویں صدی کی جنگیں ٹوٹل جنگیں تھیں، یعنی اس میں صرف فوجی ہی ہلاک یا زخمی نہیں ہوتے تھے، بلکہ آرٹلری، ایئر فورس اور بعد میں میزائلوں نے گلیوں، بازاروں اور کُوچوں تک کو میدانِ جنگ کا حصہ بنا دیا تھا۔
1914ءسے 1918ءتک پہلی جنگ عظیم ہوئی تو اس میں یورپ، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے بعض حصوں میں کشتوں کے پشتے لگ گئے اور پھر اس جنگ کے 20 برس بعد جب دوسری عالمی جنگ ہوئی تو نہ صرف کروڑ ہا انسانی جانیں تلف ہوئیں، بلکہ یورپ کے درجنوں ممالک ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ شہر اور اہلِ شہر دونوں برباد ہوگئے۔ 1945ءکے فوراً بعد اگر ہندوستان کی مساجد کے اماموں کو یورپ کا نظارہ کروایا جاتا تو وہ باقی ساری عمر توبہ و استغفار میں گزار دیتے.... لیکن یورپ کے ان بچے کھچے چند لوگوں نے اپنے شہروں اور دیہاتوں کے کھنڈرات پر نئے محل تعمیر کئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک نیا یورپ دنیا کے نقشے پر اُبھر آیا۔ یہی حال مشرقِ وسطیٰ کے بعض ممالک اور شمالی افریقہ کے ممالک کا بھی تھا۔ یہاں کے مسلمانوں نے بھی یورپین عیسائیوں اور یہودیوں کی پیروی میں اپنے تباہ شدہ علاقوں کو از سر نو تعمیر کیا اور ہم سب جانتے ہیں کہ نئی تعمیر، پرانی تعمیر سے ہمیشہ تازہ تر ہوتی ہے.... چنانچہ اہلِ نظر نے دیکھتے دیکھتے ہی تازہ بستیاں آباد کر دیں اور ہمارے برصغیر کے باشندے کُوفہ و بغداد کی بربادی کا ماتم کرتے رہے۔
دنیا کی دونوں عالمی جنگوں میں جانی اور مکانی نقصان کا شمار نہیں کیا جاسکتا، لیکن افسوس کہ ہندوستان کے باشندے (ہندو، مسلم، سکھ، ڈوگرے، گورکھے وغیرہ) انگریز کی فوج میں لاکھوں کی تعداد میں بھرتی ہو کر ”جنگ کا چارہ“ تو بنتے رہے، لیکن نہ تو کسی ہندوستانی شہر، قصبے یا گاو¿ں کی کوئی ایک اینٹ اپنی جگہ سے سرکی، نہ کسی ہندوستانی علاقے میں کسی سویلین آبادی کا کوئی بال تک بیکا ہُوا اور نہ ہی کوئی ہندوستانی شہری جنگ کی ان ”آفات“ کا ذاتی تجربہ کر سکا جن کی کوکھ سے ”برکات“ پھوٹتی ہیں۔
ہمارے لاکھوں ہندوستانی سپاہی، این سی اوز، جے سی اوز اور آفیسرز اگر ان جنگوں میں ہلاک یا اپاہج اور معذور ہوئے تو وہ سب ہماری سویلین آبادیوں کی نگاہوں سے دور ہوئے ....مرنے والے دیارِ غیر میں مدفون ہوئے اور صحیح سلامت زندہ بچ جانے والوں کو ”زندہ و پائندہ“ دیکھ کر ہم نے (یعنی ان کے عزیز و اقربا نے) خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ موت کے منہ سے بچ کر آگئے۔ ان بچ کر آنے والوں نے اگرچہ غیر ملکی محاذوں اور جنگ کے میدانوں کی خوب خوب نقشہ کشی کی، ایک ایک تفصیل اہلِ وطن کے سامنے رکھے، لیکن شنیدہ کے بَودَ مانندِ دیدہ؟
پھر1947ءمیں برصغیر تقسیم ہوگیا.... دوسری جنگ عظیم ٹھیک14 اگست1945ءکو ختم ہوئی تھی اور یہ حُسنِ اتفاق ہے کہ اس کے پورے دو سال بعد پاکستان اور بھارت دو نئے ملک دنیا کے نقشے پر اُبھرے۔ ان کے ساتھ ہی دو افواج بھی اُبھر آئیں، لیکن یہ دونوں افواج اپنی ساخت، ٹریننگ، اسلحہ و بارود، اخلاقیات، نفسیات اور روایات میں ایک دوسرے سے کچھ بھی مختلف نہ تھیں۔ ان کا صرف مذہب مختلف تھا اور مذہب کا مختلف ہونا برصغیر میں کئی صدیاں پہلے ہی بے معنی ہوگیا تھا۔
مغلوں کے دور میں افواج کی ترکیب کی بنیاد مذہب نہیں تھا اور جب انگریزوں نے برصغیر کے ساحلوں پر قدم رکھا اور برٹش انڈین آرمی کی تشکیل کے اولین نقوش اُبھرنا شروع ہوئے تو ان میں بھی مذہب اور دین دھرم کی کوئی تمیز یا کوئی قید نہ تھی۔ برٹش آرمی نے ہندوستان کے سارے مذاہب کے پیروکاروں کو جب انڈین آرمی کا حصہ بنایا تو اس میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، پارسی وغیرہ کو کھلی آزادی دے دی اور کسی مذہب سے کوئی تعرض نہ کیا۔
