عقیدئہ توحید اور عصری تقاضوں سے بے خبر علمائ

ہر ہفتے اخبار میں ایک عالم دین کی دس بیس سامعین کے سامنے درس قرآن دینے کی تصویر مع خبر کے شائع ہوتی ہے۔خبر کے متن کا آغا زپ ر کے حروف سے ہوتا ہے،جس سے متبادر ہوتا ہے کہ درس میں اخبار کا کوئی رپورٹر شریک نہیں تھا، بلکہ خود درس کے منظمین نے پریس ریلیز جاری کیا ہے۔ خبر کا مواد عام طور پر اس بات کی کھلی گواہی دیتا ہے کہ اسے ہم کوئی بھی نام دے لیں، خبر نہیں کہہ سکتے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ مدرس موصوف کے تین لفظی اسم گرامی کے ساتھ پریس ریلیز تیار کرنے والا ممتاز مذہبی اسکالر، مفسرقرآن، پروفیسر، ڈاکٹر اور علامہ کے القابات لکھنا کبھی نہیں بھولتا۔یہ تعریفی الفاظ پڑھ کر خواہ مخواہ ایک لطیفہ یاد آجاتا ہے۔
پرانے وقتوںکی بات ہے، جب شاہراہوں پر ہوٹلوں کی جگہ سرائیں ہوتی تھیں۔مسافر وہاں رات گزار کر علی الصباح دوبارہ سفر شروع کرتے تھے۔ایک دفعہ ایک عالم دین نصف شب کے قریب کسی سرائے کے سامنے رُکے اور دروازے پر دستک دی۔ سرائے کے مالک نے پوچھا، کون ہے؟جواب ملا: بھئی ہم ہیں رہبر شریعت، پیر طریقت، شیخ الاسلام، زبدة العارفین، قدوة السالکین علامہ فلاں ابن فلاں۔ سرائے کے مالک نے کنڈی کھولتے کھولتے دروازہ دوبارہ بند کرلیا کہ اتنے لوگوں کے لئے سرائے میں کوئی گنجائش موجود نہیں!
معمول کے خلاف اس ہفتے درس قرآن کی خبر تصویر کے بغیر چھپی ہے۔باور نہیں ہوتا کہ تصویر بھیجی نہ گئی ہو۔آخر جو شخص ہر دفعہ پریس ریلیز تیار کرتا ہے اور پروفیسر، ڈاکٹر، علامہ وغیرہ کے القابات لکھنے سے کبھی نہیں چُوکتا، وہ اس بار تصویر بھیجنی کیسے بھول گیا ہوگا۔ہمارا غالب خیال یہی ہے کہ تصویر اخبار کے دفتر پہنچی ہوگی، لیکن جگہ کا مسئلہ بن گیا ہوگا۔جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے، اخبار والے کبھی صرف تصویر لگا دیتے ہیں اور کبھی صرف خبر! پریس ریلیز بھیجنے والے ذرا اثر ورسوخ والے ہوں تو اخبار والے ان کی خوشنودی کے لئے تصویر دوسرے روز شامل اشاعت کرلیتے ہیں۔
اب قارئین خبر کا متن ملاحظہ فرمائیں:
”قرآن پاک میں سب سے پہلے کلمہ توحیدپر زور دیا گیا ہے۔پورے دین کا آغاز توحید ہی سے ہوتا ہے۔توحید کا اسلام میں بہت مقام ہے، اس میں اللہ کی وحدانیت پر زور دیا گیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں صرف اللہ ہی کی بندگی کرنی چاہیے۔آپ نے اپنی پوری زندگی توحید کا پرچار کیا،جبکہ قرآن کریم بھی توحید پرستی پر زور دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اللہ ہی ہے جو ساری دنیا کا نظام چلا رہا ہے۔وہ واحد ذات ہے، جس کو کسی نے نہیں جنا۔زمین اور آسمان میں جو کچھ ہے ،چاہے زمینی اور آسمانی مخلوق ہو،یہ سب اللہ کی ملکیت ہے۔ہم سب اسی کے غلام ہیں جو ہمارا مالک بھی ہے“۔
خبر کے مطابق علامہ موصوف کی گفتگو کا موضوع توحید ہے۔اسی موضوع کے حوالے سے ایک اور علامہ صاحب کو بھی ماشاءاللہ شہرت کے پر لگ رہے ہیں۔وہ اخباروں، رسالوں، شہر کی دیواروں، حتیٰ کہ رکشوں کی پشت پر بھی اپنی بڑی بڑی تصویروں کے ساتھ توحید سیمینار کا اشتہار دیتے اور اپنے آپ کو ماہر توحید کے طور پر متعارف کرواتے ہیں۔موضوع کی عظمت سے بھلا کس کو انکار ہو سکتا ہے۔قرآن مجید سے پتا چلتا ہے کہ ایک لاکھ بیس ہزار پیغمبروں کو دنیامیں بھیجنے کا مقصد ہی توحیدکی اشاعت تھا،لیکن قرآن مجید تو یہ بھی بتاتا ہے کہ جوں ہی کوئی اللہ کا فرستادہ توحید کی دعوت دیتا تھا تو معاشرے میں ہلچل مچ جاتی تھی۔