قومی خطرات

قومی خطرات
قومی خطرات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

الٰہ آباد ہندوستان کے دو عظیم دریاؤں گنگا اور جمنا کے سنگم پر آبادہے۔ ہندو دھرم میں اس شہر کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ یہاں پر 12 سال کے بعد کنبھ کا میلہ لگتا ہے، یہاں کروڑوں ہندو شرکت کرتے ہیں۔ اسی شہر میں دسمبر 1930ء کو علامہ اقبالؒ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اکیسویں سالانہ اجلاس میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کی پیشین گوئی کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’میری خواہش ہے کہ پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ ،سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک ریاست بنا دیا جائے۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ کم از کم ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک مربوط ہندوستانی مسلم ریاست، خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر حکومت خود مختاری حاصل کرے یا اس کے باہر، ہندوستان کے شمال مغربی مسلمانوں کا آخرکار مقدر ہے‘‘۔


حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے خطبہ الٰہ آباد میں برصغیر کے مسلمانوں کے دو اہم قومی امراض کی تشخیص بھی کی تھی۔ ان کے اس خطبے کو تقریباً 86 سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر یہ امراض اب بھی پوری شدت سے موجود ہیں اور قومی وحدت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ علامہ اقبال نے بڑی دردمندی سے کہا تھا’’مجھے بلا تکلف کہنے دیجئے کہ اس وقت ہندوستان کے مسلمان دو امراض میں مبتلا ہیں۔ اول ان میں قحط الرجال ہے۔ سر میلکم بیلی اور لارڈ ارون کی تشخیص بالکل صحیح تھی جب انہوں نے کہا تھا کہ قوم راہنما پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ راہنماؤں سے میری مراد ایسے افراد ہیں جو اعانت ایزدی یا اپنے وسیع تجربے کی بدولت اسلام کی روح اور تقدیر کے بارے میں گہرا ادراک رکھتے ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ جدید تاریخ کے رجحانات سے بھی پورے واقف ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر عوام الناس کی ہمت اور قوت عمل کا انحصار ہوتا ہے اور یہ بنائے نہیں جاتے بلکہ خدا کی طرف سے عطیہ ہوتے ہیں‘‘۔۔۔ علامہ اقبال قائداعظم محمد علی جناح کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ محمد علی جناح ان کی دردمندی سے کی گئی دعاؤں کا جواب تھے۔ محمد علی جناح کی دیانت پر ان کے دشمن بھی انگلی نہیں اٹھا سکتے تھے۔ مقصد کے حصول کے لیے ان کی لگن کی یہ صورت تھی کہ جب وہ شملہ سے واپس آ رہے تھے تو ان کی طبیعت خراب ہو گئی۔ ان کے معالج ڈاکٹر پٹیل کو اطلاع دی گئی۔ ڈاکٹر پٹیل بمبئی سے پہلے ایک سٹیشن پر ٹرین میں سوار ہو گئے۔ انہوں نے جناح کا معائنہ کیا تو کہا کہ اگر وہ بمبئی ریلوے اسٹیشن اترے اور انہوں نے ہجوم کے استقبالیہ نعروں کا جواب دیا تو پھر ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر پٹیل کی ہدایت پر قائداعظم کو بمبئی سے پہلے ایک اسٹیشن سے اتار کر ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ ان کے ایکسرے شروع ہوئے اور پھر جب ڈاکٹر پٹیل نے ایکسرے دیکھا تو انہوں نے کہاکہ قائد کے پھیپھڑوں کو تپ دق کا موذی مرض بری طرح کھا چکا ہے اور ان کے سال ڈیڑھ سال تک زندہ رہنے کے امکانات ہیں۔ ڈاکٹر پٹیل نے جب یہ صورت حال قائداعظم کو بتائی تو انہوں نے چہرے پر کوئی تاثر لائے بغیر اسے سنا اور ان سے درخواست کی کہ وہ اس راز کو فاش نہ کریں۔ برصغیر کے مسلمانوں پر یہ ڈاکٹر پٹیل کا احسان ہے کہ انہوں نے قائداعظم کی بیماری کو صیغہ راز میں رکھا۔ تقسیم ہند کے بعد جب ماؤنٹ بیٹن کو اس راز کا پتہ چلا تو اس نے کہا کہ اگر مجھے جناح کی بیماری کا علم ہوتا تو میں تقسیم کا عمل سست کر دیتا اور اتنا وقت گزار لیتا کہ جناح زندہ نہ رہتے اور برصغیر کی تقسیم نہ ہوتی۔ قائد اعظم کی بیماری جس مرحلے پر تھی اس پر اکثر مریض اپنا وقت سینی ٹوریم میں گزارا کرتے تھے۔ مگر اتنی بیماری کے باوجود قائداعظم نے پاکستان کا مقدمہ بڑی کامیابی سے لڑا اور انگریزوں اور ہندوؤں کی مخالفت کے باوجود علیحدہ وطن حاصل کر لیا۔ دیوبند کے علماء قائداعظم کی اس لیے حمایت کرتے تھے کہ ان کے ایک بزرگ اور ممتاز عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی نے ایک خواب میں قائداعظم محمد علی جناح کو ایسی جگہ دیکھا تھا جہاں سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ اور مولانا اشرف علی تھانوی کو بتایا گیا کہ محمد علی جناح کے ذمہ مسلمانوں کا ایک بڑا کام لگایاگیا ہے۔ اشفاق احمد صاحب کہا کرتے تھے کہ تہجد کے وقت دعا کیا کریں کہ اس قوم کے مسائل کے حل کے لیے اﷲ کوئی اپنا خاص بندہ بھجوا دے۔ تقسیم سے پہلے علامہ اقبال اور دوسرے بزرگ ایسی دعائیں کرتے رہتے تھے اور قائداعظم کی صورت میں ان دعاؤں کو شرف قبولیت حاصل ہوا تھا۔