اگر قارئین غور فرمائیں تو برٹش انڈین آرمی کا یہ امتیاز کہ اس کے وابستگانِ دامن میں مذہب کا اختلاف، کبھی، کسی معاملے میں زیر عمل نہیں آیا تو یہ ایک ایسا امتیاز ہے جو گزشتہ تمام انسانی تاریخ میں نہیں ملتا۔ برطانوی حکومت کے سیاسی مدبروں کی یہ صفت ان دوسری یورپی طاقتوں سے بالکل الگ اور جُداگانہ نظر آتی ہے جن کی افواج میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی اتنی بڑی تعداد شامل ہو اور اس کثیر تعداد نے اتنی پروفیشنل کمٹ منٹ کے ساتھ یک جان دو قالب ہو کر اتنی زیادہ چھوٹی بڑی جنگوں میں حصہ لیا ہو۔
پھر جب پاکستان بن گیا تو پاکستان اور بھارت کی افواج نے جتنی بھی جنگیں لڑیں، ان کا دورانیہ اور ان میں ہونے والے جانی اور مکانی نقصانات کا حجم دوسری اقوام کی جنگوں کے مقابلے میں ”بونا“ نظر آتا ہے۔ 1965ءکی جنگ 17 روز چلی، 1971ءکی جنگ 13 روز اور کارگل وار 59 دن (6 مئی تا 4 جولائی 1999ئ) تک گھسٹتی رہیں۔ ان جنگوں میں نہ بھارت کا کوئی بڑا مکانی نقصان ہوا، نہ پاکستان کا۔ اس کے باوجود ہندوستانیوں اور پاکستانیوں دونوں نے ان جنگوں کی ”عظمت“ کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ 20 ویں صدی کی دوسری ساری جنگیں ہماری ان جنگوں کے مقابلے میں ”ننھی منھی“ دکھائی دینے لگیں.... ہم کنویں کے مینڈکوں کو کیا معلوم کہ کنویں سے باہر کی دنیا کتنی وسیع ہوتی ہے!
یہ سطور مَیں نے قارئین کے سامنے اس لئے رکھی ہیں کہ اُنہوں نے (میرے سمیت) جنگ کی جانی اور مکانی بربادیوں کا وہ منظر نہیں دیکھا جو ماضیءقریب میں افغانستان ایران، عراق، مصر اور لیبیا کے باشندوں نے دیکھا ہے۔ ہم شہروں میں چمکتی دمکتی کاروں، صاف ستھری سڑکوں، کشادہ اور آرام دہ بنگلوں/ مکانوں کے عادی ہیں....یہ سب دلکش مناظر چشم زدن میں تبدیل ہو سکتے ہیں اور بھیانک بن سکتے ہیں۔
ہمیں تو گزشتہ صدی کی جنگوں کے سویلین آبادیوں پر اثرات کا بھی کچھ تجربہ نہیں اور نہ ہی ہم نے اپنے مغربی ہمسایوں اور مسلم/ عرب ممالک کی تباہیوں اور ان پر جدید ہتھیاروں کی وسیع و عریض ہلاکتوں اور حشر سامانیوں کا کبھی تصور کیا ہے.... قارئین! وقت نزدیک آرہا ہے کہ دنیا کی واحد سپر پاور مسلمانوں کی واحد نیو کلیئرپاور پاکستان پر بھی ”نظرِ التفات“ فرمانے والی ہے.... روسی صدر پوٹن نے سعودی عرب پر جس حملے کا اعلان کیا ہے، اس کے معانی کچھ بھی ہوں۔ وہ حقیقت نہ ہو، افسانہ ہی ہو یا محض گپ شپ اور بڑھک ہی ہو، لیکن ایسی گپ شپ یا بڑھک یا افسانہ پہلی بار سننے میں آیا ہے۔ اگر کل کلاں امریکہ شام پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے الزام کی آڑ میں کسی بھی قسم یا حجم کا حملہ کرتا ہے تو روس یقیناً کچھ نہ کچھ ردعملِ ضرور ظاہر کرے گا۔ کون جانے اس کے نتیجے میں ایک تیسری عالمی جنگ چھڑ جائے۔ جو قارئین پہلی دو عالمی جنگوں کی وجوہات کا سرسری سا بھی علم رکھتے ہیں، ان کو معلوم ہے کہ اُن جنگوں کی شروعات کتنی معمولی باتوں سے ہوئی تھیں۔ آج مشرق وسطیٰ بارود کا ایک ڈھیر بن چکا ہے۔ شام پر امریکی حملہ، شاید اس ”بارود خانے“ میں پہلی چنگاری ہو۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان اگر چاہے بھی تو بارود کی اس آگ میں کُودنے سے دامن نہیں بچا سکتا۔ یہ آگ شاید ہمیں ”شامتِ اعمالِ ما“ کی تکرار سے باز رکھ سکے۔ ٭