خاص طور سے قوم کے سردار مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ وہ دھمکیاں اور گالیاں دیتے، تہمتوں کی راکھ اڑاتے، طنز و استہزا کے تیر برساتے اور پھر جبر و تشدد پر اتر آتے تھے، حتیٰ کہ پیغمبر کو وطن چھوڑنا پڑ جاتا تھا۔کبھی زکریا علیہ السلام کو آرے سے چیر دیا گیا اور کبھی یحییٰ علیہ السلام کو صرف اس لئے قتل کردیا گیا کہ انہوں نے بادشاہ وقت کو حرامکاری سے منع کیا تھا۔
توحید کے مذکورہ درس کی خبر کے عین نیچے ایک تصویر ہے، اس کا کیپشن ملاحظہ فرمایئے:
”شادمان اتوار بازار میں ایک غریب خاتون اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے گندگی میں سے کھانے کی اشیاءتلاش کررہی ہے“۔ (فوٹو ذیشان منیر)
اسی روز کے اخبار میں چند ایسی خبریں بھی چھپی ہیں جو ہمارے معاشرے کا نہایت وحشتناک منظر پیش کرتی ہیں:
٭.... صوبائی دارالحکومت میں ڈکیتی، چوری کی وارداتوں میں شہری لاکھوں روپے کی نقدی، زیورات اور گاڑیوں سے محروم۔
٭.... نوسربازوں نے نشہ آور اشیاءکھلا کر 15افراد کو لوٹ لیا۔
٭.... سابقہ بیوی سے شادی کرنے والے کو فائرنگ کرکے قتل کر ڈالا۔
٭.... خانقاہ ڈوگراں: بجلی چوری میں ملوث 550افراد گرفتار۔
٭ مصری شاہ،گھریلو ناچاقی پر نوجوان نے زہریلی گولیاں نگل لیں۔
٭.... قصور میں ڈکیتی و راہزنی کی وارداتیں عروج پر، شہری قیمتی مال و زر سے محروم۔
٭....شیراکوٹ: مالی حالات سے دلبرداشتہ شخص کا کھمبے پر چڑھ کر احتجاج۔
٭.... پولیس نے قحبہ خانے اور ہوٹل پر چھاپے مار کر 13لڑکے اور لڑکیوں کو گرفتار کرلیا۔
ایک طرف صورت حال یہ ہے کہ اونچے طبقوں نے لوٹ مار، رشوت ستانی اور استحصال کا بازار گرم رکھا ہے، عام شہری بدامنی، مہنگائی، بھوک ،ننگ اور بے انصافیوں سے تنگ آکر خودکشی کرنے پر مجبور ہو رہا ہے،دوسری طرف توحید کے درس اور سیمینا ر ہوتے ہیں، لیکن ظالم قوتوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ظاہر ہے ہمارے علمائے دین توحید ہی ایسی بیان کرتے ہیں، جس سے نہ مظلوم کی ڈھارس بندھتی ہے اور نہ ظالم کے ماتھے پر شکن نمودار ہوتی ہے۔درسوں اور سیمیناروں میں نامور اسکالر محض لفظوں کے پھاگ اڑاتے ہیں، ان کا روتی بلکتی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
توحید کا ایک مفہوم مولانا محمد علی جوہر نے بیان کیا تھا:
توحید تویہ ہے کہ خداحشر میں کہہ دے
یہ بندہ دوعالم سے خفا میرے لئے ہے!
دنیا جانتی ہے کہ مولانا جوہر ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر درس نہیں دیتے تھے۔انہوں نے توحید کا مفہوم اپنے عمل سے واضح کیا۔انہوں نے اللہ کے مقابلے میں انگریز کی حاکمیت کو ماننے سے انکار کردیا۔ترکی کے حق میں اور سامراجیوں کی مخالفت میں ”کامریڈ“ کا اےسا اداریہ لکھا،جس نے حکومتی ایوانوں پر لرزہ طاری کردیا۔کامریڈ کا وہ شمارہ ضبط ہوگیا اور مولانا کو بغاوت کے الزام میں پس دیوار زنداں بھیج دیا گیا۔پل پل آمنہ بیٹی کی علالت کی تشویشناک خبریں آ رہی تھیں۔پیرول پر رہائی مل سکتی تھی، لیکن غیرت اسلامی نے کسی قسم کی رعایت طلب کرنے سے روک دیا۔بقول میر:
پاس ناموسِ عشق تھا ورنہ
کتنے آنسو پلک تک آئے تھے
بیٹی سے مخاطب ہوئے:
تیری صحت ہمیں مطلوب ہے لیکن اُس کو
نہیں منظور تو پھر ہم کو بھی منظور نہیں
لخت جگر باپ کی راہ تکتے تکتے جان ہار گئی،مولانا کندھا بھی نہ دے سکے....یہ ہوتی ہے توحید! ٭