اپوزیشن کا رویہ غیر پارلیمانی پاناما پیپرز کے قانون پر آئینی حق استعمال کیا جائیگا حکومت

اپوزیشن کا رویہ غیر پارلیمانی پاناما پیپرز کے قانون پر آئینی حق استعمال کیا ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 اسلام آباد( اے این این ) وفاقی حکومت نے کہا ہے کہ پانامہ پیپرز کے قانون پر اپنا آئینی حق استعمال کرینگے اور بل کی منظوری کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا سکتے ہیں، اپوزیشن کا رویہ غیر پارلیمانی، غیر ذمہ دارانہ ہے ان کا ایجنڈا کہیں اور سے ڈکٹیٹ ہورہا ہے انہیں آئندہ عام انتخابات میں اندھیرا نظر آرہا ہے ، حکومت اپنے لئے کوئی استثنیٰ نہیں ڈھونڈ رہی اب بھی اپوزیشن سے ہاتھ ملانے کو تیار ہیں، ہماری ٹانگیں نہ کھینچی جائیں، پی ٹی آئی ڈرامے بند کرے ، نواز شریف کا خاندان کمیشن کے سامنے جوابدہ ہوگا، ایف بی آر نے پانامہ پیپرز پر ہوم ورک مکمل کرلیا ہے، احتساب کو صرف پانامہ تک محدود نہ کیا جائے ، قرضہ معاف کرانے والوں کو بھی کٹہرے میں لایا جائے، تحریک انصاف کی سوئی صرف نوازشریف پر اٹکی ہوئی ہے، ضمنی الیکشن نے انہیں چہرہ دکھا دیا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار پانامہ پیپرز پر حکومتی ٹی او آر کمیٹی کے اراکین اور وفاقی وزراء سینیٹر اسحاق ڈار،زاہد حامد، اکرم خان درانی، میر حاصل بزنجو اور وزیر مملکت انوشہ رحمان نے گزشتہ روزپنجاب ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ چھٹے رکن کمیٹی خواجہ سعد رفیق لندن دورے کی وجہ سے موجود نہیں تھے ۔ وفاقی وزیر خزانہ اور حکومتی ٹی او آر کمیٹی کے سربراہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم نے سپیکر اسمبلی سے کئی بار رجوع کیا ہے جس کے بعد سپیکر نے اپوزیشن سے بات چیت کی ہے لیکن اپوزیشن کسی بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہے اگر سانحہ کوئٹہ نہ ہوتا تو اجلاس منعقد ہو جاتا، ہم نے وفاقی کابینہ سے پانامہ پیپرز کے تحقیقاتی کمیشن کیلئے نئے بل کی منظوری لی ہے جس کے ردعمل میں اپوزیشن نے سینٹ میں اپنا بل جمع کرا دیا ہے۔ قومی اسمبلی میں ہم نے اپنا بل پیش کردیا ہے جس کی اپوزیشن نے مخالفت کی ہے اب سینٹ میں 5ستمبر کو ہم ان کے بل کی مخالفت کرینگے۔ ہم با اختیار کمیشن بنانا چاہتے ہیں اور کوئی استثنیٰ نہیں مانگتے ، پانامہ پیپرز میں 400مقدمات ہیں لیکن اپوزیشن صرف وزیراعظم اور ان کے بچوں کے پیچھے پڑی ہے۔ وزیراعظم نے سب سے پہلے خود کو احتساب کیلئے پیش کیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ٹی او آر کمیٹی مذاکرات سے معاملہ حل کرسکتی تھی لیکن اپوزیشن نے بے صبری کی اور عجلت میں سینٹ میں بل لے آئی۔ اپوزیشن میں بعض عناصر کے اپنے مفادات ہیں ہمیں نہیں معلوم ان کے مقاصد اور اہداف ہیں۔ اپوزیشن صرف ایک خاندان کی نیت سے قانون لائی ہے ۔ انہوں نے اپنے بندوں کو نظر انداز کردیا ہے جن کے نام پر آف شور کمپنیاں موجود ہیں۔ ایک سوال پر اسحاق ڈار نے کہا کہ آئین کے تحت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر کوئی بھی قانون منظور کروایا جاسکتا ہے اور بظاہر لگ رہا ہے کہ یہ معاملہ بھی مشترکہ اجلاس میں جائے گا۔ اپوزیشن ذاتیات پر سیاست کررہی ہے اور اس خوف میں ہے کہ کہیں 2018ء کے انتخابات ہاتھ سے نہ نکل جائیں کیونکہ ضمنی الیکشن کے نتائج ان کے سامنے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ایف بی آر، اسٹیٹ بنک اور سیکورٹی ایکسچینج کمیشن پانامہ پیپرز کے حوالے سے اپنا کام کررہے ہیں ، ہم شروع دن سے مفاہمت اورمصالحت کی کوشش کررہے تھے اگر نیت درست ہو تو اپوزیشن سے اب بھی مذاکرات ہوسکتے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف کی فیملی کمیشن کو جواب دہ ہوگی۔ ہم نے اپوزیشن کی طرح کوئی استثنیٰ نہیں ڈھونڈا۔ اپوزیشن کو انا ترک کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی نے 126 دن دھرنے سے ملک کو اربوں کا نقصان پہنچایا ہے اور اب پھر وہ سڑکوں پر آرہی ہے، معیشت مستحکم ہورہی ہے لیکن یہ عناصر حکومت کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔ وزیراعظم بننے کی لالچ میں ملک کے مفادات کے نقصان پہنچایا جارہا ہے ۔ وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے اس موقع پر کہا کہ ہم نے 1956 کے ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے کچھ تحفظات کا اظہار کیا تھا جس کے بعد تحقیقاتی کمیشن کیلئے ترامیم کی ضرورت پڑی ہم 2016ء کا نیا بل لائے ہیں جس میں 1956ء کے ایکٹ کے تمام اختیارات موجود ہیں ، نئے بل میں تمام صوبائی ، وفاقی اور متعلقہ ادارے کمیشن سے معاونت کے پابند ہونگے اور کمیشن کے پاس فوجداری اختیارات بھی ہونگے، کمیشن عالمی ٹیم تشکیل دے سکے گا اور کسی بھی ملک سے تعاون لے سکے گا۔ کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لائی جائے گی، ہم نے 1956ء کے ایکٹ میں بعض حامیوں کودور کردیا اور کمیشن کو مکمل با اختیار بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی آف شور کمپنیوں کے نام پانامہ پیپرز میں نہیں ہیں اس لئے وہ صرف پانامہ پیپرز تک ہی محدود رہنا چاہتے ہیں انہیں خوف ہے کہ اگر احتساب کا دائرہ وسیع ہواتو وہ بے نقاب ہوجائیں گے، ہم تو قرضے معاف کرانے والوں کا بھی احتساب کرانا چاہتے ہیں لیکن اپوزیشن کی سوئی نواز شریف اور ان کے خاندان پر اٹکی ہوئی ہے ، ہم ٹی او آر کمیٹی میں جتنی لچک دکھا سکتے تھے اتنی دکھائی ہے۔ وفاقی وزیر ہاؤسنگ اکرم خان درانی نے کہاکہ اپوزیشن خود متفق نہیں ہے اور کئی بار ان کی آپس میں لڑائیاں ہوئی ہیں ، قرضوں کی معافی کے معاملے پر تو اپوزیشن کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں ہے ، ہمارا بل ان سے بہت بہتر اور موثر ہے ۔وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپنگ میر حاصل خان بزنجو نے کہاکہ احتساب بلا امتیاز ہونا چاہیے اور اسے صرف پانامہ پیپرز تک محدود نہ کیا جائے۔ اپوزیشن کارویہ شروع دن سے نا مناسب تھا اور وہ خود ہی جج اور خود کی منصف بن چکی ہے ۔ وزیر مملکت انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان نے کہا کہ نواز شریف کا نام پانامہ پیپرز میں موجود ہی نہیں ہے پھر صرف انہیں ہی کیوں نشانہ بنایا جارہا یہ چیز اپوزیشن کی بدنیتی ظاہر کرتی ہے۔

مزید :

صفحہ اول -