آج پاکستان جن مسائل سے دوچار ہے ان سے عہدہ بر ہونے کے لیے غیر معمولی بصیرت، جرات اور درد دل کی ضرورت ہے۔ آج پاکستان سے محبت کرنے والے اہل قیادت کے لیے دعاگو ہیں۔ علامہ اقبال نے دوسرے قومی مرض کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’وہ یہ ہے کہ قوم جذب باہم کے جذبے سے محروم ہے۔ اسی وجہ سے بعض افراد اور گروہ الگ الگ راہ پر گامزن ہیں اور قوم کی اجتماعی سوچوں اور سرگرمیوں میں شریک نہیں ہیں۔ ہم سیاست کے میدان میں وہی کچھ کر رہے ہیں جو ہم صدیوں سے مذہب کے میدان میں کرتے چلے آئے ہیں۔ لیکن مذہبی گروہ بندیوں سے ہمارے اتحاد کو اتنا زیادہ نقصان نہیں پہنچا‘‘۔


86 سال پہلے کہے گئے علامہ اقبال کے یہ ارشادات پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ آج کی بات کر رہے ہیں۔ پاکستان کے مختلف گروہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور اس میں اکثر قومی مفاد کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ گزشتہ روز ایک ٹی وی چینل پر کراچی میں حالیہ واقعات پر لوگوں کا ردعمل دکھایا جا رہا تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ کراچی میں بسنے والے مہاجروں نے وطن کے حصول کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف نعرہ لگا کر اپنی سیاست کو اتنا نقصان پہنچایا ہے جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مہاجر اور متحدہ کے راہنما کھل کر الطاف حسین کی مذمت کر رہے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے اپنے آپ کو الطاف حسین سے علیحدہ کر لیا ہے۔ ایک تبدیلی کا عمل جاری ہے۔ اسی پروگرام میں ایک شہری نے کہا تھا کہ اس وقت کراچی میں حالات جو معمول پر نظر آ رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کراچی کے عوام پاکستان کے ساتھ ہیں۔میڈیا پر ہونے والے ظالمانہ تبصروں کو دیکھ کر بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ متعلقہ اینکر کا تعلق پاکستان سے نہیں ہے۔۔۔ اور وہ اختلافات کو ہوا نہیں دے رہا بلکہ آگ لگا رہا ہے۔اور اسے پاکستان کی بدقسمتی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ بہت سے لوگ زندگی بھر پاکستانی ہونے پر فخر کرنے سے باقاعدہ پرہیز کرتے ہیں۔ پاکستان میں جذب باہم کے جذبے کی کمی کی وجہ اندرونی بھی ہے اور بیرونی بھی۔۔۔ ہندوؤں کے تعصب کی وجہ سے مسلمانوں نے پاکستان کا مطالبہ کیا تھا اور ان کا خیال تھا کہ تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان امریکہ اور کینیڈا جیسے ملک ہوں گے۔ کسی مسلم لیگی راہنما کی تحریروں یا خیالات میں بھارت کے خطرناک دشمن ہونے کا اظہار نہیں کیا گیا تھا۔ اسے اس خطے کی بدقسمتی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ بھارت نے پاکستان کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا۔ یہاں انتشار کو ہوا دینے کے لیے مختلف ہتھکنڈے اختیار کرتا رہا ہے۔ آج اگر اقوام متحدہ کا کوئی کمیشن سانحہ مشرقی پاکستان کا جائزہ لے اور اس کے سامنے صرف وہی شہادتیں پیش کی جائیں جو بھارتی اور بنگلہ دیشی اکابرین نے اپنی تقاریر اور بیانات میں دی ہیں تو اس پر بھارت کو دوسرے ملک میں ننگی جارحیت کا مرتکب قرار دیا جا ئے گا۔ کس طرح مکتی باہنی قائم کی گئی۔ کس طرح نفرت کی فصلیں کاشت کی گئیں اور کس طرح بھارتی فوج نے علیحدگی کے کام کی تکمیل کی۔ اسے جدید تاریخ کا ایک المیہ ہی قرار دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں پاکستان کے راہنماؤں اور اداروں کی نالائقی کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح مسلسل مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا گیا اور کس طرح ذاتی مفادات کو ترجیح دی گئی۔ اسے افسوسناک ترین ہی کہا جائے گا۔مگر کیا دور جدید میں اقوام متحدہ کا رکن ملک اتنے خوفناک انداز میں دوسرے ملک میں مداخلت کر سکتا ہے؟


بھارت میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو پاکستان کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچتا ہے تو بھارت کی سرحدوں پر افغانستان جیسی کیفیت ہو گی۔ وہ ایک مضبوٖط پاکستان میں ہی اس خطے کی سلامتی دیکھتے ہیں۔ مگر نریندر مودی نے جس طرح بلوچستان میں مداخلت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اور جس ڈھٹائی سے بھارتی ہندوؤں نے اس کی حمایت کی ہے اس سے اس خطے کے متعلق مُثبت اندازسے سوچنا خاصا مشکل ہے۔ بھارتی اخباروں نے چینی ذرائع سے یہ خبر دی ہے کہ اگر بھارت نے بلوچستان میں مداخلت کی تو اس پر چین خاموش نہیں بیٹھے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ نریندر مودی کی موجودہ حکمت عملی اس خطے کے مسائل میں اضافہ کر دے گی۔ یورپ نے متعددجنگوں سے یہ سیکھا کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اب وہ باہمی تعاون کی نئی شاہراہوں پر سفر کر رہے ہیں ۔ بھارت کو اس خطے میں محاذ آرائی کے لیے نئے محاذ کھولنے کی بجائے تعاون اور ترقی کی طرف دیکھنا چاہیے۔ آخر کب تک اس خطے کے عوام حکمرانوں کی انا پرستی اور عاقبت نا اندیشیوں کی سزا بھگتتے رہیں گے۔ بھارت کے معقول رویے کے بغیر برصغیر کی ترقی کے کسی خواب کا بھی شرمندہ تعبیر ہونا مشکل نظر آتا ہے۔

مزید :

کالم -